دہلی کے فسادات: منظر بہ منظر جائزہ... سہیل انجم
ان واقعات سے یہ لگتا ہے کہ ہندووں کے ایک طبقے میں مسلم دشمنی کا جو انجکشن لگایا گیا وہ ابھی پوری طرح سرایت نہیں ہوا ہے۔ کیونکہ کچھ واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ بھائی چارہ ابھی بھی بچا ہوا ہے
دہلی کے فساد پر نہ صرف پورا ہندوستان بلکہ پوری دنیا چیخ اٹھی ہے۔ اس کی وحشت و دہشت اب بھی قائم ہے۔ متاثرین کی اکثریت اب بھی اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے کی جرأت نہیں کر پا رہی ہے۔ وہ اب بھی خوف زدہ ہیں اور انھیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ اگر گئے تو ایک بار پھر حملوں کی زد پر آسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی لوگوں نے اپنے اعزا کی تکفین و تدفین دوسرے علاقوں میں کی ہے۔
ہندوستانی میڈیا میں اب بھی اس فساد کی بھرپور رپورٹنگ ہو رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹنگ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ الیکٹرانک میڈیا جہاں مسلمانوں کو ہی ویلن بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہیں پرنٹ میڈیا بالخصوص انگریزی پرنٹ میڈیا میں بڑی حد تک حقائق کی ترجمانی ہو رہی ہے۔ اب بھی انگریزی اور کچھ ہندی کے اخبارات اداریے لکھ کر اور خصوصی مضامین شائع کرکے فساد کی مذمت اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا بھی پیچھے نہیں ہے۔ اگر اس فساد کی حقیقی تصویر دیکھنی ہو تو غیر ملکی میڈیا پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔ فساد بھڑکنے کے بعد سے لے کر اب تک غیر ملکی میڈیا میں اس کے لیے بی جے پی کی ہندوتوا نواز پالیسیوں، اس کے بعض رہنماؤں بالخصوص کپل مشرا، ہندوتوا نواز عناصر کی حوصلہ افزائی اور وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی خاموشی اور اس کے ساتھ ساتھ پولیس کی جانبدارانہ کارکردگی اور بہت سی جگہوں پر ناکارکردگی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ غیر ملکی اخبارات نے دہلی کے فساد پر متعدد اداریے تحریر کیے ہیں اور مودی حکومت کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنایا ہے۔
نیوز ویب سائٹوں پر فسادات کی پرت درپرت رپورٹیں پیش کی جا رہی ہے، مضامین لکھے جا رہے ہیں اور تجزیے شائع کیے جا رہے ہیں۔ ان ویب سائٹوں سے وابستہ صحافی متاثرہ علاقوں میں گھر گھر جا کر لوگوں سے مل رہے ہیں اور ان کی روداد غم سن کر انھیں بیان کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ روداد غم صرف مسلمانوں کی ذات سے وابستہ ہے۔ بہت سے ہندو بھی اس فساد کے شکار ہوئے ہیں اور ان کے تجربات و مشاہدات بھی مسلمانوں کے تجربات و مشاہدات کی مانند انتہائی لرزہ انگیز ہیں۔
اسی طرح سوشل میڈیا خاص طور پر یو ٹیوب چینلوں کے نمائندے بھی جلے اور تباہ مکانات کے ملبوں سے گزرتے ہوئے ہر اس مقام تک پہنچ رہے ہیں جہاں فساد کا دیو استبداد تین دن تک دندناتا پھرتا رہا۔ وہ اس دیو کی تباہ کاریوں کو کیمروں کی نظر سے دیکھ کر پوری دنیا کو دکھا رہے ہیں۔ متعدد خواتین روتے بلکتے ہوئے اپنی داستان الم بتا رہی ہیں۔ بعض کی داستان اتنی دلخراش ہے کہ سننے والے کا کلیجہ کانپ اٹھے۔
یہ فساد یوں ہی اور اچانک نہیں بھڑک گیا بلکہ ایک منظم سازش کے تحت انجام دیا گیا ہے۔ کپل مشرا اور ان جیسے دیگر لیڈروں کی اشتعال انگیزیوں نے اندر ہی اندر سلگنے والی چنگاریوں کو ہوا دی اور وہ چنگاریاں شعلوں میں تبدیل ہو گئیں۔ جس طرح کم از کم دو ہزار افراد کی بھیڑ ہتھیاروں اور پیٹرول بموں سے لیس ہو کر دندناتی پھر رہی تھی وہ اپنے آپ نہیں آگئی تھی۔ ایک اسکول کی چھت پر قد آدم غلیل اپنے آپ نصب نہیں ہو گئی تھی۔ پہلے سے ہی اس کی پلاننگ کی گئی تھی اور بڑے پیمانے پر ا س کی تیاری کی گئی تھی۔ ابھی یہ بات ثابت نہیں ہو سکی ہے کہ یہ مذکورہ بھیڑ دہلی کے دوسرے علاقوں کی تھی یا مغربی یو پی سے آئی تھی۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ اس بھیڑ کی اکثریت باہری تھی۔
اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں اور ہندووں کی مشترکہ آبادیوں میں جہاں بہت سے مسلمانوں نے ہندووں کو بچایا اور بہت سے ہندووں نے مسلمانوں کو پناہ دی وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسی آبادیوں میں جہاں مسلمان اور ہندو مشترکہ طور پر رہ رہے ہیں، باہر سے آنے والی بھیڑ کی قیادت مقامی ہندووں نے کی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہندو اور مسلمان کی دکانیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں تو مسلمان کی تو لوٹ پاٹ کرنے کے بعد جلا دی گئی لیکن ہندو کی دکان محفوظ ہے۔
ویسے یہ بات بڑی حد تک باعث اطمینان ہے کہ مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں کی نشاندہی کرکے ان کو لٹوانے اور جلوانے کے واقعات کے باوجود دونوں فرقوں کے بہت سے لوگوں نے دوسرے مذہب کے اپنے اپنے پڑوسیوں اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی۔ بہت سے مسلم خاندانوں نے ہندووں کو تو بہت سے ہندو خاندانوں نے مسلمانوں کو اپنے گھروں میں پناہ دی۔ سکھوں نے جس طرح مسلمانوں کو بچایا وہ بھی اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ اس قسم کے واقعات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ ہندووں کے بہت بڑے طبقے میں مسلم دشمنی کا جو انجکشن لگایا گیا ہے وہ ابھی پوری طرح سرایت نہیں ہوا ہے۔ یہ واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ فرقہ وارانہ بھائی چارہ بڑی حد تک ابھی بچا ہوا ہے۔
فساد زدہ ایام کی ایک خاص بات یہ دیکھنے کو ملی کہ شروع کے دو دنوں میں پولیس منظر سے بالکل ہی غیر موجود تھی۔ متاثرین نے جن میں مسلمان اور ہندو دونوں شامل ہیں، میڈیا کو بتایا کہ وہ پولیس کو فون پر فون کرتے اور ان سے مدد طلب کرتے رہے لیکن پولیس نے کوئی مدد نہیں کی۔ فون پر یہ جواب دیا جاتا تھا کہ ابھی آرہے ہیں یا پھر یہ کہا جاتا تھا کہ وہاں سے کہیں اور چلے جاؤ۔ بعد میں جب پولیس آئی بھی تو اس نے فسادیوں کا ساتھ دیا۔
پولیس کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں کی بے حسی بھی قابل مذمت ہے۔ فسادات کے ایام کو تو چھوڑ دیجیے اس کے بعد بھی سیاست دانوں نے وہاں جانے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ان دنوں امریکی صدر کے استقبال میں اس قدر مگن تھے کہ ان کے کانوں تک مظلومیں کی چیخیں نہیں پہنچ رہی تھیں۔ وزیر اعظم نے تین روز کے بعد تین لائن کا ٹوئٹ کرکے لوگوں سے امن قائم کرنے کی اپیل کی۔ ان کی اس اپیل کو غیر ملکی میڈیا نے ہدف تنقید بنایا ہے اور کہا ہے کہ تین روز کے اندر جو تباہی مچی ہے یہ تین لائن کا ٹوئٹ اس کا بدل نہیں ہو سکتا۔
وزیر داخلہ تو اب بھی خاموش ہیں۔ انھوں نے اس پر کوئی چھوٹا سا بھی بیان دینا ضروری نہیں سمجھا۔ جبکہ دہلی پولیس خود انھی کو رپورٹ کرتی ہے وہ انھی کے ماتحت آتی ہے۔ نہ تو وزیر داخلہ نے اور نہ ہی کسی مرکزی وزیر نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کی اب تک ضرورت محسوس کی۔ جبکہ یہ فسادات کہیں اور نہیں دارالحکومت دہلی میں اور مرکزی حکومت کی ناک کے نیچے اور وزیر اعظم کی رہائش گاہ سے محض دس کلومیٹر کی مسافت پر ہوئے ہیں۔ حکومت اور اس کے وزرا کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ متاثرہ علاقوں میں جاتے اور متاثرین کی بازآبادکاری میں ان کا ہاتھ بٹاتے اور ان کو تسلی دیتے۔
کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے ضرور ان علاقوں کا دورہ کیا ہے۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو فسادات کا جائزہ لینے کے بعد انھیں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ لیکن حکمراں طبقے کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ مظلوموں کی داد رسی کرتا۔ کانگریس کی جانب سے بار بار یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ دہلی کے فساد پر پارلیمنٹ میں بحث کرائی جائے۔ لیکن حکومت اس کی اجازت ہی نہیں دے رہی ہے۔ بلکہ اس کے برعکس لوک سبھا کے اسپیکر نے کانگریس کے سات اراکین کو اجلاس کی بقیہ مدت کے لیے معطل کر دیا ہے۔ یہ کارروائی ہٹلرانہ اور ڈکٹیٹرانہ ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
یہ بات بیشتر اخباروں اور بڑے صحافیوں اور کالم نگاروں نے لکھی ہے کہ ہم نے متاثرین کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے۔ جس طرح ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے وہ ہمارے رویے پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 08 Mar 2020, 10:11 PM