ہندوستان کے اگلے وزیر اعظم راہل گاندھی ... سودھیندر کلکرنی

راہل گاندھی کا کانگریس صدر منتخب ہونا ان کے اور پارٹی دونوں کے لئے یہ صحیح وقت ہے۔ لیکن آگے کی راہ آسان نہیں ہے ، دونوں کو ہندوستانی عوام کا بھروسہ اور حمایت حاصل کرنے کے لئے سخت محنت کرنی ہوگی۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

سدھیندر کلکرنی

اس بات کو کیا ثابت کرنا جو ثابت ہو چکی ہے!

اسے پھر سے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ قدرت کا اصول ہے کہ ہر شئی کی ہیّت بدلتی رہتی ہے، یہی اصول سیاست پر بھی لاگو ہوتا ہے اور نیوٹن کایہ اصول جمہوریت پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ جو اوپر جاتا ہے وہ نیچے بھی آتا ہے۔ اگر کوئی بھی پارٹی یا خاندان غرور میں یہ سوچ بیٹھتا ہے کہ وہ ہمیشہ سب سے زیادہ طاقتور بنا رہے گا تو تاریخ اسے غلط ثابت کر دیتی ہے۔ تاریخ رہنماؤں کی خامیوں کو تو معاف کر دیتی ہے لیکن ا ن کے غرور کو نہیں۔ رہنما ؤں کے زوال کی شروعات وہیں سے شروع ہو جاتی ہے جب وہ مغرور ہو جاتےہیں۔

مستقبل کے مورخ 2019 یا 2024 میں بی جے پی کی یقینی ہار کو تحریر کریں گے تو وہ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی شامل کریں گے کہ بی جے پی کے رہنماؤں کا غرور آسمان پر تھا۔ وہ اس وقت پھول کر غبارہ ہو گئے تھے جب 2014 میں انہوں نے فیصلہ کن اکثریت حاصل کی تھی۔ 1984 کے بعدسے کسی بھی پارٹی کو مکمل اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی اس کے پیش نظر بی جے پی کا جشن جائز تھا لیکن وہ یہ گمان کر بیٹھے کہ اب وہ ملک کی قدیم ترین جماعت کانگریس کو ختم ہی کر دیں گے ۔ اسی گمان میں انہوں نے کانگریس مکت بھارت (کانگریس سے پاک ہندوستان ) کےنعرے کو جنم دے ڈالا۔ انہیں یہ یقین ہو چلا تھا کہ اب ہندوستان کی سیاست وہی شکل اختیار کر لے گی جو آزادی کے بعد شروعاتی سالوں میں تھی اور وہ کانگریس کا مقام حاصل کر لے گی۔

بہر حال ، 2017 کا ہندوستان وہ نہیں ہے جو 1947 کا ہندوستان تھا۔ باوجود اس کے نریندر مودی حکومت نے اپنی عظمت کو ظاہر کرتے ہوئے اس سال جی ایس ٹی کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کے لئے ’فریڈم ایٹ مڈ نائٹ ‘ اجلاس بلانے کا فیصلہ لے لیا ۔ آج کا ہندوستان متبادل کی تلاش میں ہے اور جب کوئی متبادل نظر نہیں آتا تو تاریخ لوگوں کی خواہش کے مطابق خود ایک متبادل تیار کر دیتی ہے۔

سونیا گاندھی نے نقادوں کو غلط ثابت کیا

2003 میں بی جے پی کے (کانگریس و دیگر پارٹیوں کے بھی )کچھ رہنماؤں کو بھروسہ نہیں تھا کہ اٹل بہاری واجپئی کی حکومت 2004 کے عام انتخابات میں ہار جائے گی اور ہندوستان میں بہت سے لوگوں کو یہ امید نہیں تھی کہ اس کے بعد سونیا گاندھی کی قیادت میں کانگریس پارٹی بی جے پی کو شکست فاش سے ہمکنار کرا دے گی۔ کانگریس اس سے قبل 1996، 1998 اور 1999 کے پارلیمانی انتخابات میں ہار چکی تھی۔ بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے سونیا گاندھی کو توہین آمیز طریقہ سے ’غیر ملکی‘ بتا کر بار بار خارج کیا اور یہ کہہ کر نشانہ بنایا کہ انہیں ہندوستان کی سیاست کی کوئی سمجھ نہیں ہے۔ ریلیوں میں تقاریر پڑھنے کے حوالے سے انہیں ’لیڈر ‘ کے بجائے ’ریڈر‘ کہا جاتا تھا ۔ لیکن ان کے مخالفین کو اس وقت جھٹکا لگا جب سونیا گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے 2004 اور 2009 میں بی جے پی کو ہرا دیا۔ غور طلب ہے کہ 2004 سے قبل یو پی اے کا وجود نہیں تھا لیکن جب ہندوستان کو متبادل کی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کے لئے یہ متبادل تیار ہو گیا۔

ایسے وقت میں سونیا گاندھی جب ایک بڑی اور پرانی پارٹی کی کمان راہل گاندھی کو سونپ رہی ہیں تو یہ سبق تمام سیاسی جماعتوں اور بالخصوص کانگریس کو ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ آج ہندوستان نریندر مودی حکومت کا متبادل تلاش کر رہا ہے اور راہل کی قیادت والی کانگریس اس ضرورت کو پورا کر سکتی ہے اور کرے گی۔ اگر کانگریس خود کو تبدیل کر لیتی ہے تو 2019 میں یہ ہو سکتا ہے نہیں تو 2024 میں تو یقینی طور پر ہوگا۔ اگر کوئی سانحہ پیش نہ آیا تو ہر حال میں راہل گاندھی ہندوستان کے اگلے وزیر اعظم ہوں گے۔

یہ بات سوچنا کہ کوئی مقامی پارٹی یا رہنما مودی کی جگہ قیادت سنبھالے گا تو اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کیوں کہ کانگریس کے علاوہ یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا ۔ دیوگوڑا جیسے تجربہ کو ہندوستان اب برداشت نہیں کر سکتا ۔

مودی حکومت میں کام کم تشہیر زیادہ

ہندوستان آخر متبادل کی تلاش کیوں کر رہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نریندر مودی اور ان کی حکومت عوام کی امیدوں پر کھری نہیں اتر پائی اور اپنے ’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس‘ کے وعدے کو بھی نبھانے میں ناکام رہی۔ یہ بات اور ہے کہ مودی کی مقبولیت ابھی برقرار ہے اور ان کی حکومت ابھی تک کسی بڑے گھوٹالے میں اس طرح نہیں پھنسی ہے جس طرح یو پی اے 2 کی ساکھ کو نقصان ہوا تھا۔ مودی حکومت نے سوچھ بھارت، ڈجیٹل انڈیا اور میک ان انڈیا جیسی کئی اسکیموں کی شروعات بھی کیں ۔ ملک کی بالائی شاہراہوں اور بندرگاہوں کو بہتر بنانے کا کام ہو رہا ہے اور توانائی کی پیداوار پر تیزی سے کام کیا جا رہا ہے۔

لیکن مودی حکومت تین مدوں پر پوری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ پہلا نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جسے حکومت نے تاریخ ساز فیصلہ قرار دیا تھا اسے لوگوں نے قطعی پسند نہیں کیا۔ ان دونوں فیصلوں کی وجہ سے عوام بھی متاثر ہوئی اور شرح ترقی بھی سست ہو گئی۔ بےروزگاری کا مسئلہ بڑھ گیا جس کی وجہ سے ملک کا نوجوان عدم اطمینان کا شکار ہے۔ دوسرا بی جے پی نے اب یہ اعتراف کر لیا ہے کہ صرف ’وکاس ‘ کے نام پر وہ اقتدار میں نہیں رہ سکتی اس لئے وہ ہندوتوا کے ایجنڈہ پر چل کر ’ہندو ووٹ بینک‘ کو مضبوط کرنا بہت ضروری سمجھتی ہے۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ ’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ‘ کا وعدہ ہوا ہوائی ہو گیا اور حکومت ساڑھے تین سال میں ہی تقسیم کاری کے مدے پر لوٹ آئی۔ تیسرا یہ کہ اب یہ بات منظر عام پر آ چکی ہے کہ بی جے پی حکومت نے کام کم کیا ہے پرچار (تشہیر کاری) زیادہ کیا ہے۔ آج ہر ایک مہنگے اشتہار پر صرف ایک ہی چہرہ دکھائی دیتا ہے، مودی پر مرکوز یہ تشہیر کاری بی جے پی کو ہر حال میں نقصان پہنچائے گی۔

نسل نو کو کانگریس کی روایت سے جوڑنا

مودی حکومت کے تئیں لوگوں کے عدم اطمینان کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ راہل گاندھی کے لئے اقتدار حاصل کرنے کی راہ بہت آسان ہونے جا رہی ہے ۔ تنظیمی سطح پر کانگریس بہت کمزور ہے ۔ نائب صدر کے طور پر تنظیم کی از سر نو تعمیر کرنے کے بعد بھی راہل گاندھی کی کارکردگی کا کوئی بہتر نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔ ابھی اعلیٰ عہدیدار پرانے چہرے ہیں اور نسل نو سے ابھی ربط نظر نہیں آ رہا ہے۔ لوگوں کے بی جے پی سے عدم اعتماد کے باوجود کانگریس پارٹی نوجوانوں میں اس امید کو جگانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی ہے جو اسے 2019 میں جیت دلا پائے۔

راہل گاندھی کے سامنے اب نئے چیلنج ہیں اور بڑے مواقع بھی۔ سادگی، شرافت اور نرم لب و لہجہ ان کی شخصیت کے کچھ ایسے پہلو ہیں جن کی ہر فرد تعریف کرتا ہے ۔ پارٹی کے ایسے اعلیٰ عہدیداران کو ہٹا دینا چاہئے جو پارٹی کے فروغ میں تعاون نہیں دے سکتے۔ انہیں کانگریس میں ہزاروں نئے پھولوں کو کھلنے دینا چاہئے جو پارٹی میں نئے خیالات، نئے نظریات اور نئے اعتماد کو لے کر آئیں۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہےکہ راہل گاندھی کو نئے سرے سے ٹیم بناتے وقت کانگریس کی قدیمی روایات کو درکنار نہیں کرنا چاہئے۔ انہیں مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو اور دیگر عظیم محبان وطن کی قیادت اور خوابوں کو ذہن میں رکھ کر کام کرنا ہوگا۔ نئے اور پرانے کا یہ تخلیقی ملن راہل کو فوری ملک کے سامنے پیش کرنا ہوگا ۔ انہیں ایسے مثبت نظریہ اور عزم کا مظاہرہ کرنا ہوگا جس سے لوگوں کو یہ یقین ہو سکے کہ وہ غریبوں کے حق میں کام کریں گے۔ انہیں یہ یقین دلانا ہوگا کہ اقتدار میں آنے کےبعد ترقی کی پالیسیوں ، بد عنوانی سے پاک بہتر انتظامیہ، صاف سیاست، مضبوط سیکولر اقدار، نعروں سے آگے سماجی انصاف، تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات ، تخفیف جوہری اسلحہ اور بدلتی دنیا میں امن و سلامتی اور ترقی کی راہ پر گامزن رہے گا ۔ انہیں مسئلہ کشمیر کا پر امن اور پایہ ٔدار حل تلاش کرنے کے مقصد سے ایک قومی بحث کی پہل سے بھی نہیں ہچکچانا چاہئے۔ پاکستان سے تعلقات کیسے ہوں، چین سے تعقات کس طرح سدھریں ، جنوبی ایشیا کے مستقبل کی بہتری کے لئے ہندوستان کس طرح قیادت کر سکتا ہے ، ان سب مدوں پر بھی ان کو بحث شروع کرانی چاہئے۔ انہیں تقسیم کی سیاست کے خلاف اور رائے عامہ اور شراکت داری کو فروغ دینے والی سیاست کی مثال پیش کرنی چاہئے ۔

راہل گاندھی کو مودی حکومت کے اچھے کاموں کو جاری رکھنے سے نہیں ہچکچانا چاہئے اور دیگر غیر کانگریسی پارٹیوں کے علاوہ بی جے پی اور آر ایس ایس ، محبان وطن لوگوں سے بات کرنی چاہئے جس سے ملک میں قومی یکجہتی کی ایک نئی تہذیب حقیقی طور پر پیدا ہو سکے۔ کیا رواداری، مذاکرات، پر امن طریقہ سے تنازعات کا حل نکالنا اور تخلیقی تعاون یہ سب گاندھی کی ترغیب اور عادات نہیں تھیں؟

اس لئے اگر راہل گاندھی کو مہاتما گاندھی اور دوسرے بڑے رہنماؤں اور فلسفیوں کا سچا پیروکار ہونا ہے۔ جنہوں نے اس قدیم اور پاک سرزمین پر قدم رکھا اور اگر انہیں ایک الگ قیادت فراہم کرنی ہے تو قسمت نے انہیں یہ موقع دیا ہے اور ہندوستان ان کا انتظار کر رہا ہے۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیکمشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 10 Dec 2017, 10:50 AM