نریندر مودی کے لیے شرد پوار ’گرو‘ ہیں، لیکن امت شاہ کے لیے ’مافیا‘!

شرد پوار پر عرصہ تک ڈورے ڈال کر ہار مان چکی بی جے پی بریگیڈ نے اب مراٹھا لیڈر پر حملہ تیز کر دیا ہے، لیکن یہ اس کے لیے ہی نقصاندہ ہے۔

شرد پوار، تصویر یو این آئی
شرد پوار، تصویر یو این آئی
user

نوین کمار

پونے میں بی جے پی کے ریاستی کنونشن میں 21 جولائی کو پارٹی کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے امت شاہ نے شرد پوار کو ’ملک میں بدعنوانی کا سب سے بڑا ماسٹر مائنڈ‘ قرار دیا۔ انھوں نے بڑی تلخی سے کہا کہ ’’اگر بدعنوانی کو ادارہ جاتی بنانے کے لیے کوئی ذمہ دار ہے، تو وہ بلاشبہ شرد پوار ہیں۔‘‘ ستم ظریفی دیکھیے کہ اس تقریب کا انعقاد جس اسٹیڈیم میں ہو رہا تھا، اسے پوار کے ہی کہنے پر بنایا گیا تھا۔

این سی پی (ایس پی) رکن پارلیمنٹ سرپا سولے نے اپنے والد اور پارٹی چیف کے خلاف وزیر داخلہ کے بیان کو مضحکہ خیز بتایا۔ یہ بی جے پی حکومت ہی تھی جس نے شرد پوار کو 2017 میں ’پدم وبھوشن‘ سے نوازا تھا اور وہ نریندر مودی ہی تھے جنھوں نے گجرات کا وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے پوار کو اپنا ’سیاسی گرو‘ (سیاسی استاد) بتایا تھا۔ حالانکہ مودی نے لوک سبھا انتخابات کے دوران پوار کو ’بھٹکتی آتما‘ کہا اور شاہ نے جس تلخ انداز میں پوار پر حملے کیے، اس نے سیاسی حلقوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔


یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے کہ بی جے پی نے شرد پوار کو لبھانے کی پرزور کوششیں کین۔ یہاں تک کہ اس نے یہ مشورہ بھی دیا کہ مہاراشٹر میں چھوٹی پارٹیوں اور الگ الگ گروپوں کو بی جے پی میں اپنا انضمام کرنے سے متعلق سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ خیر، پوار دباؤ میں نہیں جھکے اور وہ ایم وی اے (مہاوکاس اگھاڑی) اور انڈیا بلاک کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ کہیں یہی مایوسی تو وجہ نہیں تھی کہ امت شاہ کا رویہ اتنا شدت پسندانہ اور زبان اتنی تلخ رہی؟ شاہ نے چیختے ہوئے کہا ’’ایک بار جب ہم مہاراشٹر، ہریانہ اور جھارکھنڈ جیت لیں گے تو راہل گاندھی کا تکبر چور چور ہو جائے گا۔‘‘ اس پر اسٹیج پر موجود لیڈران نے بڑے ہی رسمی انداز میں تالیاں بجائیں اور پارٹی کارکنان نے بھی آدھے ادھورے جوش کے ساتھ اپنا رد عمل ظاہر کیا۔ ایسا رد عمل دیکھ کر شاہ کو ڈرامائی انداز میں اپنی بات مزید زور سے کہنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ شرد پوار اور راہل گاندھی پر حملہ کرنے کے بعد شاہ کے نشانے پر ادھو ٹھاکرے تھے جن پر انھوں نے ممبئی دھماکہ معاملوں کے ایک ملزم یعقوب میمن کے لیے معافی مانگنے والے گروہ میں شامل ہونے کا الزام لگایا۔ واضح طور سے شاہ متحد این پی سی کا ذکر کر رہے تھے جس کا حصہ اجیت پوار بھی ہوا کرتے تھے۔ کیا وہ بھول گئے کہ بی جے پی نے اجیت پوار سے ہاتھ ملا لیا ہے اور انھیں محکمہ مالیات کے ساتھ نائب وزیر اعلیٰ بھی بنا دیا ہے؟

ظاہر ہے، امت شاہ پر ان تینوں ریاستوں کو جیتنے کا دباؤ ہے جو بی جے پی سے دور رہ گئے، لیکن مبصرین کو لگتا ہے کہ ان کے اس تلخ حملے سے فائدہ ہونے کی جگہ نقصان ہی ہوا ہے۔ نہ تو ایکناتھ شندے اور نہ ہی اجیت پوار نے اپنی پارٹیوں کو بی جے پی میں ضم کرنے یا مہایوتی اتحاد میں بی جے پی کو بڑے بھائی کی شکل میں قبول کرنے کی کوئی خواہش ظاہر کی ہے۔ کئی این سی پی اراکین اسمبلی اور کچھ رپورٹس کے مطابق خود اجیت پوار بھی شرد پوار کی قیادت والی اصل پارٹی میں لوٹنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ایکناتھ شندے ’اصل‘ شیوسینا نظر آنے کی لڑائی میں ادھو ٹھاکرے پر براہ راست حملے کر رہے ہیں۔


اشتہاری مہم اور فلمی پالیسی:

پورے مہاراشٹر میں شندے کی تصویر والے بڑے بڑے ہورڈنگ لگائے گئے ہیں۔ قبل از انتخاب مہم کے تحت شندے کو عوام کے ذریعہ منتخب کردہ لیڈر ’اپالا ناتھ‘ کی شکل میں پیش کرنے کے لیے اشتہاری مہم شروع کی گئی ہے۔ ہورڈنگز اور اشتہارات دونوں میں مودی، شاہ اور فڑنویس کو کنارے کر دیا گیا ہے۔ شندے پہلے ہی کئی اشتہاری ایجنسیوں اور سیاسی پالیسی سازوں سے مشورہ لے چکے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ شبیہ بدلنے کے لیے بے تاب اجیت پوار نے بھی سیاسی ڈیجیٹل مہم مینجمنٹ ایجنسی ’ڈیزائن باکسڈ اینوویشنز‘ کی خدمات لی ہیں۔ یہ ایجنسی پہلے راجستھان میں اشوک گہلوت کے لیے کام کر چکی ہے اور اس نے انتخابی تشہیر میں گلابی رنگ کا خوب استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ کمپنی اجیت پوار کے لیے کون سا رنگ تجویز کرتی ہے۔

شندے مراٹھی فلم ’دھرم ویر‘ کے دوسرے حصہ پر بھی داؤ لگا رہے ہیں جو ٹھانے کے آنجہانی شیوسینا لیڈر آنند دیگھے کی بایو پک ہے۔ شندے کا دعویٰ ہے کہ دیگھے ان کے استاد تھے۔ فلم کا پہلا حصہ مئی 2022 میں ریلیز کیا گیا تھا، شندے کی بغاوت سے ٹھیک پہلے جب شیوسینا میں دو پھاڑ کرتے ہوئے وہ بیشتر اراکین اسمبلی کے ساتھ گواہاٹی چلے گئے تھے۔ ’دھرم ویر 2‘ اسمبلی انتخاب سے قبل اگست میں ریلیز ہو رہی ہے اور او ٹی ٹی پلیٹ فارم کے علاوہ ریاست کے ہر سنیما ہال میں اسے مفت میں دکھائے جانے کا امکان ہے۔ راجیہ سبھا رکن سنجے راؤت نے الزام لگایا کہ سیاست سے متاثر یہ فلم دیگھے اور شیوسینا بانی بال ٹھاکرے دونوں کے تئیں ہتک عزتی ہے۔


ٹھانے کے آنند آشرم میں ربار لگاتے ہوئے آنند دیگھے بڑے مقبول ہوئے اور ’دھرم ویر‘ کی شکل میں پہچانے جانے لگے۔ 2001 میں کار حادثہ کے بعد اسپتال میں ان کا انتقال ہو گیا۔ تب وہ صرف 50 سال کے تھے۔ دیگھے کے کئی حامی اب بھی مانتے ہیں کہ ان کا قتل کیا گیا تھا، حالانکہ دیگھے کے شاگرد نارائن رانے نے اس معاملے مین سازش کے امکانات سے انکار کیا۔ رانے کا دعویٰ ہے کہ سنگھانیا اسپتال مین دیگھے کو زندہ دیکھنے والے وہ آخری شخص تھے اور وہ جیسے ہی ان کے پاس سے ہٹے، دیگھے کی سانسیں بند ہو گئیں۔ دیگھے کی موت کے بعد ان کے حامیوں کی بھیڑ نے اسپتال کو تہس نہس کر دیا تھا۔ اس ماہ کے شروع میں شندے نے بابی دیول کو فلم کا پوسٹر جاری کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ رہائش پر مدعو کیا تھا۔ فلم میں کردار نبھانے والے شندے کو امید ہے کہ یہ فلم انھیں شیو سینکوں کی حمایت جیتنے اور ٹھانے میں اپنی گرفت مضبوط کرنے میں مدد کرے گی۔

کراس ووٹنگ:

12 جولائی کو قانون ساز کونسل کے رکن (ایم ایل سی) سے متعلق انتخاب میں ریاست میں برسراقتدار اتحاد کے ذریعہ میدان میں اتارے گئے سبھی 9 امیدواروں کی جیت اپوزیشن ایم وی اے کو پریشان کر رہی ہے۔ قانون ساز کونسل کی 11 سیٹوں کے لیے 12 امیدوار میدان میں تھے جنھیں اسمبلی اراکین کے ذریعہ منتخب کیا جانا تھا۔ امیدوار کو جیتنے کے لیے 23 ’اولین ترجیح‘ والے ووٹ حاصل کرنے تھے۔ 15 اراکین اسمبلی والی شیوسینا (یو بی ٹی) اور 10 اراکین اسمبلی والی این سی پی (ایس پی) کے پاس واضح ضروری تعداد کی کمی تھی، جبکہ 31 اراکین اسمبلی والی کانگریس اپنے امیدواروں میں سے ایک کو فتحیاب کرانے کی حالت میں تھی۔ باقی ووٹ ظاہر طور پر شیوسینا (یو بی ٹی) کے ملند نارویکر کے حق میں ڈالے گئے جو جیت گئے۔ حالانکہ این سی پی (ایس پی) کی حمایت والے پی ڈبلیو ڈی (پیجنٹس اینڈ ورکرس پارٹی آف انڈیا) امیدوار جینت پاٹل ہار گئے۔ یہاں تک کہ 103 اراکین اسمبلی والی بی جے پی بھی صرف 5 سیٹیں ہی جیت سکی، حالانکہ لوک سبھا انتخاب میں ہارنے والی پنکجا منڈے کو قانون ساز کونسل میں لانے میں کامیاب رہی۔ 38 اراکین اسمبلی والی شیوسینا (شندے) اور 42 اراکین اسمبلی والی این سی پی کو دو دو سیٹیں ملیں، حالانکہ تینوں ہی پارٹیوں کے پاس تعداد کم تھی اور انھیں اپوزیشن خیمہ کی کراس ووٹنگ سے فائدہ ہوا۔


دیکھا جائے تو ووٹنگ خفیہ طریقے سے ہوئی، لیکن کانگریس اراکین اسمبلی پر پارٹی کی آفیشیل امیدوار پرگیا راجیو ساتو کے جیتنے کے باوجود کراس ووٹنگ کے الزامات لگے۔ مبینہ کراس ووٹنگ نے اپوزیشن اتحاد پر داغ لگا دیا ہے اور ایم وی اے کی یکجہتی اور آپسی تال میل کو لے کر سوال اٹھ رہے ہیں۔ ریاستی کانگریس کے لیڈران نے دعویٰ کیا ہے کہ کراس ووٹنگ کرنے والوں کی شناخت کر لی گئی ہے اور پارٹی ان کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔ حالانکہ ایم وی اے لیڈر بے فکر نظر آ رہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ایم ایل سی انتخاب کا اکتوبر میں ہونے والے اسمبلی انتخاب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔