طنز و مزاح: یوپی کے ووٹر اس مغالطہ میں نہ رہیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے یوگی کو ووٹ دیا ہے!

یوپی کے غریب-پسماندہ-دلت ووٹر اس مغالطہ میں نہ رہیں کہ اگر انہوں نے مودی-یوگی کو ووٹ دے کر جتایا ہے تو یہ انہوں نے اپنی مرضی سے کیا ہے، ایسا سوچنے والے اپنے دماغ کے جالے صاف کر لیں

پولنگ کی فائل تصویر / تصویر یو این آئی
پولنگ کی فائل تصویر / تصویر یو این آئی
user

وشنو ناگر

یوپی کے غریب-پسماندہ-دلت ووٹر اس مغالطہ میں نہ رہیں کہ اگر انہوں نے مودی-یوگی کو ووٹ دے کر جتایا ہے تو یہ انہوں نے اپنی مرضی سے کیا ہے، ایسا سوچنے والے اپنے دماغ کے جالے صاف کر لیں۔ ان کے پروموٹر، ​​ان پر داؤ لگانے والے کوئی اور ہیں اور ہم میں سے اکثر ان کے مہرے ثابت ہوئے ہیں۔ ایسے مہرے جنہیں اپنے کھلاڑی ہونے کا گمان ہے۔ انہیں فتح یاب بنانے والے نظر آنے کے باوجود پوشیدہ ہیں۔ وہی ایک طرح سے ہماری زندگی کا، ہماری پسند اور ناپسند کا ایجنڈا طے کرتے ہیں اور اکثر کامیاب ہوتے ہیں۔ اس بار بھی وہ یوپی میں کامیاب رہے۔ ہم مہروں نے ان کا ساتھ دیا اور اب تمام اخبارات اور چینلز ان کی جیت کے گیت گا رہے ہیں۔ انہیں عوام کی پسند بتایا جا رہا ہے۔ جو کل تک ان کے گیت نہیں گا رہے تھے وہ بھی اب ان کے سر میں سر ملا رہے ہیں۔ اب خود مودی جی کو یقین ہو چلا ہے کہ وہ تیسری بار یعنی 2024 میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیں گے۔ اس سے اب انہیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ کسی کی مہر پھر سے ہیں اپنا مہرہ بنانے میں کامیاب ہوگی، انہیں ابھی سے اس پر یقین ہے۔ اس مشن کو کامیاب بنانے کے لئے وہ یوپی انتخابات کی خوشخبری سننے کے بعد دوسرے دن ہی گجرات پہنچ گئے۔ ان کی زندگی میں ایک ہی مشن ہے، چناؤ در چناؤ جیتنا۔ اپنے پروموٹرز کے سامنے اپنی قابلیت کو مسلسل ثابت کرنا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ان کو ووٹ دینے کا فیصلہ ہمارا تھا۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ حملے صرف ملکوں پر نہیں ہوتے، ہمارے ذہنوں پر بھی ہوتے ہیں۔ یہ حملہ کوئی باہر سے نہیں کرتا بلکہ ہمارے اپنے کرتے ہیں اور ہر دن کرتے رہتے ہیں۔ واٹس ایپ، ٹویٹر، فیس بک، بی جے پی آئی ٹی سیل، گودی چینل، بیشتر ہندی اخبارات ان کے ہتھیار ہیں۔ بم ہیں، توپیں ہیں، ٹینک ہیں، میزائل ہیں، جنگی طیارے ہیں۔ ایسا کوئی بنکر نہیں ہے جہاں ہم ان سے بچنے کے لئے چھپ سکیں۔ انہیں بنکر تک بھی رسائی حاصل ہے۔ جب ہمارے ہی ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں تو چھپنا اور فرار ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔


اس لئے اے غریب لوگو! اس غلط فہمی میں مت رہو کہ ووٹ تمہارا کا تھا اور تم نے اسے اپنی مرضی سے مودی-یوگی کو دیا۔ یہ ووٹ تم نے نہیں بلکہ دن میں پچاس بار آنے والے واٹس ایپ پیغامات نے دیا تھا، آئی ٹی سیل کے جھوٹ کے پلندوں نے دیا تھا۔ مودی کی جو ’مقدس‘ شبیہ تم تک پہنچائی گئی تھی، اس نے دیا تھا۔ جس مسلمان کو انہوں نے بڑی محنت سے ہمارا تمہارا دشمن قرار دیا اور دلوایا گیا، اس نفرت نے دیا تھا۔ تم نے ہم نے ووٹ دیا ہی کہاں؟ اگر ہم اور تم ووٹ دیتے تو ہمیں اپنی تکلیفیں یاد نہ رہتیں! یہ یاد رہتا کہ پٹرول ڈیزل ہی نہیں، کھانا پکانے کا تیل تک انہوں نے اتنا مہنگا کر دیا کہ غریب اب سبزیوں کو پانی سے چھونک لگاتا ہے اور اوپر سے تیل کے دس قطرے سبزی کو سنگھا دیتا ہے، تاکہ وہ سبزی کا ذائقہ بھول نہ جائے۔ کبھی دال اور روٹی حاصل نہ ہونا غریب ہونے کے مترادف تھا، اب اتنی ترقی ہو گئی ہے کہ دالیں ختم ہو گئی ہیں اور تھالی میں روٹیاں بھی اتنی ہی ہیں جتنی پیٹ میں بھوک ہوتی ہے؟

اس لئے اپنی تعداد کی طاقت، اپنی محنت کی طاقت کے وہم میں نہ رہیں۔ وہ انسان کو بھیڑ بکری بنانا جانتے ہیں۔ بھیڑ کو کیا معلوم کہ وہ بھیڑ ہے۔ اگر آگے والی بھیڑ کنویں میں گر جائے تو پچھلی بھیڑ کو بھی اس میں گرنا پڑتا ہے۔ بھیڑوں کو اصولوں پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ مرنے سے نہیں ڈرنا ہے۔

چونکہ صرف مٹھی بھر لوگ ہم کروڑوں لوگوں کا ایجنڈا طے کرتے ہیں، یعنی یہ طے کرتے ہیں کہ کوئی کیا بھولے اور کیا یاد رکھے۔ اس لئے ہمیں یہ یاد نہیں رہتا کہ جس کو ہم نے ووٹ دیا ہے یا دینے جا رہے ہیں وہ ہمیں کورونا کے پہلے لاک ڈاؤن میں کیا کیا برداشت کرنے پر مجبور کرے گا؟ روزی روٹی سے محروم ہو کر کتنوں کو چلچلاتی دھوپ میں سینکڑوں کلومیٹر پیدل چلوایا تھا، پولیس کی لاٹھیاں کھلائی گئی تھیں۔ سب کو مرنے کے لئے کس نے چھوڑ دیا تھا؟ وہ کون تھے جن کی لاشیں گنگا میں بہہ رہی تھیں اور اس کا اصل ذمہ دار کون تھا؟ اس دوران کس کا شوہر، بیٹا یا بیٹی بے روزگار ہوئے؟ کس نے یہ حالت کر دی تھی؟ جانور کس کی فصلیں کھا رہے تھے اور کس کے فیصلے کی وجہ سے؟ یہ کیوں یاد نہیں رہا اور یہ کیوں یاد رہا کہ مودی حکومت نے ہمیں اس دوران 5 کلو اناج دیا تھا، مودی نے نمک کھلایا تھا۔ ویسے مودی کی یہ حالت نہیں ہے کہ اپنی جیب سے خرچ کر کے کروڑوں غریبوں کو ایک ایک مٹھی نمک فراہم کرے اور نہ ہی انکم ٹیکس دے کر اترانے والے متوسط ​​طبقے کے لوگوں کے پیسوں میں اتنی طاقت ہے کہ ایک کلو اناج ہر غریب تک پہنچا سکے۔ یہ ہماری طاقت ہے، ہر چھوٹی چیز پر ٹیکس ادا کرنے کی طاقت۔ یہ ہمارا نمک تھا، جو ہم نے کھایا تھا۔ ہمیں بتایا گیا اور ہم نے مان بھی لیا کہ ملک کی سب سے غیر محفوظ ریاست کا نظم و نسق انتہائی چاک و چوبند ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہماری-تمہاری یادداشت میں کیا ڈالنا ہے اور کیا حذف کرنا ہے۔ اس الئے انہوں نے یہ کام بڑی چالاکی سے کیا اور ہم انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھ بیٹھے، انہیں اپنا ووٹ دے بیٹھے!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔