بی جے پی کی جیت کی وجوہات تو سب بیان کر رہے ہیں لیکن اس کے بعد کیا کیا ہوگا؟ بس دیکھتے جائیں...
مسلمانوں اور گوا میں عیسائیوں کو ’اوقات میں رکھنے‘ کے لئے کئی اقدام لئے جا سکتے ہیں اور این پی آر کا عمل جلد شروع کر دیا جائے تو کوئی حیرانی کی بات نہیں، اس کے لئے 3900 کروڑ کا فنڈ جاری کیا جا چکا
انتخابات کے نتائج کیا رہے یہ تو سب جانتے ہیں۔ تقریباً ہر ایک کو یہ بھی اندازہ ہے کہ نتائج اس طرح کے کیوں رہے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ وجوہات کی درجہ بندی لوگ اپنے حساب سے کر رہے ہیں یعنی کسی کو اگر ہار کی کوئی وجہ پہلی لگ رہی ہے تو دوسرا اس وجہ کو تیسرے مقام پر رکھ سکتا ہے۔ یعنی جیت کے اسباب سب کو معلوم ہیں لیکن اگر کوئی انہیں سمجھنا نہیں چاہتا تو یہ اس کا خیال ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ایسی جیت کے بعد کیا نظر آ رہا ہے۔
سبھی مان رہے ہیں کہ جن ریاستوں میں بی جے پی فتحیاب رہی، ان میں مفت راشن کے ساتھ رہائش اور بیت الخلا کے لئے رقم دئے جانے کا کردار اہم رہا۔ یاد رکھنا ہوں گی، یہ سب پنجاب میں بھی ہو رہا تھا، ہاں اتنا ضرور ہے کہ یوپی، اتراکھنڈ اور منی پور کے مقابلہ پنجاب میں مستفیضین کی تعداد قدر کم تھی۔ پھر بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ پنجاب میں کانگریس کیوں اس کا فائدہ حاصل کرنے سے قاصر رہی؟ دوسری بات کہ فوڈ سکیورٹی قانون کا نفاذ کانگریس نے ہی کیا تھا پھر بھی اسے اس کا فائدہ بی جے پی کی طرح کیوں حاصل نہیں ہوتا؟
کیا جن دو ریاستوں راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی حکومتیں ہیں، وہاں پارٹی کو اس کا فائدہ حاصل ہوگا؟ ایک اور بات کہ کورونا کی وجہ سے مفت راشن اور بعد میں نمک اور تیل بھی تقسیم ہوتا رہا لیکن مارچ کے بعد کیا ہوگا؟ اب بھی معیشت میں اتنی بہتری نظر نہیں آتی کہ نچلے معاشی طبقے کو بھی اتنی آسانی سے روزگار مل سکے جیسا کہ کووڈ سے پہلے ملتا تھا۔
حکومت نے ان پانچ ریاستوں میں انتخابات سے قبل تین زرعی قوانین کو واپس لے لیا تھا۔ پھر بھی یہ تینوں قوانین بی جے پی اور کافی حد تک شرومنی اکالی دل کے لیے بھی گردن کی ہڈی بن گئے۔ کانگریس پہلے دن سے اس کی مخالفت کر رہی تھی، پھر بھی اسے پنجاب میں شکست ہوئی۔ عام آدمی پارٹی، جس نے ان قوانین کے بارے میں واضح رائے پیش نہیں کی، اسے پنجاب کے عوام نے اقتدار سونپ دیا۔
حکومت نے ان تینوں قوانین کو واپس لینے کا اعلان تو کر دیا لیکن بعد میں مرکزی وزیر زراعت نریندر تومر نے جھٹ سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ وہ کچھ دیگر ترامیم کے بعد انہیں واپس لے لائیں گے۔ تاہم انہوں نے اپنے بیان پر صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیان کا غلط مطلب نکالا گیا۔ راکیش ٹکیت سمیت مختلف تنظیموں کی مہم کے باوجود مغربی اتر پردیش میں جس طرح سے بی جے پی کی جیت ہوئی ہے، اس سے وہی پرانا قانون ایک نئی بوتل میں واپس آنے کا پورا امکان ہے۔
مانا جاتا ہے کہ جس طرح سے ہندوتوا کی گھٹی پلائی گئی ہے، اس جیت کے پیچھے اس کا گہرا اثر ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ اعلیٰ طبقے سے لے کر انتہائی کم آمدنی والے طبقے تک یہ گھٹی مسلسل پلائی جاتی رہی ہے۔ بی جے پی کا پیغام بالکل واضح ہے کہ مسلمان 'تقریباً دوسرے درجے کے' شہری رہیں تو انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔
اس پر بہت کم توجہ دی گئی ہے، لیکن بی جے پی لیڈروں کا خیال ہے کہ جس طرح تین طلاق قانون نے مسلم خواتین کی ایک چھوٹی سی فیصد کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے، اسی طرح حجاب کے تنازع سے بھی اس کا فائدہ ہوا ہے۔ آنے والے دنوں میں پتہ چل جائے گا کہ بی جے پی کی اس سوچ کی بنیاد کتنی ٹھوس ہے کیونکہ برقع، نقاب، حجاب وغیرہ کا رجحان ایسے کمزور طبقے کی لڑکیوں اور خواتین میں زیادہ ہے جنہیں اپنی غیر ترقی یافتہ بستیوں سے باہر نکلنے پر تحفظ کے احساس کے طور پر ان کی ضرورت ہوتی ہے۔
لیکن اصل خطرہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور یہاں تک کہ گوا کے عیسائیوں کو بھی 'اوقات میں رکھنے' کے لیے کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) کا عمل جلد شروع ہو جائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ اکتوبر 2021 میں ہی مرکزی حکومت نے اس کے لیے 3900 کروڑ مختص کیے ہیں۔ یہ تقریباً نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) جیسا عمل ہے۔ یاد ہوگا کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی شدید مخالفت کی وجہ سے حکومت نے اسے ملتوی کر دیا تھا۔ لیکن اب حکومت اس پر عمل درآمد کرنے میں شاہد ہی ہچکچائے گی۔
یہ بھی یاد رہے کہ انتظامیہ نے یوپی میں سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران تشدد میں سرکاری املاک کے عوض 274 لوگوں کو ریکوری نوٹس جاری کیا تھا۔ پرویز عارف ٹیٹو کی درخواست پر سپریم کورٹ کے بنچ نے یہ نوٹس واپس لینے اور جمع کرائی گئی رقم متعلقہ لوگوں کو واپس کرنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن تلوار لٹکی ہوئی ہے کیونکہ اتر پردیش ریکوری آف ڈیمیج ٹو پبلک اینڈ پرائیویٹ پراپرٹی بل 2021 کو اتر پردیش اسمبلی نے مارچ 2021 میں منظور کیا تھا۔ یوگی حکومت اس قانون کے تحت کارروائی کرنے کی تیاری کرے گی۔ اور اس تناظر میں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ میڈیا کو 'شملہ کی ہوا مکا احساس' کراتے رہنے کا سلسلہ پہلے کے زیادہ زور پکڑے گا۔ مرکزی دھارے کے میڈیا کی حقیقت تو سب کو معلوم ہے آنے والے دنوں میں یوٹیوبرز پر مزید نظر رکھی جائے گی۔
سی اے اے مخالف احتجاج، کورونا کے دوران حکومت کی لاپرواہی سے لاکھوں لوگوں کی موت اور کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے ایسی غلط فہمی پیدا ہو رہی تھی کہ بی جے پی بیک فٹ پر ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ سمیت کئی وزرائے اعلیٰ اپنی اپنی ریاستوں میں آبادی کنٹرول قونون کو لاگو کرنے کی بات کر چکے ہیں۔ اسے وہ آگے بڑھائیں گے اور اگر مرکزی حکومت بھی اس سمت میں پہل کرتی نظر آئے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی۔ اگر سرکاری اعداد و شمار کسی اور قسم کی سچائی کو ظاہر کرتے ہیں تو بھی بی جے پی اور سنگھ نے یہ پروپیگنڈا کرکے ایک بڑے طبقے کو قائل کر لیا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ ہندوؤں کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے۔ کئی ریاستوں نے لو جہاد قانون کو یا تو لاگو کیا ہے یا اسے نافذ کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔
یکساں سول کوڈ بھی اسی طرح کا مسئلہ ہے۔ اس ضابطہ کو لاگو کرنے کے لیے دہلی ہائی کورٹ میں جو عرضی داخل کی گئی ہے، سب جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے بی جے پی کے حامی ہیں۔ ابھی جنوری میں مرکزی حکومت نے ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ فی الحال یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کے نفاذ کا تذکرہ آئین کی پالیسی کے ہدایتی اصولوں میں ہے اور یہ عوامی پالیسی سے متعلق مسئلہ ہے اور اس پر عدالت کوئی رہنما خطوط جاری نہیں کر سکتی۔
اور آخر میں سب سے اہم بات۔ ایل کے اڈوانی کے زمانے سے بی جے پی کے کئی رہنما ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ نریندر مودی سرگرم انتخابی سیاست سے ریٹائر ہونے کے لیے بی جے پی رہنماؤں کی مقرر کردہ عمر کی حد کو پہنچ رہے ہیں۔ یعنی اب ان کے جھولا اٹھا کر نکلنے کا وقت آ گیا ہے۔ ایسے میں اگر وہ اس نظام کو نافذ کرنا مناسب سمجھے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یہ سوچ کر خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس بار یوپی انتخابات کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ کا قد بڑھ گیا ہے، اس لیے وہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔ اٹل بہاری واجپائی-اڈوانی کی جوڑی اس بات کی ایک مثال رہی ہے کہ بی جے پی کے دو بڑے لیڈر سنگھ کی ہدایت پر کیسے تال میل کرتے ہیں۔ اگر مودی اعلیٰ عہدہ سنبھالتے ہیں تو شاہ کو مرلی منوہر جوشی کے ساتھ کام جاری رکھنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ ہاں، آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسو سرما پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح یوگی کو بی جے پی میں اگلے مودی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اسی طرح ہیمنت کو اگلے یوگی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 12 Mar 2022, 12:40 PM