’انڈیا شائننگ‘ کو یاد کر آر ایس ایس نے ’برانڈ مودی‘ کی ناکامی کا سبب تلاش کیا
بی جے پی کی پرانی نسل کے کئی لوگ مانتے ہیں کہ پارٹی 2004 کے عام انتخاب کے اس حیرت انگیز واقعہ کو بھولی نہیں جب بی جے پی کو دور دور تک بھی احساس نہ تھا کہ الیکشن میں ’انڈیا شائننگ‘ کی ہوا نکل جائے گی۔
آر ایس ایس فیملی کے بے حد قریبی ایک سابق لوک سبھا رکن پارلیمنٹ نے اس بات کا اعتراف کھل کر کیا ہے کہ ’برانڈ مودی‘ کی پانچ سال میں کی گئی مارکیٹنگ کے باوجود بی جے پی کی لوک سبھا میں سیٹیں یقیناً ہی کم ہو رہی ہیں۔ کتنی کم ہوں گی؟ اس سوال پر فی الحال آر ایس ایس فیملی اور بی جے پی میں بالکل خاموشی ہے۔
بی جے پی کی پرانی نسل کے کئی اہم لوگ دبی زبان سے مانتے ہیں کہ پارٹی 2004 کے عام انتخاب کے اس حیرت انگیز واقعہ کو بھولی نہیں ہے جب ٹھیک ایسے ہی اقتدار کی کشتی میں سوار بی جے پی کو دور دور تک بھی احساس نہ تھا کہ ’شائننگ انڈیا‘ کے نعرے کی عام انتخاب میں عوام ایسی ہوا نکالے گی کہ بی جے پی بالکل جیتی ہوئی پاری ہار جائے گی۔
15 سال پہلے کے اس دور میں مرکز میں اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں این ڈی اے حکومت تھی۔ سادگی پسند سیاسی لیڈر و سیاست کی نبض پر گہری گرفت رکھنے والے واجپئی معروف وزیر اعظم تھے۔ بی جے پی، واجپئی اور لال کرشن اڈوانی تینوں ہی فیکٹر آر ایس ایس-بی جے پی کے لیے برابر معنی رکھتے تھے۔
تنظیم اور کارکنان پر اس قدر کچھ اشخاص کی اجارہ داری نہیں تھی، جیسی کہ آج ہے۔ بی جے پی و آر ایس ایس سے جڑے ایک اہم ذرائع کا پوری شدت کے ساتھ ماننا ہے کہ ’’آج حالت یہ ہے کہ پرانے اور تنظیم کی جان سمجھے جانے والے وفادار لوگوں کو حاشیے پر دھکیلا جا چکا ہے۔ 2004 کے ’انڈیا شائننگ‘ کے برعکس بی جے پی پوری طرح مودی میجک پر ٹکی ہے۔ اُس وقت برانڈ ہندوستان تھا۔ یعنی ہندوستان چمک رہا تھا، لیکن اب اس نعرے کی جگہ صرف برانڈ مودی نے لے لی ہے۔‘‘
دھیان رہے کہ 2004 میں کانگریس کے بھی سبھی اہم لیڈر مان چکے تھے کہ بی جے پی ہر حال میں دوبارہ اقتدار میں آنے والی ہے کیونکہ ان کے پاس اٹل بہاری واجپئی جیسی قیادت نہیں تھی۔ واجپئی نے مشترکہ حکومت بھی بخوبی چلائی۔ ان کی شبیہ بالکل تنازعات سے پرے تھی۔ لیکن وقت نے ایسی پلٹی ماری کہ میڈیا کے سبھی قیاس، اندازے اور سروے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
اس وقت واجپئی حکومت نے 2003 دسمبر میں راجستھان، مدھیہ پردیش اور گجرات اسمبلی انتخابات میں دھماکے دار کامیابی حاصل کی تھی۔ اسی فتح کے جوش میں بی جے پی جھوم رہی تھی۔ اچانک فیصلہ ہو گیا کہ لوک سبھا کے عام انتخاب اگر ستمبر-اکتوبر کی جگہ اپریل مئی میں ہی کرا دیے جائیں تو بی جے پی کو زبردست فائدہ ہوگا اور سیٹیں بھی 1999 کے عام انتخاب کے مقابلے زیادہ بڑھیں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ تب حالات کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
حال میں ٹکٹ سے محروم کیے گئے کئی بار رکن پارلیمنٹ رہ چکے ایک بی جے پی لیڈر کا کہنا ہے کہ ’’آنے والے دور میں یہ ایک خطرناک حالت ہوگی، جب ایک یا دو لوگوں کی اجارہ داری سے پارٹی پر قابض ہو چکے مفاد پرست اور کارپوریٹ کلچر میں پرورش پائے لوگ آنے والے وقت میں ملک کی کئی ریاستوں میں ٹکٹوں کے دعویدار کے طور پر بازی مریں گے۔‘‘
بی جے پی میں کئی لوگ اس بات سے بھی اندر ہی اندر ناراض ہیں کہ جیتنے والے چہرے کے طور پر ایسے لوگوں کو ٹکٹ تقسیم کر دیے گئے جن کا بی جے پی کے نظریہ اور پالیسیوں سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ اسی زمرے میں سنی دیول، جیہ پردا اور دہلی میں گوتم گمبھیر اور ہنس راج ہنس کے نام شمار کرائے جا رہے ہیں۔ 16ویں لوک سبھا کے ایک رکن پارلیمنٹ، جن کا ٹکٹ اس بار کاٹا گیا ہے، دو ٹوک کہتے ہیں ’’چھتیس گڑھ جیسی ریاست میں سبھی 10 اراکین پارلیمنٹ کا ٹکٹ محض سنک کی بنیاد پر کاٹا گیا۔ بہانا بنایا گیا کہ چھتیس گڑھ میں پارٹی اراکین پارلیمنٹ کے خلاف عدم اطمینانی کے سبب انتخاب ہاری ہے جب کہ بی جے پی کے اندر ایسا ماننے والوں کی کمی نہیں جو مانتے ہیں کہ درحقیقت ووٹروں کی اصل ناراضگی وہاں رمن سنگھ حکومت کے گھوٹالوں اور انتظامی ناکامیوں کی وجہ سے تھی۔‘‘
2019 کے عام انتخاب میں بی جے پی کی انتخابی پالیسی سے جڑے ایک پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھلے ہی ہم ہر جگہ ٹی وی مباحثوں و ریلیوں میں 300 سیٹیں پار کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں، لیکن گزشتہ بار صد فیصد یا 95 فیصد سیٹیں جیتنے والی کچھ ریاستوں میں 25 سے 50 فیصد تک سیٹیں اس بار گنوا رہے ہیں۔ اس نقصان کی تلافی ہم کون سی ریاستوں سے کرنے والے ہیں۔ بی جے پی و آر ایس ایس میں مانا جا رہا ہے کہ بنگال اور شمال مشرق سے ان کم ہوئی سیٹوں کی تلافی کرنے کے دعوے ہوا ہو چکے ہیں۔
اس بار کے عام انتخاب کا 2004 کے انتخاب سے موازنہ کرنے کے سوال پر بی جے پی و آر ایس ایس میں کئی لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں واقعی دور دور تک بھی اندازہ نہیں تھا کہ ووٹرس انڈیا شائننگ کے بڑبولے پن کو اس قدر خارج کریں گے۔
2004 میں بی جے پی کے سابق صدر و سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی بھی ان اہم لیڈروں میں تھے جنھوں نے اس دور کی انتخابی تشہیر کی تقریروں و میڈیا ڈائیلاگ میں اس بات کو ہر جگہ ترجیحی طور پر رکھا تھا کہ واجپئی حکومت کے ساڑھے چار سال کی پالیسیوں سے ملک میں ترقی کی نئی گنگا بہہ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ب ی جے پی کی نظر شہری ووٹروں اور متوسط و نچلے طبقے کے ووٹروں پر تھی۔
آر ایس ایس کے ایک اہم ذرائع کی مانیں تو اس وقت دیہی ہندوستان میں عدم اطمینان، ملک کے کئی حصوں میں خشک سالی، فصلوں کی بربادی و قرض میں ڈوبے کسانوں کی بدحالی بی جے پی کی شکست کی اصل وجہ تھی۔ اس کا بی جے پی کچھ اندازہ لگاتی، اس کے پہلے ہی پارٹی دھڑام سے گری اور پورے دس سال کے لیے جنگلوں میں کھو گئی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔