بہار: نتیش کا وقار نالندہ میں داؤ پر، مودی کے نام پر پھنس گئیں بہار کی 4 سیٹیں!
نتیش کمار کا وقار نالندہ سیٹ پر داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ ایک تو یہ ان کا آبائی علاقہ ہے اور دوسری وجہ یہ کہ گزشتہ الیکشن میں جنتا دل یو کو ملی دو سیٹوں میں ایک سیٹ یہ بھی شامل ہے۔
گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں جنتا دل یو کے پاس دو سیٹیں آئی تھیں۔ اس بار این ڈی اے میں اپنی طاقت دکھاتے ہوئے نتیش کمار نے بی جے پی کے برابر یعنی 17 سیٹیں الیکشن لڑنے کے لیے حاصل کر لیں۔ الیکشن کے آخری مرحلہ میں جنتا دل یو کی ان دو سیٹوں میں سے ایک پر وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا وقار داؤ پر ہے۔ یہ سیٹ نتیش کا آبائی ضلع نالندہ ہے۔
مہاگٹھ بندھن نے یہاں سے ہندوستانی عوام مورچہ (ہم) کا امیدوار اتارا ہے۔ اس سیٹ پر نتیش کمار کا فارمولہ بگڑنا بہار میں مہاگٹھ بندھن کے لیے اہمیت کا حامل ہوگا۔ ویسے نتیش کا وقار سیدھے سیدھے ایک سیٹ پر پھنسا ہوا ہے، لیکن نریندر مودی کا نام تو چار سیٹوں پر اٹکا ہوا ہے۔
جس پٹنہ صاحب سیٹ کو لے کر کہا جاتا رہا ہے کہ یہاں سے بی جے پی کے ٹکٹ پر کوئی بھی جیت سکتا ہے، وہاں پارٹی کے قومی صدر کو زبردست گرمی میں بھی سڑک پر پسینہ بہانا پڑا۔ وی ایچ پی سے منسلک کچھ نوجوانوں نے اپنی سطح سے تشہیر کی کمان سنبھال رکھی ہے، لیکن وہ بھی کہتے ہیں کہ امت شاہ سے لے کر نریندر مودی تک طاقت جھونکنے کو مجبور ہیں کیونکہ ایک طرف جہاں عوام ان مرکزی وزراء سے ناخوش ہیں وہیں تقریباً ہر سیٹ پر کارکنان کی ناخوشی سے بھی نقصان کا خوف ہے۔
پٹنہ صاحب سیٹ اس بار بہت ہاٹ سیٹ تصور کی جا رہی ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ بی جے پی سے پچھلی بار جیتے شتروگھن سنہا کانگریس امیدوار بن گئے ہیں۔ وزیر اعظم کی پالیسیوں پر لگاتار سخت رد عمل دینے کے سبب بی جے پی نے ان کا ٹکٹ کاٹ کر راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ روی شنکر پرساد کو دے دیا۔ روی شنکر کا نام پہلے سے نہیں چل رہا تھا۔ راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ رویندر کشور سنہا اس سیٹ کے لیے زمین پر محنت کر رہے تھے۔ گول بندی بھی ٹھیک ٹھاک تھی، لیکن بتایا جاتا ہے کہ ریاستی بی جے پی کے ایک بڑے چہرے کی مخالفت کے سبب روی شنکر پرساد کے نام کا اعلان کر دیا گیا۔
یہ اعلان اب تک بی جے پی کے لیے مصیبت بنی ہوئی ہے کیونکہ سنہا ایک طرح سے بغاوتی تیور میں نظر آ رہے ہیں۔ آر کے سنہا کے دل میں لگی آگ پر کانگریس امیدوار شتروگھن سنہا نے یہ کہہ کر گھی ڈال دیا کہ اگر وہ (آر کے سنہا) انتخاب لڑتے تو میں شاید کچھ اور سوچتا۔ رہی سہی کسر بی جے پی کے اس بڑے چہرے نے آر کے سنہا کو الیکشن تشہیر میں نہیں بلا کر پوری کر دی۔ اب بی جے پی میں کھل کر نظر آ رہی اس بغاوت کو اپنے حق میں کرنے کے لیے کانگریس نے پوری طاقت جھونک دی ہے۔
کانگریس نے نتیجہ خیز کایستھ ووٹروں کو شتروگھن کی جانب گھمانے کے لیے بیتیا لوک سبھا سے 2014 کے اپنے امیدوار ونود شریواستو اور 2015 کے اسمبلی الیکشن میں بانکی پور حلقہ کے امیدوار کمار آشیش کو پوری طاقت سے اتار دیا۔ یہ سب اٹھائے گئے قدم اگر کام کر گئے تو روی شنکر پرساد کے لیے سیٹ نکالنا مشکل ہوگا۔ وہ بھی یہ سمجھ رہے ہیں اس لیے لگاتار نریندر مودی کے نام پر ووٹ کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔
بی جے پی کا وقار اس بار پاٹلی پترا سیٹ پر بھی خطرے میں ہے۔ چانکیہ اسکول آف پالیٹیکل رائٹس اینڈ ریسرچ کے صدر سنیل کمار سنہا کہتے ہیں کہ آر جے ڈی صدر لالو پرساد کو جیل میں پریشان کیے جانے کی خبروں کے سبب پاٹلی پترا سے لڑ رہی ان کی بڑی بیٹی کو ان یادووں کا بھی ووٹ مل جائے تو حیرانی نہیں ہوگی جو پچھلی بار رام کرپال کے حصے میں چلے گئے تھے۔
گزشتہ لوک سبھا انتخاب میں رام کرپال یادو اپنی ذات کے ووٹروں کو کہتے پھر رہے تھے کہ لالو کے لیے سالوں وفاداری کے باوجود انھیں کچھ نہیں ملا۔ ویسے بھی لالو کی تصویر کے ساتھ میسا کو نامزدگی کے لیے جاتے دیکھ لوگ جذباتی ہو اٹھے ہیں۔ رام کرپال ہی نہیں، بی جے پی بھی اسے سمجھ رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ سشیل کمار مودی سے امت شاہ تک اس سیٹ پر لگاتار پسینہ بہا رہے ہیں۔
بکسر میں مرکزی وزیر اشونی چوبے اور آرہ میں مرکزی وزیر آر کے سنگھ کی قسمت کا فیصلہ بھی آخری مرحلہ میں 19 مئی کو ہی ووٹر کریں گے۔ چانکیہ اسکول والے سنیل کمار سنہا کی مانیں تو چوبے بی جے پی کارکنان کو ہی مینیج نہیں کر پا رہے، اس پر ریاستی بی جے پی کے کچھ قدآور ان کی شکست کے لیے مصروف بتائے جا رہے ہیں۔
آرہ میں بھی کم و بیش یہی حالت ہے۔ گویا کہ اندرونی چپقلش کے اندیشوں سے چاروں مرکزی وزیر پریشان ہیں۔ جہاں تک جہان آباد، سہسرام اور کاراکاٹ کا سوال ہے تو یہاں حالات کچھ الگ ہیں۔ جہان آباد میں جنتا دل یو-آر جے ڈی میں ٹکر ٹھیک ٹھاک ہوگی۔ سہسرام میں کانگریسی امیدوار میرا کمار کے سامنے پھر بی جے پی رکن پارلیمنٹ چھیدی پاسوان ہیں۔ میرا پچھلی بار ہوئی شکست کا بدلہ لینے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ کاراکاٹ میں آر ایل ایس پی سربراہ اوپیندر کشواہا کا مقابلہ جنتا دل یو کے مہابلی سنگھ سے ہے جنھیں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے نام پر ووٹ ملنے کی امید ہے۔
(نالندہ سے شیشر کی رپورٹ)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔