راجیو گاندھی: دور اندیشی اور بہادری والے فیصلوں سے اکیسویں صدی کے ہندوستان کے معمار

ہندوستان کو جب اکیسویں صدی کی پیچیدگیوں کا سامنا ہے، راجیو گاندھی کے ذریعہ رکھی گئی بنیاد ہمیشہ اہمیت کی حامل ہے، ان کی وراثت ایک مثال ہے کہ برعکس حالات میں بھی نتیجہ خیز عمل ملک کی سمت طے کر سکتی ہے۔

راجیو گاندھی، فائل تصویر
راجیو گاندھی، فائل تصویر
user

اشوک سوین

راجیو گاندھی نے ایک ایسے دور میں محض 40 سال کی جواں عمری میں وزیر اعظم کے طور پر ملک کی قیادت کی، جب ملک اتھل پتھل کے دور سے گزر رہا تھا اور تبدیلی کے دور میں تھا۔ انھوں نے ایک ایسے ملک کی بنیاد رکھی جو اکیسویں صدی میں آنے والے وقت میں ’ورلڈ پاور‘ کی شکل میں تیار ہو۔ افسوسناک طور سے ان کی مدت کار چھوٹی رہی، لیکن جو دور اندیشی پر مبنی اصلاحی کام اور ہندوستان کے سماجی و معاشی منظرنامہ کے لیے جو بنیادی تبدیلیاں انھوں نے کیں، ان کی واضح شبیہ آج بھی ملک میں دکھائی دیتی ہے۔ آج (21 مئی) ان کی برسی پر جب ہم ملک کے لیے ان کے تعاون کو دیکھتے ہیں تو ان کی دور اندیشی اور ہندوستان کو ایک ترقی پذیر اور جدید ملک بنانے سے متعلق ان کا عزم نظر آتا ہے۔

ملک کے لیے راجیو گاندھی کا تعاون بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے تعاون میں جو سب سے اہم بات ہے، وہ ملک کے کمپیوٹر کاری اور تکنیکی طور پر مضبوط بنانے کی ان کی مستقل کوشش ہے۔ ایسے وقت میں جب ہندوستان کی معاشی پالیسی کافی حد تک سماجی اصول و ضوابط سے متاثر تھی، انھوں نے تکنیک کی وکالت کی، اسے ایک انقلابی قدم تصور کیا جاتا ہے۔ انھوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بے پناہ امکانات کو سمجھ لیا تھا اور مانتے تھے کہ اس سے نہ صرف ملک کی معیشت میں حیرت انگیز تبدیلی آئے گی، بلکہ کروڑوں ہندوستانیوں کے لیے نئے مواقع کھلیں گے۔ ان کی پیش قدمی پر ہی نیشنل انفارمیٹکس سنٹر (این آئی سی) کا قیام ہوا اور سرکاری دفاتر میں کمپیوٹر کے استعمال کی شروعات ہوئی۔ آج ملک میں مستقل بڑھتی آئی ٹی صنعت کے لیے یہ مضبوط بنیاد تھی۔


آج ہندوستان دنیا کا عالمی اطلاعاتی تکنیک مرکز ہے۔ بنگلورو اور حیدر آباد جیسے شہروں میں دنیا کی کچھ سرکردہ تکنیکی کمپیناں کام کر رہی ہیں۔ اس تبدیلی کو راجیو گاندھی کی انتھک کوششوں سے پرواز ملی۔ ان کی پالیسیاں صرف تکنیکی شعبہ میں ہی ملک کو جدید بنانے والی نہیں تھیں، بلکہ تکنیک سے جڑے پیشہ وروں کے لیے بھی خودمختاری کا ذریعہ بنیں۔ ایسے پیشہ وروں نے ان کوششوں کے سہارے ہندوستان کو ڈیجیٹل دور میں اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا اور آج وہ دنیا کی سرکردہ کمپنیوں کی قیادت کر رہے ہیں۔

راجیو گاندھی کا ہی دور معاشی لبرلائزیشن (آزاد خیالی) کی شروعات کا دور تھا۔ حالانکہ مکمل معاشی اصلاح 1990 کی دہائی میں ان کے بعد ملک کی کمان سنبھالنے والے پی وی نرسمہا راؤ اور وزیر مالیات منموہن سنگھ کے دور میں ہوئے۔ لیکن اس کی مضبوط بنیاد راجیو گاندھی نے ہی رکھی تھی۔ راجیو گاندھی لائسنس راج کے رخنات اور حدود کو سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے لال فیتہ شاہی کو ختم کرنے، بیرون ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے اور صنعتوں کو فروغ دینے جیسے اقدام کیے۔


معیشت کو لبرل بنانے کی ان کی کوشش حالانکہ کافی محتاط اور ترقی پذیر تھی، پھر بھی انھوں نے پرانی معاشی پالیسیوں کو بدلنے کا اشارہ دیا۔ راجیو گاندھی کی آزاد خیالی والی اور مقابلہ آرا معیشت کی سوچ نے تبدیلی پر مبنی اصلاح کا راستہ مضبوط کیا جس سے ہندوستان لگاتار معاشی ترقی اور عالمی معیشت میں انٹگریشن (انضمام) کے راستے پر آگے بڑھا۔

اس بات کو پہچانتے ہوئے کہ ہندوستان کی ترقی میں تعلیم سب سے اہم ہے، راجیو گاندھی نے معیار والی تعلیم تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے کئی قدم اٹھائے۔ جواہر نوودے ودیالیہ کی شروعات اسی پیش قدمی کا حصہ تھی جس میں دیہی علاقوں کے بچوں کو تعلیم سے جوڑا گیا۔ اب تک ان اسکولوں سے بے شمار پیشہ ور شخصیات اور لیڈرس نکلے ہیں جنھوں نے ملک کی ترقی میں اہم تعاون پیش کیا ہے۔


اتنا ہی نہیں، راجیو گاندھی نے ڈی سنٹرلائزیشن (غیر مرکزیت) کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بالکل زمینی سطح پر حکومت لے جانے کی شروعات پنچایتی راج سے کی۔ یہ ایسا قدم تھا جس سے ’سیلف گورننس‘ کے لیے لوگوں کو مضبوطی ملی۔ مقامی بلدیوں کو اختیارات دے کر لوگوں کو صحیح قدم اٹھانے اور جوابدہی طے کرنے کا کام شروع کیا گیا۔ اس قدم نے جمہوریت میں حصہ داری کو یقینی بنایا اور ترقیاتی فوائد آخری شخص اور جگہ تک پہنچے۔

ملک کی خارجہ پالیسی کی تجدید کاری کے لیے راجیو گاندھی نے غیر وابستگی اور خود مختاری جیسے روایتی رسوم کو برقرار رکھتے ہوئے کئی اہم فیصلے لیے۔ انھوں نے تخفیف اسلحہ کی وکالت کی اور عالمی امن و سیکورٹی کے لیے اہم کردار نبھایا۔ اپنے وقت کی مضبوط طاقتوں کے ساتھ رشتوں کو بہتر کرنے کے ساتھ ہی عالمی سطح پر آزادی اور انصاف کے قیام کے لیے کام کیا۔ اس سے بین الاقوامی معاملوں و روابط میں ان کے توازن کی سمجھ سامنے آتی ہے۔


امریکہ اور سوویت یونین جیسے ممالک کے سفر اور جنوبی ایشیا میں چین و پاکستان کے ساتھ ڈائیلاگ نے ہندوستان کو عالمی پلیٹ فارم پر ایک اہم ملک کی شکل میں قائم کیا۔ راجیو گاندھی کی سفارتی کوششوں سے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ہندوستان کی اہمیت اور پالیسی پر مبنی شراکت داریوں کا فائدہ آج بھی ہندوستان کو ملتا ہے۔

وزیر اعظم کی شکل میں راجیو گاندھی کی مدت کار بارفتار تبدیلی اور بہادری والے فیصلوں کا دور تھا۔ جدید، مجموعی، تکنیکی طور سے خوشحال اور معاشی طور سے آزاد خیال ہندوستان کے ان کے نظریے نے ملک کی ترقی کی راہ میں ایک نہ مٹنے والا نشان چھوڑا ہے۔ اہم چیلنجز اور تنقید کا سامنا کرنے کے باوجود ہندوستان میں اصلاح اور تجدید کاری کی ان کی کوششوں کو ان کے دور کے بعد کی دہائیوں میں فائدے ملے۔


آج ہندوستان جب اکیسویں صدی کی پیچیدگیوں سے دو چار ہے، راجیو گاندھی کے ذریعہ رکھی گئی بنیاد ہمیشہ اہمیت کی حامل بنی ہوئی ہے۔ ان کی وراثت ایک مثال ہے کہ برعکس حالات میں بھی باہمت نظر اور نتیجہ خیز عمل ملک کے مستقبل کی سمت طے کر سکتا ہے۔ آج ہم جس ہندوستان کو جانتے ہیں، اس کا خاکہ تیار کرنے میں راجیو گاندھی کا تعاون بلاشبہ بہت اہم رہا ہے۔

(اشوک سوین اُپسلا یونیورسٹی، سویڈن میں ’پیس اینڈ کنفلکٹ‘ کے پروفیسر ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔