روہنگیا مسلمانوں کادردسننے والا کوئی نہیں!

Getty Images
Getty Images
user

اسلم جاوید

دوسری جنگ عظیم میں جب جاپان نے برٹش آرمی کو شکست دے کر بنگال کی طرف دھکیل دیا تھا تو اراکان کایہ صوبہ وہ واحد صوبہ تھا جو برطانویوں کے کنٹرول میں رہا۔ اراکان سے اٹھ کر برٹش آرمی اور دوسری اتحادی افواج نے 1944میں جاپانیوں پر جوابی حملہ کیا اور ان کو مکٹیلا، مانڈلے اور رنگون سے نکال کر تھائی لینڈ کی طرف دھکیل دیا اور جب اگست 1945میں جاپان نے اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تو برما میں بھی اس فتح کا جشن منایا گیا۔ اس جنگ میں برطانیہ کی مدد اراکان میں رہنے والے انہی مسلمانوں نے کی تھی۔ برما کا سب سے بڑا قبیلہ ’’برمن‘‘ جاپانیوں سے ملا ہوا تھا اس لئے وہ لوگ اراکان کے مسلمانوں کے مخالف تھے۔ خیال رہے کہ 1978 میں انھیں مسلمانوں نے اقتدار کے قریب کیا تھا جس کی سزاآج وہی روہنگیا مسلمان بھگت رہے ہیں۔خلاصہ کلام یہ کہ غاصب ملکوں کی مخالفت اور ملک کی آزادی کیلئے ان کا ایثارخود روہنگیا مسلمانوں کیلئے ہی عذاب بن گیا اور برماکی بودھ اکثریت مسلمانوں کی ازلی دشمن بن گئی حتیٰ کہ یہ مخالفت آزادی کے بعد شدید ہوتی چلی گئی اور پھر وہ وقت آیا کہ تہذیبوں کے تصادم میں ڈھل گئی۔ تہذیبوں کا تصادم اس لئے کہ بدھ ازم اسلام کو برداشت نہیں کرتا۔



Getty Images
Getty Images

جنگ کے اس منظر نامے کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہندوستان کی سخت گیر ہندوتنظیم آر ایس ایس اور برما کے بدھسٹ اکثریت کے درمیان ایک چیز جو قدر مشترک نظر آ تی ہے، وہ ہے اپنے ہی دشمنوں کے ساتھ وفاداری اور اپنے وطن کی آزادی کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے مجاہدین آزادی کے ساتھ بغاوت اور غداری ۔چنانچہ برما کے بدھسٹوں نے بھی آزادی ملنے کے بعد وطن کی آزادی کےلئے اپنا سب کچھ لٹادینے والے روہنگیا مسلمانوں کو ہی ملک کی شہریت سے بے دخل کردینے کی منظم سازش شروع کردی ۔اسی طرح ہندوستان میں بھی اپنے وطن کی آزادی اورسلامتی کیلئے لاکھوں کی تعداد میں اپنی جانیں قربان کردینے والے سچے مجاہدین آزادی کا نام و نشان مٹا دینے کی منظم کوشش شروع ہوگئی ۔المیہ تو یہ ہے کہ جن سرفرشوں نے وطن پر جان دی تھی آج انہیں ہی غداروطن ہونے کے طعنے دیے جارہے ہیں،اس کے برعکس جن عناصر نے وطن کی آزادی کی راہ میں روڑے ڈالے،انگیزوں کے لئے مخبری اور غلامی کی ،مجاہدین آزادی کی حوصلہ شکنی کیلئے مہم چلائیں اورملک گیر سطح پرسادہ لوح ہندوستانیوں کو گمراہ کرنے میں سرگرم رہے ،آج وہی طاقتیں انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ خود کوسب سے بڑے دیش بھکت باور کرانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔بہر حال سچائی تو سچائی ہے اور جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے ۔ہمیں یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن جھوٹوں کا منہ کا لاضرور ہوگا۔



Getty Images
Getty Images

اب آئیے !برما کی موجودہ صورت حال پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں جس سے لگ بھگ اب ساری دنیا حتیٰ کہ یو این اورساری دنیا بشمول امریکہ ویوروپ آگاہ ہو چکے ہیں۔برما کے مسلمانوں کی کل آبادی22 لاکھ ہے، جن میں سے 7 لاکھ افراد2012میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف شروع کی جانے والی نسل کشی کے بعد اپنی جان بچانے کیلئے ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور ملیشیا میں خانہ بدوشی کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ 2 لاکھ مہاجرین بنگلہ دیش میں جائے پناہ کی تلاش میں ہیں ،جبکہ انڈونیشیا،ملیشیا،ترکی اوردیگر ملکوں میں لگ بھگ 4لاکھ افراد کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہما ر ے وطن عزیزہند میں بھی چند ہزار خاندان خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔گزشتہ برسوں سے عالمی پیمانے پر مسلمانوں پر مختلف ملکوں میں عرصۂ حیات تنگ کیا جاتا رہا ہے۔بوسنیا ،ہرزے گووینیامیں بے دریغ مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی ۔چیچنیا میں بھی مسلمانوں کی زندگی دوبھر ہو چکی ہے۔مسلم بستیوں کو اسرائیلی فوجوں نے گولوں اور بارودوں سے تاراج کر دیا۔

یہ وہی چیچنیا ہے جہاں کوہ ِقاف ہے جس کی پریوں کی کہانیاں نانیاں اور دادیاں سنایا کرتی ہیں۔ آج میانمار میں وہ مظالم ڈھائے جا رہے ہیں جو کسی زمانے میں ہٹلر نے ڈھائے تھے۔ بلکہ برما کے بد ھسٹ عوام اور فوج نے ظلم و بربریت کی تاریخ رچنے میں ہٹلر کی روح کو بھی شرمسار کر دیا ہے۔

حد تو یہ ہے کہ جمہوریت پسند لیڈر سان سوکی جسے مسلمانوں نے ہمیشہ ووٹ دیا ہے، وہ بھی مسلما نو ں کی ہمدرد نہیں ہے، بلکہ وہ غیر ذمےدارانہ بیان دیتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ اسے یہ معلوم نہیں کہ روہنگیا مسلمان میانمار کے شہری ہیں یا نہیں ،اب اس مکار عورت سے یہ کون پوچھے کہ جن دنوں جمہوریت کےلئے احتجاج کررہی تھی،جس کے طفیل تجھے امن کا نوبل ایوارڈ بھی ملاتھا، اس وقت اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انہیں روہنگیا مسلمانو ں نے تمہاری آواز کو طاقت دینے کیلئے سینہ سپر ہوکرتمہاری حفاظت کی تھی ۔مگرآج تمہیں جب اقتدار مل چکا ہے توکس بے حیائی سے تم یہ کہہ رہی ہو کہ برما میں مسلمان بھی رہتے ہیں یہ تمہیں معلوم ہی نہیں ہے۔اسے کہتے ہیں’’ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والا مکاروں کا مکار‘‘ جسے سوکی نے اپنے قول وعمل سے پوری طرح ثابت بھی کردیا ہے ۔یہ بات صرف میانمار تک ہی محدود نہیں ہے۔امریکہ جو ہر معاملے میں ٹانگ اڑانا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے ،اس خالص انسانی مسئلے پروہ بھی خاموش ہے۔یہی نہیں عالم اسلام کے بیشتر ممالک کے حکمراں بھی خاموش ہیں۔مسلم عوام تو میانمار کے مسلمانوں کے درد کو دل میں محسوس کرتے ہیں ،لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔حیرت تو یہ ہے کہ سعودی عرب اس وقت صرف بے بنیاد اورعقل سے ماوراءجھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے ہی مسلم ممالک کے عوام کو مطمئن کردینے کی مذموم حرکت کررہا ہے ،ایک طرح سے یوں کہا جائے کہ درپردہ اسرائیل کو سب سے زیادہ مالی مدد پہنچا نے والا سعودی کسی مخصوص آقاءکی ایماء پر دنیا کے مسلموں کو نیند کی گولی کھلا نے کی سازش کررہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 11 Sep 2017, 2:29 PM