شرد پوار نے شیواجی کے قلعہ پر ’توتاری‘ کی آواز بلند کر دی… سجاتا آنندن
شرد پوار کے لیے ’توتاری‘ انتخابی نشان ایک انعام کی طرح ہے جس نے اجیت پوار گروپ کے منہ کا ذائقہ کھٹا کر دیا ہے۔
موجودہ حالات میں ’نیشنلسٹ کانگریس پارٹی- شردچندر پوار‘ کے لیے پارٹی نشان ’توتاری‘ کا انتخاب بہت کارآمد ہو سکتا ہے۔ دراصل یہ چھترپتی شیواجی مہاراج کا روایتی ’بگل‘ ہے جس سے مہاراشٹر کے سبھی طبقات آشنا ہیں۔ اس ’توتاری‘ کا استعمال بادشاہ کے دربار میں آمد کا اعلان کرنے والی رسمی پکار کے لیے بھی کیا جاتا تھا۔ حالانکہ یہ کوئی فوجی بگل نہیں ہے۔ یہ پیتل کا ساز ہے جو اب عام طور پر موسیقی کے شعبہ میں ’جاز‘ اور کلاسیکی سازوں تک محدود ہے۔ بال ٹھاکرے کے دور میں شیو سینا میں یہ بہت مقبول تھا۔ دراصل انھوں نے خود کے بارے میں ایسا تصور پیش کیا تھا جیسے شیواجی کا دوبارہ جنم ہوا ہو۔ ایسے میں انھوں نے ’توتاری‘ یعنی بگل بجانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ یہ ’توتاری‘ اس وقت بھی بجایا جاتا ہے جب بڑی سیاسی جماعتیں کوئی بڑی مہم شروع کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں مہاراشٹر دورہ پر پہنچنے والے وزرائے اعظم، صدور اور دیگر معززین کے اعزاز میں بھی روایتی طور پر ’توتاری‘ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اس طرح دیکھا جائے تو یہ ’توتاری‘ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے اب مشکلات پیدا کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ’نیشنلسٹ کانگریس پارٹی- شردچندر پوار‘ کو چھوڑ کر باقی پارٹیاں اپنی تقاریب میں ’توتاری‘ بجانے کے رسم کو ترک کر سکتی ہیں کیونکہ ایسا کرنا وہ ’نیشنلسٹ کانگریس پارٹی-شردچندر پوار‘ کی پارٹی کی حوصلہ افزائی تصور کریں گی۔
شرد پوار نے گزشتہ ہفتہ ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اپنے سیاسی کیریئر میں کم از کم چار انتخابی نشانوں سے گزرے ہیں اور انتخابات سے ہفتوں پہلے انہیں نئے نشان کے ساتھ مقابلے میں اترنا پڑا ہے۔ حالانکہ اس سے ان کے سیاسی نظریات میں کبھی زیادہ فرق نہیں پڑا۔ انہوں نے سوشلسٹ کانگریس کے ساتھ بیل گاڑی کے نشان سے آغاز کیا، پھر انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ ہاتھ اور این سی پی کے ساتھ گھڑی، جو ان کے لیے سب سے زیادہ چیلنج بھرا دور تھا۔ اس وقت وہ چرخہ بطور انتخابی نشان چاہتے تھے، لیکن الیکشن کمیشن یہ نشان دینے سے انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے گھڑی کا انتخاب کیا جو چرخہ کے سب سے قریب تر تھا۔ اس نشان نے پارٹی کے لیے کوئی غیر معمولی عمل انجام دیا ہے کیونکہ اسمبلی میں پوار کے نمبر ویسے ہی رہے جیسا کہ وہ دوسرے انتخابی نشانات کے ساتھ برسوں سے رہے تھے۔ یعنی ان کی سیٹیں اوسطاً 55 سے 58 کے درمیان رہیں، اور بیشتر سیٹیں مغربی مہاراشٹر کی تھیں۔
لیکن ’توتاری‘ کی اپنی ایک علیحدہ اہمیت ہے۔ یہ اب بھی دیہات میں استعمال ہونے والا ایک کارآمد اور مقبول آلہ ہے۔ یہ چھترپتی شیواجی کے ساتھ تعلق کا واضح اشارہ پیش کرتا ہے۔ اس طرح یہ انتخابی نشان پوار کی طرف ایک خاص لکیر کھینچتا ہے جسے آج کے دور میں سیکولر، ذات پات مخالف اور سوشلسٹ مراٹھا جنگجو بادشاہ کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی حیرانی نہیں کہ شرد پوار نے ریگڈ میں شیواجی کے قلعہ کا انتخاب کیا اور ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے مقصد سے ’توتاری‘ بجا کر بگل پھونک دی۔
شرد پوار کے لیے ’توتاری‘ انتخابی نشان ایک انعام کی طرح ہے جس نے اجیت پوار گروپ کے منہ کا ذائقہ کھٹا کر دیا ہے۔ یقیناً آخر میں اجیت ’پپاری‘ بن جائیں گے۔ ان کے چچا شرد پوار کے پاس زبردست توتاری ہے، جو بھاری پیتل سے بنی ہے اور اس سے گہرے رسوم جڑے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ’پیپاری‘ بانسری سے بھی چھوٹا بانس کا ایک بآسانی ٹوٹ جانے والا کمزور آلہ ہے۔ ان دونوں کے درمیان کا فرق مہاراشٹر کے سبھی عوام جانتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔