’ووٹ بینک کی سیاست‘ کب تک؟
جی ایس ٹی میں رعایات کا اعلان کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ حکومت کو ملک کے چھوٹے تاجروں سے کوئی ہمدردی ہے یا وہ جن مسائل سے نبرد آزما ہیں ان کو حل کرنا چاہتی ہے۔ حکومت نے جو بھی اعلانات کئے ہیں ان کا سیدھا تعلق ووٹ بینک کی سیاست سے ہے۔ یہ’ ووٹ بینک کی سیاست‘ وہ جملہ ہے جو بی جے پی کا اس وقت کانگریس کے خلاف تکیہ کلام تھا جب وہ اقتدار میں نہیں تھی۔ بی جے پی اس وقت حکومت کے ہر فیصلے کو اسی ’ووٹ بینک کی سیاست‘ کے چشمے سے دیکھتی تھی چاہے وہ معیشت کے تعلق سے کوئی فیصلہ ہو یا اقلیتوں اور دلتوں کے تعلق سے کوئی فیصلہ ہو۔ یو پی اے حکومت کون سے فیصلے کیا ذہن میں رکھ کر کرتی تھی یہ بالکل الگ بحث کا موضوع ہے لیکن مودی کی قیادت والی حکومت جو بھی فیصلہ لے رہی ہے اس میں یا تو ووٹ بینک کی سیاست شامل ہے یا پھر اپنے چند تاجر دوستوں کی مدد مقصودہے۔
حکومت نے گزشتہ ایک سال میں معاشی محاذ پر دو بڑے فیصلے لئے ہیں جس میں ایک نوٹ بندی کا فیصلہ تھا اور دوسرا ’ایک ملک ایک ٹیکس نظام‘ یعنی جی ایس ٹی کا نفاذ۔ لیکن دونوں ہی فیصلوں سے ملک کی معیشت کو نقصان ہوا ہے جس کے نتیجے میں عوام کو زبردست پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کرنا پڑ رہا ہے۔ 8نومبر2016کی رات کو اچانک وزیر اعظم ٹی وی پر نمودار ہوئے اور تغلقی اعلان کر دیا کہ آج آدھی رات سے 500اور 1000کے نوٹ کاغذ ہو جائیں گے۔ اس کے بعد ملک میں جو افرا تفری مچی اس کی مثال ماضی میں تو نہیں ملتی ۔ عوام پریشانی اور بے چینی کی حالت میں گھنٹوں گھنٹوں بینک کی لائنوں میں نوٹ تبدیل کروانے کے لئے کھڑے رہے ۔ کہیں سے خبر آئی کہ کسی خاتوں نے بینک کی لائن میں دم توڑ دیا تو کہیں پر کوئی بزرگ تناؤ کو برداشت نہیں کر پائے اور اپنے خوشحال خاندان کو چھوڑ کر دنیا سے چل بسے ، کہیں کسی کی شادی ٹوٹ گئی اور بے شمار لوگوں کے کاروبار ختم ہو گئے۔ اس دوران تقربا 59مرتبہ فیصلوں میں ترمیمات کا اعلان کیا گیالیکن لاچار اور پریشان عوام نے ان کے ہر فیصلے کو تسلیم کر لیا۔ حد تو تب ہو گئی جب آر بی ٓئی نے اگست ماہ میں بتایا کہ ایک فیصد کو چھوڑکر تمام رقم بینکوں میں واپس آ گئی ہے یعنی نوٹ بندی لاگو کرنے کے لئے جن مقاصد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا، بالخصوص کالا دھن اور دہشت گردی کو ، ان سب پر تو کوئی اثر نہیں پڑا۔ کل ملاکر حکومت نے جو نوٹ بندی کا فیصلہ لیا اور پھر اس میں ہر نئے دن نئی ترمیمات کا اعلان کیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت فیصلہ لینے سے قبل سنجیدگی سے ہر پہلو پر غور نہیں کر رہی بلکہ اس کے ذہن میں چند چھوٹے فائدے رہتے ہیں جن میں ووٹ بینک کی سیاست بھی ایک ہے ۔
حکومت نے اب جی ایس ٹی کے تعلق سے جن رعایات کا اعلان کیا ہے اس کے پیچھے بھی ووٹ بینک کی سیاست ہی شامل نظر آتی ہے۔ جی ایس ٹی کے تعلق سے 28میٹنگیں ہو چکی ہیں اور ہر سطح پرغور و خوض کیا جا چکا ہے لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ اس میں ترمیمات کرنی پڑ رہی ہیں۔ ان رعایات کے اعلان کی وجہ اگر ووٹ بینک کی سیاست ہے اور گجرات اسمبلی کے انتخابات ہیں تو یہ ملک کے ساتھ کھلواڑ ہے اور اگر ایسا نہیں ہے (جو واقعی نہیں ہے) تو پھر حکومت تین سال سے جی ایس ٹی کے کن پہلوؤ ں پر غور کر رہی تھی کہ اب اس کو چند ماہ بعد ہی ترمیمات کا اعلان کرنا پڑا۔ یہ جتنے بھی اعلانات ہیں یہ بھی محض دھوکہ ثابت ہوں گے کیونکہ اس فیصلے کے پیچھے صرف اور صرف ووٹ بینک کی سیا ست ہی ہے۔
حکومت اگر قومی معیشت کے ساتھ اس طرح کھلواڑ کرتی رہے گی تو ملک کا اقتصادی ڈھانچہ تہس نہس ہو جائے گا اور ملک کو منموہن سنگھ نے جو ایک مضبوط معیشت سونپی تھی اس کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ معیشت کے تعلق سے کسی بھی حکومت کو انتہائی سنجیدہ سوچ کے ساتھ فیصلے لینے چاہئے اور سیاست کی ہیرا پھیریوں سے معیشت کو دور ہی رکھنا چاہئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔