گجرات قتل عام: ظلم کی ایک لمبی داستان

صدام کیمپ میں چھوٹے بچوں کو جمع کرتا تھا اور ان کو بتاتا تھا کہ کیسے غنڈوں نے اس کی والدہ کے ساتھ عصمت دری کی تھی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

شبنم ہاشمی

یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق

نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی

یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول

نہ اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی

فیض احمد فیضؔ

مارچ 2002کے پہلے ہفتہ سے آج تک میں نے زندگی کا بڑا حصہ گجرات میں گزارا ہے۔

گجرات قتل عام سے متعلق متعدد قومی اور بین الاقوامی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹیں، مضامین، فیچر فلمیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور ان سب کے بعدشاید اب کچھ نیا لکھنے کے لئے گنجائش نہیں بچی ہے ۔

قتل عام کے بعد ابتدائی کچھ مہینوں میں 1.5لاکھ خاندانوں کے بے گھرہونے کی گواہ رہی ہوں۔ ان ریلیف کیمپوں میں جب فسادمتاثرین کے حالات دیکھے، سنے اور جب اجتماعی عصمت دری کے غمزدہ واقعات سنے تو اس نے مجھے اور ان کو جو مظلومین کے لئے کام کر رہے تھے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ 16سال بعد بھی وہ یادیں ذہن سے جانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

ایک 80سالہ خاتوں تھیں جن کی یادیں مجھے آج بھی پریشان کرتی ہیں۔ میری اس خاتون سے دریا خان گنبد کیمپ میں بہت مختصر ملاقات ہوئی تھی۔ اس خاتون کا نام نور جہاں تھا اور ان کے چہرے پر جھریاں تھیں اور کمر تھوڑی جھکی ہوئی تھی۔ جب یہ خاتون دفتر میں داخل ہوئیں تو وہ سیدھے میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھ سے سوال کیا ’’کیا آپ بیواؤں کو پیسہ دے رہی ہیں؟‘‘ اس سے پہلے میں کوئی جواب دیتی نور جہاں نے کہا کہ باہر سلائی مشین تقسیم ہو رہی ہیں اور یہ کہہ کر وہ فوراً وہاں سے چلی گئیں۔ تھوڑا رک کر میں ان کے پیچھے باہر گئی۔ دریا خان گنبد کیمپ ایک اسکول بلڈنگ میں تھا اور اس وقت اس کیمپ میں 6000متاثرین تھے۔ خواتین اور بچوں کو دھکا دیتی ہوئی میں ان بزرگ خاتون کو 20منٹ تک ڈھونڈتی رہی لیکن وہ مجھے نہیں ملیں۔ میرے آنسو بہہ نکلے اورپتہ نہیں مجھے کیوں رونا آیا۔ وہ بزرگ خاتون کا نہ کوئی نام تھا نہ چہرا تھا شاید انہوں نے اپنے خاندان کے تمام افراد کو کھو دیا تھا۔ اکثر میرے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ وہ میری والدہ ہو سکتی تھیں ، آپ کی والدہ ہو سکتی تھیں۔ ان کا چہرا میری یادوں میں گھر کر گیا ہے۔

صدام اب شاید 24سال کا ہو گیا ہوگا۔ لطیفہ جو گودھرا کیمپ کی دیکھ بھال کرتی تھی اس نے مجھے اس سے اور اس کے بھائیوں سے متعارف کرایا تھا۔ آٹھ سالہ صدام بغیر رکے بولتا جاتاتھا۔ وہ کیمپ میں چھوٹے بچوں کو جمع کرتا تھا اور ان کو بتاتا تھا کہ کیسے غنڈوں نے اس کی والدہ کے ساتھ عصمت دری کی تھی۔ شاید اس سانحہ سے نمٹنے کا اس کے پاس یہی ایک راستہ تھا۔اس کو یہ سمجھانے میں لطیفہ کو کئی دن لگے کہ اسے یہ سب باتیں بچوں کے ساتھ نہیں کرنی چاہئے۔ صدام کے والد کا انتقال ہو چکا تھا اور جس دن ان کے گاؤں پر حملہ ہوا اس وقت اس کی والدہ نے اس کو 50روپے دئیے اور کہا کہ وہ وہاں سے بھاگ جائے اور اپنی جان بچا لے لیکن وہ وہاں سے بھاگا نہیں اور وہیں جھاڑیوں میں چھپ گیا۔ وہ اس بات پر تفصیل سے بات کرتا تھا کہ اس کی والدہ کے ساتھ مودی کے لوگوں نے کیا کچھ کیا۔

اس کی جو تصویر میرے ذہن میں تھی وہ اس سے مختلف تھی۔ شاہ عالم کیمپ کے کئی دوروں کے بعد بھی میں اس سے ملنے میں ناکام رہی۔ اس کے شوہر سے میری دو مرتبہ ملاقات ہوئی۔ میں نے بہت سے چشم دید گواہوں کے انٹرویو کئے تھے لیکن اس نے دنیا کو اپنے لئے بند کر لیا تھا اور وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ 20مردوں نے اس کے ساتھ منہ کالا کیا تھا اور وہ جب ملی اور اس کو اسپتال لے جایا گیا تھا اس وقت وہ پوری طرح برہنہ تھی۔ عصمت دری کی متاثرین کی تمام کہانیاں ابھی تک کسی کو معلوم نہیں ہیں۔ عصمت دری کے سینکڑوں واقعات میں سے محض تین واقعات عدالت تک پہنچ پائے ہیں۔

ایسی بے شمار تکلیف دہ یادیں ہیں۔ مایوسی ہی نہیں بلکہ لمبی جدو جہد اور صبر کی بے شمار کہانیاں ہیں۔ اتنے دستاویزات، کہانیوں اور فلموں کے با وجود ہر کہانی سامنے نہیں آ پائی ہے ۔ قتل عام سے متعلق جو دستاویزات تیار کئے گئے ہیں وہ ہمارے اور آپ کے لئے کافی ہوں لیکن ہر مظلوم کی اپنی کہانی ہے جس کو ابھی بھی سننے کی ضرورت ہے۔ ان کو ابھی بھی انصاف اور ہمدردی کی ضرورت ہے۔

سنگھ رات و دن ہندوستان کو ایک فاشسٹ ملک میں بدلنے کے لئے کوشاں ہے اور اس کا چھوٹا نمونہ سال 2002میں گجرات میں پیش کر چکا ہے۔ وہ اس کو ’گجرات ماڈل‘ کہتے ہیں اور اب ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ وہ اس نفرت اور تشدد کے ماڈل کو پورے ہندوستان میں دہرائیں۔ اس کا واضح مقصد پورے ہندوستان میں بد امنی اور بے چینی پھیلانا ہے۔

گجرات میں ایک نیا موڑ آیا ہے یعنی اب گجرات کے عوام کے دل و دماغ میں ایک چھوٹی سی کھڑکی کھلنی شروع ہوئی ہے۔ مایوس نوجوانوں کو اب یہ احساس ہو راہ ہے کہ کس طرح سماج کا تانا بانا توڑا گیا اور کس طرح نفرت کے بیج بوئے گئے اور کس طرح اقتدار کی سوئی مودی کے حق میں موڑی گئی۔ ایکٹیوسٹ، دانشوران، وکلاء برادری اور سماج کے بیدار لوگوں کی مشترکہ جدو جہد کے نتائج اب سامنے آنے لگے ہیں۔ نوجوان رہنما اب اپنی بے چینی کو آواز دے رہے ہیں۔ وہ صرف سماجی اوراقتصادی مسائل پر بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ بے خوف ہو کر نفرت کے خلاف لڑ رہے ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے کام کر رہے ہیں۔

2002کے قتل عام کے بعد سے جو لوگ ان مسائل پر کام کر رہے ہیں ان کی ایک لمبی فہرست ہے۔ان 16سالوں میں انصاف اور نفرت کے خلاف لڑائی کئی محاذ پر لڑی گئی اور یہ لڑائی گجرات کے اندر اور باہر دونوں جگہ لڑی گئی۔ یہ لڑائی لڑنے والوں کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ ان کے نام لکھنا ممکن نہیں ہیں۔

گجرات سے ہندوستان کو جو سب سے بڑا سبق سیکھنا ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ گجرات کو’ ہندوتوا کی لیباریٹری ‘بنانے کے باوجود سنگھ ہر ذہن کو فاشسٹ ذہن میں تبدیل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ وہ ہرآواز کو خاموش نہیں کر پائے ۔ جب تشدد اور نفرت اپنے عروج پر تھی اور اس وقت مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا، سینکڑوں خواتین کے ساتھ عصمت دری ہو رہی تھی اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو رہے تھے اس وقت بھی عام خواتین نے مسلم خواتین کو پناہ دی، عام ہندؤوں نے گجرات کے ہر کونے میں اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر مسلمانوں کی مدد کی۔

اگر ہندوستان کی مختلف سیاسی پارٹیوں نے ’گجرات ماڈل‘ کو سنجیدگی سے لیا ہوتا اور اس کو باریکی سے پڑھا ہوتا تو ہندوستان کو ان قووتوں کے حملوں سے بچایا جا سکتا تھا۔ بد قسمتی کی بات ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے بہت سے لوگوں کو جنونی کہہ کر مذاق اڑایا۔ ہم کسی بھی مسئلہ کا اس وقت تک حل نہیں تلاش کر سکتے جب تک اس مسئلہ کو سمجھ نہ لیں اور اس کا ہر زاویہ سے تجزیہ نہ کر لیں۔ فاشسٹ رجحان کی موجودگی سے منکر ہونا ، دائیں بازو کے دہشت گرد نیٹورک سے واقٖف نہ ہونا، ظالموں کو تشدد کرنے کے بعد بھی چھوڑ دینا، دفائی سیاست کرنا، اپنے کارکنان کے ساتھ مل کر کام نہ کرنا اور اپنے ضمیر کو سوتے رہنے دینا یہ ایسی بڑی غلطیاں ہیں جن کو سیکولر سیاسی پارٹیوں کو فورا ًٹھیک کر نا ہوگا۔

یہ ایک سیاسی جنگ ہے اور ایکٹیوسٹ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، سول سوسائٹی ان قووتوں کے خلاف لڑائی میں صرف مددگار کا کردار ادا کر سکتی ہیں ۔ اگر مگر کا وقت نہیں رہ گیا ہے ۔ وقت کی ضرورت ہے کہ قومی اور ریاستی سطح پر سیکولر پارٹیوں کا ایک وسیع اتحاد بنے ۔ ملک سیاسی پارٹیوں کی تاریخی غلطیوں کی قیمت چکانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 28 Feb 2018, 8:59 PM