’سماجی انصاف بنام ہندوتوا‘ کی لڑائی میں سبقت لے گیا ’بھگوا‘... راج کمار اپادھیائے
مہنگائی، بے روزگاری، آوارہ مویشی جیسے ایشوز اور ذات پات کے فارمولے منہدم ہو گئے، انتخابی تجزیہ کاروں کی بھی یہی رائے ہے۔
لکھنؤ: ساڑھے تین دہائیوں کے بعد اتر پردیش میں نئی عبارت لکھی گئی ہے۔ سال 1989 کے بعد یہ پہلی بار ہوگا جب ریاست میں کسی پارٹی کی اقتدار میں لگاتار دوسری بار واپسی ہوئی ہے۔ بی جے پی اتحاد 272 سیٹوں پر آگے ہے۔ سماجوادی پارٹی نے 126 سیٹوں پر سبقت بنائی ہوئی ہے (شام 7 بجے تک)، 70 سے زیادہ سیٹوں پر بہت کم فرق سے مقابلہ چل رہا ہے۔ نتیجوں سے صاف ہے کہ دکھائی کچھ بھی دیا ہو، اندر ہی اندر انتخاب میں ’ہندوتوا‘ کا ایجنڈا چلا ہے۔
مہنگائی، بے روزگاری، آوارہ مویشی جیسے ایشوز اور ذات پات کے فارمولے منہدم ہو گئے۔ انتخابی تجزیہ کاروں کی بھی یہی رائے ہے۔ انتخاب کے درمیان پسماندہ طبقہ کے لیڈروں نے سماجوادی پارٹی کا دامن پکڑا تو ریاست کی سیاست میں ہندوتوا بنام سماجی انصاف کی لڑائی آمنے سامنے تھی۔ لیکن نتائج بتا رہے ہیں کہ اپوزیشن اس لڑائی میں پیچھے رہ گیا۔
سینئر صحافی سبھاش چندر کہتے ہیں کہ سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی ذات پر مبنی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں۔ ان سے مقابلہ کرنے کے لیے بی جے پی بھی ذاتیاتی لیڈروں کے ذریعہ مختلف طبقات کے ووٹروں پر ڈورے ڈالنے میں مصروف ہو گئی۔ کسان تحریک کا اثر دکھائی دے رہا تھا۔ انتخاب کے وقت سے ہی جاٹ لینڈ میں بی جے پی مخالف لہر نے خوب شہرت بٹوری تھی۔ انتخاب کے پہلے مرحلہ کی 58 سیٹوں میں سے 45 سیٹوں پر برسراقتدار پارٹی کا قبضہ اشارہ دیتا ہے کہ بی جے پی کے لیے ہندوتوا کا ایجنڈا یہاں بھی ڈھال بنا۔ اہم اپوزیشن سماجوادی پارٹی سپریمو اکھلیش یادو کے جلسوں میں پرجوش بھیڑ نظر آئی، لیکن وہ نتیجوں میں تبدیل نہیں ہو سکی۔ حیرت انگیز طریقے سے بی ایس پی ایک سیٹ تک محدود ہو کر رہ گئی۔ یہ اشارہ دیتا ہے کہ پارٹی کے مضبوط ووٹ بینک سمجھے جانے والے ووٹروں نے بھی ان سے کنارہ کر لیا ہے۔
پرتیک کمار کہتے ہیں کہ مغربی یوپی میں خواتین کی سیکورٹی بڑا ایشو ہے۔ جس طرح گزشتہ سماجوادی پارٹی حکومت میں خواتین کے ساتھ جرائم بڑھے تھے، خصوصاً ان کی وجہ سے مغربی یوپی کی ایک بڑی آبادی متاثر تھی۔ خواتین کے لیے خود کی عزت بچانا چیلنج تھا۔ بی جے پی غنڈہ گردی پر قابو کے نام پر اسے ایشو بنا کر ابھارنے میں کامیاب رہی۔ ان سیٹوں کے نتیجوں میں اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ مختار انصاری جیسے مافیاؤں پر کارروائی نے بھی عوام کو متاثر کیا۔ ابھی تک کی حکومتوں نے جرائم پیشوں کے خلاف اتنی ہمت نہیں دکھائی تھی۔ راجدھانی کی 9 سیٹوں پر ملا مینڈیٹ بھی یہی اشارہ دیتا ہے اور اسی مینڈیٹ کی چھاپ پوری ریاست میں دکھائی دے رہی ہے۔ لکھنؤ کی 9 سیٹوں میں سے 7 سیٹوں پر بی جے پی امیدواروں کو فتح ملتی دکھائی دے رہی ہے۔ جب کہ گزشتہ انتخابات میں ان میں سے 8 سیٹوں پر بی جے پی کا قبضہ تھا۔ راجدھانی میں بی جے پی نے اپنا پرانا ریکارڈ دہرایا ہے۔ صرف لکھنؤ شمال اسمبلی سیٹ پر بی جے پی کو شکست ملی ہے۔ گزشتہ انتخاب میں لکھنؤ وسط اسمبلی سیٹ سے کامیاب ہوئے وزیر برجیش پاٹھک موجودہ انتخاب میں لکھنؤ کینٹ سے امیدوار تھے۔ اس سیٹ پر وہ جیت رہے ہیں۔ سروجنی نگر اسمبلی حلقہ سے سابق پولیس افسر راجیشور سنگھ نے 12 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے سماجوادی پارٹی امیدوار ابھشیک مشرا کو شکست دے دی ہے۔
سال 2017 میں اودھ علاقہ کی 127 سیٹوں میں بی جے پی کا 100 سیٹوں پر قبضہ تھا۔ اس بار انھیں 84 سیٹوں پر کامیابی ملی ہے۔ اس علاقے میں سب سے بڑا ایشو رام جنم بھومی کا ہے۔ یہ اسی علاقے میں تعمیر ہو رہا ہے، یہ لوگوں کے جذبہ سے جڑا ہوا ہے۔ اودھ علاقہ میں لکھنؤ، سلطان پور، پریاگ راج، بارابنکی، ایودھیا، امبیڈکر نگر، پرتاپ گڑھ، بہرائچ، گونڈا، ہردوئی وغیرہ اضلاع آتے ہیں۔ انتخابی تجزیہ کار گورکھ ناتھ راؤ کہتے ہیں کہ یہ مت مانیے کہ اب صرف اعلیٰ ذات ہی بی جے پی کا ووٹر ہے۔ ریزلٹ بتا رہے ہیں کہ پسماندہ، انتہائی پسماندہ و دلت ووٹروں کا بھی ایک طبقہ بی جے پی کے ساتھ آ گیا ہے۔ ایم وائی فیکٹر نے سماجوادی پارٹی کا ساتھ دیا ہے۔ اسی وجہ سے پارٹی کو گزشتہ انتخاب کے مقابلے موجودہ انتخاب میں سبقت حاصل ہوئی ہے۔ لیکن انتہائی پسماندہ طبقہ کے بیشتر ووٹروں نے سماجوادی پارٹی کو مسترد کر دیا۔ مغربی اتر پردیش کے طرز پر قیاس لگائے جا رہے تھے کہ روہیل کھنڈ میں بھی بی جے پی کو نقصان ہو سکتا ہے۔ لیکن بی جے پی کو یہاں 10 سیٹوں کا نقصان ہوا ہے۔ گزشتہ انتخاب میں یہاں کی 25 سیٹوں میں سے 23 سیٹوں پر بی جے پی کو جیت ملی تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیاسی ذائقہ کو دیکھ کر قیاس لگائے جاتے ہیں۔ ان کے مقابلے حکومت کے زمینی کاموں کی بنیاد پر عوام ووٹ دیتی ہے۔
بندیل کھنڈ میں بی جے پی پھر ایک بار بڑی طاقت بن کر ابھری ہے۔ سال 2017 کے اسمبلی انتخاب میں یہاں کی 19 سیٹوں پر بھگوا لہرایا تھا۔ اس بار صرف تین سیٹوں کا نقصان ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سماجوادی پارٹی کو دو اور بی ایس پی کو ایک سیٹ کا فائدہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ مقامی سماجی کارکن برجیندر کہتے ہیں کہ بندیل کھنڈ میں بی ایس پی کا بنیادی ووٹ بینک کافی تعداد میں ہے۔ لیکن 2017 کے نتیجوں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ ووٹر تب بی جے پی کا رخ کر چکا تھا اور موجودہ نتائج بھی اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ حکومتی منصوبوں کا فائدہ اٹھانے والے مستفیدین نے اس انتخاب میں اہم کردار نبھایا ہے۔ بی جے پی نے بی ایس پی کو اس کے ہی قلعہ میں زوردار شکست دی ہے۔ 2012 کے نتیجوں کی بات کریں تو بی ایس پی نے بندیل کھنڈ کی 7 سیٹوں پر قبضہ جمایا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب بی ایس پی کی اقتدار میں واپسی نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت سماجوادی پارٹی نے پانچ سیٹوں پر قبضہ جمایا تھا۔ موجودہ انتخاب مین سماجوادی پارٹی کو بھی اس علاقے سے کافی امید تھی۔ دیگر پسماندہ طبقہ اکثریتی اس علاقے میں ایس سی ووٹرس بھی اہم کردار نبھاتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔