ترقی کا نعرہ پیچھے، ’ہندتوا‘ ایجنڈا آگے... م. افضل
مرکز کی مودی حکومت نے گزشتہ ساڑھے چار سال میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کو وہ عوام کے سامنے پیش کر سکے۔ حد تو یہ ہے کہ رافیل سودے کی بدعنوانی پر پردہ ڈالنے کے کھیل میں رام مندر کا شور برپا کر دیا ہے۔
ترقی کے وعدے اور دعوے کرنے والی بی جے پی ایک بار پھر مذہب کی سیاست کی طرف لوٹ آئی ہے۔ ساڑھے چار برس کی خاموشی کے بعد اب اچانک رام مندر کی تعمیر کا مطالبہ تیز ہوگیا ہے معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور قانونی طور پر جو معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہو اس پر عدالت کے باہر بیان بازی نہیں ہونی چاہیے، لیکن یہاں تو بات اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے۔ مندر کی تعمیر کو لے کر شرانگیزیاں ہورہی ہیں اور کھلے لفظوں میں دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں کہ اگر کوئی برعکس فیصلہ آتا ہے تو سبری مالا مندر کی طرح اس فیصلے کو بھی اکثریتی فرقہ قبول نہیں کرے گا ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جو آر ایس ایس ساڑھے چار برس تک اس ایشوپر خاموش رہی اب وہ بھی مندر تعمیر کو لیکر قانون سازی کا مطالبہ کرنے لگی ہے۔ اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس سے جڑی دوسری تنظیمیں اور سادھو سنت ایک زبان ہو کر مندر کے حق میں ماحو ل تیار کرنے میں مصروف ہو چکے ہیں ایسے میں فطری طور پر ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ لوگ ساڑھے چار سال تک خاموش کیوں رہے اور اگر عدالت کے فیصلہ کا انتظار کئے بغیر ہی مندر تعمیر کرنا تھا تو اس سے پہلے اس کے لئے قانون سازی کا مطالبہ کیوں نہیں ہوا؟
اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ان لوگوں کو مندر سے کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ وہ اس کو لیکر سیاست کرنا اور بی جے پی کو دوبارہ اقتدار میں لانا چاہتے ہیں۔ درحققیت وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں نے دوسروں کے لئے جو جال تیار کیا تھا اب وہ خود اس میں پھنس چکے ہیں سرکار ہر محاذ پر ناکام ہوچکی ہے ۔کرناٹک کے ضمنی الیکشن میں بی جے پی کی شرمناک شکست یہ بتارہی ہے کہ عوام مودی سرکار سے مایوس ہو چکے ہیں دوسرے جن پانچ ریاستوں میں الیکشن ہونے والے ہیں وہاں بھی مودی مخالف لہر چل پڑی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان ناکامیوں کے لئے اب لوگ بی جے پی کو سبق سکھانے پر کمربستہ ہو چکے ہیں پچھلے دنوں کچھ اخباروں میں یہ خبر آئی تھی کہ آر ایس ایس نے اپنے طور پر جو خفیہ سروے کرایا ہے اس سے صاف اشارہ ملا ہے کہ مودی کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے آرہا ہے اور اگر حالات میں کوئی بہتری نہیں آتی تو بی جے پی 2019کا پارلیمانی الیکشن ہار سکتی ہے اس سروے نے آر ایس ایس کو شاید چوکنا کر دیا ہے ہر چند کہ اسے مودی کا انداز حکمرانی پسند نہیں اور جس طرح مودی نے سب کچھ اپنے کنٹرول میں کر رکھا ہے وہ اس سے بھی نالاں ہے اسے یہ بھی گوارہ نہیں کہ اس کی بالا دستی کو کوئی چیلینج کرے مگر ان سب کے باوجود اپنے ہندوتو کے مشن کو ملک پر لاگو کرنے کے لئے اسے ابھی مزید کچھ عرصہ تک اقتدار کی ضرورت ہے چنانچہ اس نے منصوبہ بند طریقے سے مندر کی سیاست شروع کردی ہے ۔
حال ہی میں دہلی میں سادھو سنتوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں سب نے ملکر مطالبہ کیا کہ مندر کی تعمیر کے لئے سرکار یا تو قانو ن سازی کرے یا پھر آرڈیننس لائے ان سنتوں کا یہ جماوڑہ سرکار کے خلاف ہر گز نہیں تھا اور نہ ہی یہ لوگ اس کے لئے کوئی خطرہ بننا چاہتے ہیں بلکہ یہ ڈرامہ اکثریت کو متحد کرنے اور ان میں مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا دینے کے لئے کیا گیا شاید یہی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں سرکار سے مندر کی تعمیر کا مطالبہ ہوا وہیں عوام سے کہا گیا کہ اگر بہو بیٹیوں اور اپنی ثقافت کو بچانا ہے تو بی جے پی کو ایک بار پھر اقتدار میں لانا ہو گا ادھر آر ایس ایس کے سکریٹری جنرل یہ بیان دے چکے ہیں کہ اگر ضرورت ہوئی تو مندر کے لئے 1992جیسی تحریک دوبارہ چلائی جاسکتی ہے ۔ درحقیقت مندر تعمیر کی آڑ میں یہ جو کچھ شروع ہوا ہے اس کے دوبنیادی مقصد ہیں اول یہ کہ مسلسل بیان بازی اور اشتعال انگیزی کرکے الیکشن سے پہلے پہلے فرقہ وارانہ صف بندی قائم کردی جائے دویم یہ کہ عدالت کو یہ باور کرادیا جائے کہ برعکس فیصلہ آنے کی صورت میں ہم لوگ کیا کرسکتے ہیں گزشتہ دنوں اپنے کیرالہ دورہ کے دوران بی جے پی صدر امت شاہ جو کچھ کہہ چکے ہیں اس سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ مندر کو لیکر کچھ ایسا ماحول تیار کرنے کی کوشش ہورہی ہے جس میں عدالت کوئی برعکس فیصلہ دینے سے پہلے سوبا رسوچے۔ امت شاہ کا یہ کہنا کہ عدالت کوئی ایسا فیصلہ نہ دے جس پر عمل مشکل ہو جائے ایک واضح اشارہ ہے۔ بظاہر یہ بات انہوں نے سبری مالا مندر کے تناظر میں کہی ہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کا نشانہ کہا ں ہے درحقیقت امت شاہ اس طرح کا بیان دے کر یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ اگر اجودھیا معاملہ کو لے کر ا س طرح کا کوئی فیصلہ آتا ہے تو سبری مالا مندر فیصلے کی طرح اکثریتی فرقہ اس فیصلے کو بھی قبول نہیں کرے گا۔
اتر پردیش میں اس معاملہ پر سرکاری سطح پر کچھ زیادہ ہی سرگرمی دکھائی دے رہی ہے یوں تو یوگی آدتیہ ناتھ جب سے اقتدار میں آئے ہیں ہندوتوا کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اپنے ہر فیصلہ سے وہ سماج میں تعصب اور تفریق کو بڑھاوا دینے میں مصروف ہیں اور اب مندر کو لے کر بھی ان کا جو بیان آیا ہے وہ چونکانے والا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ دیوالی بعد مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوجائے گا لیکن ان کے نائب کیشوپرساد موریہ کا بیان اس کے برعکس ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ معاملہ عدالت میں ہے اس لئے ہم مندر تعمیر کی تاریخ کا اعلان نہیں کرسکتے لیکن اجودھیا میں جلد ہی دنیا کے سب سے اونچے رام کے مجسمہ کی تعمیر کا کام شروع ہوجائے گا اس کے بعد وہ دھمکی آمیز لہجہ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں رام کا مجسمہ بنوانے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ اطلاعات ہیں کہ پٹیل کی طرح اجودھیا میں رام کا بھی مجسمہ نصب کرنے کا منصوبہ ریاستی سرکار نے تیار کیاہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ مجسمہ پٹیل کے مجسمہ سے نہ صرف بلند ہوگا بلکہ اسے دنیا کا طویل ترین مجسمہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوگا۔اکثریت کو خوش کرنے کے جوش میں یوگی فیض آباد کا نام بدلنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ مندر کو لے کر سب بول رہے ہیں یہاں تک کہ سرکار کے بعض وزرائ بھی مندر کی تعمیر کے حق میںنظر آتے ہیں لیکن وزیر اعظم نریندر مودی خاموش ہیں البتہ ان کے نائب امت شاہ اب تک کئی بار آ رایس ایس سربراہ سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ ان ملاقاتوں کے دوران ان میں کیا بات ہوئی اس کا علم کسی کو نہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ملاقاتیں مودی کی کم ہوتی مقبولیت اور ان کے بعض فیصلوں پر اٹھنے والے تنازعات جن میں رافیل معاہدہ سرفہرست ہے کے پس منظر میں ہوئی ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ رافیل معاہدہ،سی بی آئی اور آر بی آئی جیسے معاملوں میں مودی بری طرح گھر چکے ہیں اور اب عوام کی اکثریت یہ سوچنے لگی ہے کہ یہ سرکارنااہل اور بدعنوان ہے اور اب وہ اپنی آمرانہ روش سے اہم سرکاری اداروں کو بھی تباہ کررہی ہے۔ جہاں تک رافیل معاہدہ کا تعلق ہے کانگریس صدر راہل گاندھی نے نہ صرف اس کی تمام تر حقیقت کھول کے رکھ دی ہے بلکہ اس کو عوام تک بھی پہونچا دیا ہے، وہ معاہدہ کو لے کر جو سوال اٹھارہے ہیں وہ لوگوں کی سمجھ میں آرہا ہے اور وہ اس تہ تک بھی پہونچ رہے ہیں کہ ایک سرکاری کمپنی کو راستے سے ہٹاکر امبانی کی گیارہ دن پرانی کمپنی سے پہلے کے مقابلہ کئی گنا قیمت پر معاہدہ کیوں ہوا؟ اب تو معاہدوں سے متعلق تمام کاغذات سپریم کورٹ نے بھی طلب کرلئے ہیں۔
ان حالات میں لوگوں کی توجہ رافیل معاہدہ میں ہوئی سنگین بدعنوانی سے ہٹانے کے لئے مندرسے بہتر اور موثر ایشو اورکیاہوسکتا ہے۔ چنانچہ اگر کچھ لوگوں کو یہ گمان ہے کہ آر ایس ایس اور اس سے جڑی تنظیمیں اور سادھو سنت مندر کی تعمیر کا مطالبہ کرکے مودی سرکار کو بیک فٹ پر لانا چاہتے ہیں یا اس کے لئے کوئی پریشانی کھڑا کرنا چاہتے ہیں تو ان کا یہ سوچنا سراسر غلط ہے۔ اب جو کچھ ہورہا ہے سرکار کی مرضی اور منشائ کے مطابق ہورہا ہے۔ درحقیقت مندر کے شور میں وزیر اعظم نریندر مودی کی نا کامیوں کے ساتھ ساتھ رافیل معاہدہ کی بدعنوانی پر بھی پردہ ڈالنے کی بڑی خوبصورت کوشش ہورہی ہے 2019 کا الیکشن جیتنے کے لئے یہ لوگ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں‘ جگہ جگہ فسادات بھڑکائے جاسکتے ہیں۔ پروپیگنڈوں اور اشتعال انگیزی کی دھار مزید تیز کی جاسکتی ہے اس لئے کہ یہ جو بھی لوگ ہیں ان کو ملک کا اتحاد اور مفاد نہیں اقتدار عزیز ہے اور اس اقتدار کے لئے وہ ملک کے آئین وقانون کو ٹھو کر مارسکتے ہیں۔یہ لوگ پہلے بھی ایسا کرچکے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 11 Nov 2018, 5:09 PM