یو پی میں سیکولر ووٹر کو متحدہ ہونے کی ضرورت... ظفر آغا
یو پی کا سنہ 2021 کا اسمبلی چناؤ سیاسی اعتبار سے انتہائی اہم ہے، اگر اس چناؤ میں بی جے پی ہندوستان کا سب سے اہم صوبہ کھو بیٹھی تو پھر سنہ 2024 میں اس کے لیے لوک سبھا چناؤ بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں
پولیس کے مطابق الطاف کی موت تھانے میں پھانسی لگنے سےہوئی۔ پولیس کا الزام ہے کہ الطاف ایک ہندو لڑکی کو بھگا کر لے گیا تھا۔ پولیس اس کی تفتیش کے لیے 8 نومبر کی رات نو بجے اس کو اس کے گھر سے لے آئی۔ صبح دو تین بجے اس نے تھانے میں خود کشی کر لی۔ 9 نومبر کو اسپتال بلا کر اس کے والد کو پولیس نے اس کی لاش واپس کر دی۔
یہ تو ہے پولیس کا الزام و بیان۔ والد چاہت میاں کا کہنا ہے کہ پولیس الطاف کو ڈھونڈتی ہوئی اس کے گھر آئی۔ والد نے خود الطاف کو پولیس کے حوالے کیا۔ بقول پولیس الطاف پر یہ الزام تھا کہ وہ ایک ہندو لڑکی کو بھگا کر لے گیا تھا۔ اس کی ایف آئی آر ایک بھاردواج نامی شخص نے کروائی تھی۔ بھاردواج کی بیٹی گھر سے غائب تھی۔ الطاف بھاردواج کے گھر مزدوری میں گیا تھا۔ دوسرے دن لڑکی غائب ہو گئی۔ الطاف کے والد چاہت میاں نے الطاف کو اسی سلسلے میں تفتیش ے لیے تھانے پہنچایا تھا۔ دوسرے روز 21 سالہ الطاف کی لاش اس کو ملی۔ اس کی لاش اسپتال میں اس کی دادی اور پھوپھی نے دیکھی۔ ان کا کہنا ہے کہ الطاف کے سر پر گہرے زخم جیسا کچھ تھا، اور پاؤں مڑے ہوئے تھے۔ الطاف کے اہل خانہ اور دیہات والوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے اس کو مار ڈالا۔ اتر پردیش میں آئے دن تھانوں میں ملزمین کی موت عموماً پولیس کی ظلم و زیادتی کے سبب ہوتی رہتی ہے۔ اس اعتبار سے الطاف کے اہل خانہ کا پولیس پر الزام بے معنی نہیں لگتا ہے۔
یہ تو رہا پولیس اور الطاف کے اہل خانہ کی کہانی۔ لیکن یہ معاملہ محض پولیس کی زیادتہ کا ہی نہیں نظر آتا ہے۔ اس میں ایک سیاسی رنگ بھی ہے جو پس پردہ ہے۔ دراصل اتر پردیش کے مسلمانوں پر اس وقت تلوار لٹک رہی ہے۔ تین مہینوں میں وہاں صوبہ کے چناؤ ہونے والے ہیں۔ وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ کے پانچ سال کیا ہندو اور کیا مسلمان، ہر یو پی کے باشندے پر گراں گزرے ہیں۔ صوبہ میں لاقانونیت کا راج تھا۔ مہنگائی یو پی میں کیا، سارے ہندوستان پر چھائی ہوئی ہے۔ ہندوستان کے غریب ترین صوبہ اتر پردیش کی عوام پر اس مہنگائی کا گہرا اثر ہے۔ پھر صوبہ کے وہ مزدور کاریگر جو دہلی، ممبئی اور ہندوستان کے دیگر شہروں میں روزی روٹی کما رہے تھے، وہ لاک ڈاؤن کے بعد ہزاروں کی تعداد میں پیدل اپنی جان بچانے کے لیے اپنے گاؤں شہر واپس لوٹے اور حکومت نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ پھر سارے ہندوستان کی طرح کووڈ-19 وبا سے چھوٹے کاروبار یو پی میں بھی تباہ ہو گئے۔ بے روزگاری عروج پر ہے۔ مغربی یو پی کا کسان حکومت کے خلاف بغاوت پر ہے اور کھلے عام بی جے پی کے خلاف ووٹ ڈالنے کی بات کر رہا ہے۔ غضب یہ ہے کہ کووڈ وبا میں غیر سرکاری اندازے کے مطابق یو پی میں لاکھوں موتیں ہوئیں اور حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔ پھر اتر پردیش میں مسلم ووٹ بینک بہت بڑا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے راج میں مسلم آبادی پر پانچ برس عرصہ حیات تنگ رہا۔ کبھی سی اے اے تحریک کے سلسلے میں گرفتاری، کبھی ماب لنچنگ سے موت، تو کبھی الطاف کی طرح مارے جانے کی خبریں پانچ سال تک آتی رہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ گروہ بھی بی جے پی کو ہرانے پر کمر باندھے ہوئے ہے۔
الغرض صوبہ کی سیاسی فضا بی جے پی کے حق میں نہیں ہے۔ بی جے پی کے پاس اب محض مودی کارڈ بچا ہے۔ یہ بھی ایک سیاسی حقیقت ہے کہ اب مودی بھی وہ مودی نہیں رہے جن کے نام پر ہر کوئی آنکھ بند کر ووٹ دے دے۔ جب مودی اور یوگی دونوں ہی سکّے کھوٹے ہو چلے ہوں تو پھر بی جے پی کے پاس محض ہندوتوا کا ہی سہارا بچتا ہے۔ ہندوتوا سیاست کا دار و مدار محض مسلم منافرت پر ہے۔ اس کا استعمال کر مسلم دشمنی کی بنا پر بی جے پی ہندو ووٹ بینک اپنے حق میں مستحکم کر چناؤ جیتنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہندو ووٹ بینک اسی وقت مستحکم ہوگا جب چاروں طرف مسلم منافرت کا ڈنکا بج رہا ہو۔ اس کے لیے کبھی لو جہاد تو کبھی الطاف جیسے واقعات کا ہونا بنتا ہے۔ اس لیے اب بات یہ ہے کہ یو پی کے چناؤ تک صوبہ کے مسلمانوں کو نہ جانے کتنے الطافوں کی قربانی دینی پڑ سکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں یو پی کے مسلمان یا وہاں کی سیکولر عوام کرے تو کرے کیا۔ اس وقت یو پی سمیت سارے ہندوستان مین تمام سیکولر سیاسی پارٹیاں ہندو ووٹ بینک کے دباؤ میں ہیں۔ اتر پردیش میں محض پرینکا گاندھی بی جے پی کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ ادھر راہل گاندھی آر ایس ایس اور مودی کی مخالفت میں کمر کسے ہوئے ہیں۔ یو پی کے دوسرے لیڈران خصوصاً اکھلیش یادو اور مایاوتی خاموش ہیں۔ اب بی جے پی مخالف ووٹر اس وقت کرے تو کرے کیا!
یو پی کا سنہ 2021 کا اسمبلی چناؤ سیاسی اعتبار سے انتہائی اہم چناؤ ہے۔ کیونکہ اگر اس چناؤ میں بی جے پی ہندوستان کا سب سے اہم صوبہ کھو بیٹھی تو پھر سنہ 2024 میں اس کے لیے لوک سبھا چناؤ بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اس لیے سیکولر طاقتوں کے لیے اس چناؤ میں سب سے کارگر حکمت عملی بی جے پی کو ہرانے کی ہی ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس طرح پرینکا اور راہل گاندھی بی جے پی کے خلاف لڑ رہے ہیں، اس اعتبار سے سیکولر ووٹ پر پہلا حق کانگریس کا ہے۔ لیکن اتر پردیش چناؤ میں جوش سے نہیں بلکہ انتہائی ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ یو پی میں ابھی بھی سیکولر ووٹ بی جے پی سے کہیں زیادہ ہے۔ جیسے دہلی اسمبلی چناؤ میں اس سیکولر ووٹر نے متحد ہو کر بی جے پی کو ہرانے کے لیے کیجریوال کو جتا دیا تھا، ویسے ہی یو پی میں بھی یہ متحد ہو کر بی جے پی کو ہرا دے تو آنے والے دنوں میں ہندوستان کی سیاست کا بھی رخ بدل سکتا ہے۔ اور یہ کام یو پی میں متحد سیکولر ووٹر ہی کر سکتا ہے۔ اس لیے یو پی میں ابھی سے اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہو کر بی جے پی مخالف ووٹر کو یکجا ہو کر ہندوتوا سیاست کو ہرانے کے لیے کمر کس لینی چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 14 Nov 2021, 11:13 AM