وسندھرا حکومت کے خلاف دلتوں کا غصہ ساتویں آسمان پر
راجستھان کا دلت اور قبائلی طبقہ پہلے سے ہی وسندھرا راجے حکومت سے ناراض چل رہا تھا، اور اب ہندوستان بند کے دوران ہوئے مظالم نے اس ناراضگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔
جس وقت سپریم کورٹ ایس سی/ایس ٹی ایکٹ معاملہ میں مرکزی حکومت کے ذریعہ داخل از سر نو غور کی عرضی پر سماعت کر رہی تھی، ٹھیک اسی وقت راجستھان کے ہنڈون سٹی میں 40 ہزار لوگوں کی بے قابو بھیڑ نے ایک دلت ہاسٹل میں آگ لگا دی۔ سابق وزیر اور کانگریس لیڈر بھروسی لال جاٹو اور موجودہ بی جے پی ممبر اسمبلی راج کماری جاٹو کے گھر جلا کر راکھ کیے جا رہے تھے۔ اتنا ہی نہیں، ذات پرست شر پسند عناصر شہر کی جاٹو بستی پر حملہ آور ہونے کے لیے تیار تھے اور چن چن کر دلتوں کو مار رہے تھے۔ حالات اتنے بے قابو تھے کہ انتظامیہ کو کرفیو لگانا پڑا۔
یہ راجستھان کے تازہ حالات ہیں جہاں ہنڈون، نیم کا تھانہ وغیرہ مقامات پر دلتوں پر پولس کی موجودگی میں حملے ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کہنا کہ ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے، عام دلت اور قبائلیوں کی سمجھ سے پرے ہے۔ ریاست میں گزشتہ چار سالوں سے شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائب پر مظالم کے معاملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ناگور کے ڈانگاواس میں 5 فیصد دلتوں کا بے رحمی سے قتل، کماری ڈیلٹا میگھوال کا جنسی استحصال کرنے کے بعد قتل، بھگیگا میں دو سگی بہنوں سے اجتماعی عصمت دری اور ان کے ذریعہ خودکشی کا معاملہ، دلت ممبر اسمبلی چندر کانتا میگھوال سے پولس تھانہ میں مار پیٹ، الور کے بھیواڑی میں دو دلت جوانوں کا قتل، پولس کانسٹیبل گینا رام کے ذریعہ ذات پر مبنی مظالم سے تنگ آ کر خودکشی کرنے کا واقعہ... ان سب کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ مغربی راجستھان میں بڑھتے استحصال کے سبب دلت اور قبائلی طبقہ میں ریاست کی وسندھرا راجے حکومت اور مرکز کی مودی حکومت کے تئیں ناراضگی ساتویں آسمان پر ہے۔ حال ہی میں ہوئے لوک سبھا اور اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے بھی اس ناراضگی کو ظاہر کیا تھا۔ لیکن وہ غصے کا محض سیاسی اظہار تھا۔ 2 اپریل کو ہندوستان بند کے دوران جس طرح راجستھان کے دلت سڑکوں پر اترے، اس نے یہ ثابت کر دیا کہ دلتوں نے بی جے پی سے اب کسی بھی طرح کی امید کرنا چھوڑ دیا ہے۔
ہندوستان بند کے دوران راجستھان میں زبردست مظاہرے ہوئے۔ زیادہ تر مقامات پر دلتوں نے پرامن مظاہرے کیے لیکن کچھ مقامات پر تشدد جیسے حالات پیدا ہو گئے۔ اس کے لیے ریاستی حکومت کا رویہ بھی کم ذمہ دار نہیں ہے۔ جب دلت اور قبائلی تنظیموں نے وقت رہتے انتظامیہ کو تحریری شکل میں بند کے بارے میں جانکاری دے دی تھی اس کے باوجود حکومت کی نیند نہیں کھلی اور انھوں نے دلتوں اور قبائلیوں کی تنبیہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ حکومت اس بات کا اندازہ تک نہیں لگا پائی کہ ریاست کا محروم طبقہ کتنا ناراض ہے۔ اس لیے جب دلت اور قبائل بند کے دن سڑکوں پر آئے تو پولس انتظامیہ انھیں سنبھال پانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود اس بند کو کافی حد تک پرامن اور قابو میں کہا جا سکتا ہے۔ سڑکوں پر لاکھوں لوگ تھے، پھر بھی تشدد کے واقعات کافی کم ہوئے۔ جہاں بھی تشدد پر مبنی ہنگامے ہوئے وہ اُکسائے جانے اور پولس کے ذریعہ گولی باری اور لاٹھی چارج کی وجہ سے پیدا غصہ کے سبب ہوئے۔
اس بات کے خطرناک اشارے اس بند کے دوران ملے ہیں کہ راجستھان کی پولس اور ’کرنی سینا‘ جیسے ذات پر مبنی گروپ آپس میں مل کر دلتوں کو سبق سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہندوستان بند کے دوران جالور، باڑمیر اور ہنڈون میں یہ واضح طور سے دیکھنے کو ملا ہے۔ جالور کے رانی واڑا میں انہی شدت پسند عناصر نے پنچایت سمیتی میں لگے امبیڈکر کے مجسمے کو توڑ دیا اور ہندوستان بند میں شرکت کرنے آئے مقامی دلتوں کو دوڑا دوڑا کر پیٹا۔ ایسا ہی آہور میں بھی کیا گیا اور سانچور میں بھی اعلیٰ ذات کی بھیڑ نے دلتوں پر جانلیوا حملے کیے۔ یہ حملہ آور کرنی سینا اور بجرنگ دل وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ الزام متاثرین نے واضح لفظوں میں لگایا ہے۔ سیکر ضلع کے نیم کا تھانہ اور جھنجھنو ضلع کے اودے پور واٹی قصبے کے دلت بھی اسی طرح کے حملوں کا شکار ہوئے۔
الور میں پولس نے اندھا دھند گولی باری کی جس میں 22 سالہ کھیرتھل باشندہ دلت نوجوان پون جھاڈولی کی موت ہو گئی اور دو دیگر مظاہرین سنگین طور پر زخمی ہو گئے۔ بھرت پور، بھوساور، دوسا، بیکانیر، اجمیر، جودھپور وغیرہ مقامات پر بھی پولس اور نسل پرست عناصر نے دلت قبائلی مظاہرین کو نشانہ بنایا۔ تیرتھ راج کہے جانے والے پشکر قصبہ کے پنڈوں نے بھی دلتوں کے ساتھ پرتشدد رخ اختیار کیا۔ جے پور میں پولس تھانوں میں دلت قبائلی نوجوانوں کی بے رحمی سے پٹائی تک کی گئی۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق ریاست بھر میں اب تک 172 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں جن میں 1100 سے زائد مظاہرین پکڑے گئے ہیں۔ انھیں سنگین دفعات میں پھنسائے جانے کا حکومت پورا انتظام کر چکی ہے۔ ایک موت کی اب تک سرکاری طور پر تصدیق کی گئی ہے جب کہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔ 250 سے زائد لوگ زخمی ہیں جن میں سے تقریباً 10 لوگوں کی حالت سنگین ہے۔ پولس لاٹھی چارج اور نسل پرست طبقات کے حملوں میں زخمی لوگوں کی تعداد کافی ہے۔ دلتوں کی طرف سے مقدمے کہیں بھی درج نہیں کیے جا رہے ہیں جب کہ ان پر خوب مظالم ہوئے ہیں۔
ریاستی حکومت کی انتظامیہ، پولس محکمہ اور انٹیلی جنس ایجنسیاں دلتوں کی ناراضگی کو سمجھ پانے میں پوری طرح ناکام رہے ہیں جس کے سبب ایک پرامن اور منظم بند پر باہری شر پسند عناصر نے حملے کیے اور تحریک کو ہی بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ ریاستی حکومت کا رویہ دلتوں کے تئیں کافی مایوس کن ہے۔ حکومت میں جو دلت قبائلی طبقہ کے عوامی نمائندہ ہیں، ان کو سننے والا ہی کوئی نہیں ہے تو وہ اپنے لوگوں کی بات کیسے رکھ پائیں گے۔ حکومت کا یہ رویہ اب عوام کے ذہن میں بس گیا ہے۔
راجستھان کا دلت اور قبائلی طبقہ پہلے سے ہی وسندھرا راجے حکومت سے ناراض چل رہا ہے۔ علاوہ ازیں بند کے دوران ہوئے مظالم اور اس کے بعد چل رہی کارروائی سے یہ دوری مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ دلت ناراضگی تو بڑھ ہی رہی ہے، دلت قبائلی نوجوان مبینہ طور پر اعلیٰ ذاتوں کے غلط رویہ اور ہندو تنظیموں کے دوگلے پن سے بھی عاجز آ چکے ہیں۔ اس کا خمیازہ بی جے پی کو راجستھان میں بھگتنا پڑے گا کیونکہ اسمبلی انتخابات کا وقت تو بالکل نزدیک آ چکا ہے۔
دلت مظالم کے معاملے میں ریاست اول مقام پر آ چکا ہے۔ ہر دن تفریق، مظالم اور ناانصافی کی خبریں بڑھ رہی ہیں۔ حکومت اور پولس انتظامیہ کا رویہ تو پہلے سے ہی مایوسی بھرا تھا، سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن نے ان کو دلتوں پر مظالم کی صورت میں کارروائی نہ کرنے کا ایک اور بہانہ دے دیا ہے۔ اس سے دلتوں کے اندر عدم تحفظ کا خوف پیدا ہو گیا ہے۔ اس لیے اب دلت اور قبائلی طبقہ آر یا پار کی لڑائی کے لیے تیار ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ یہ ان کے وجود کو بچانے کی لڑائی ہے۔
(رائٹر راجستھان میں دلت، قبائلی اور بنجارہ طبقہ کے مسائل اٹھانے والے سماجی کارکن ہیں۔)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔