’ہندو بنام ہندوتوا‘ پر راہل گاندھی کے بیان نے اس بحث کا آغاز کر دیا جس پر بولنے سے سبھی ڈر رہے تھے

مذہب اور سیاست کے کھیل کا آغاز یوپی سے ہی ہوا تھا، اور وزیر اعظم ایک بار پھر اسے یو پی میں کھیلنے کی کوشش میں ہیں، لیکن ہندو بنام ہندوتوادی پر راہل گاندھی کا بیان ایک امید کی شمع تو روشن کرتا ہی ہے۔

راہل گاندھی
راہل گاندھی
user

تسلیم خان

جب سیاست کے عروج اور اقتدار کی کرسی پر بیٹھے لوگ مندروں کے دروازوں پر سیاست کی بساط بچھا کر کچھ اس طرح تقریر کرنے لگیں جس کی اجازت آئین دیتا ہی نہیں، تو ایسے میں مذہب اور اس کے عناصر کی خصوصی تشریح سامنے رکھ کر راہل گاندھی نے نہ صرف وہ ہمت دکھائی ہے جو کوئی دوسری سیاسی پارٹی نہیں دکھا سکتی، بلکہ ایک ضروری بحث کی شروعات بھی کر دی ہے۔

راہل گاندھی نے گزشتہ اتوار کو جے پور میں ہوئی مہنگائی کے خلاف کانگریس کی مہاریلی میں ہندو اور ہندوتوادی کے فرق کو واضح کیا تھا۔ راہل گاندھی نے سیدھی سی بات کہہ دی کہ ’’گاندھی جی ہندو تھے، گوڈسے ہندوتوادی تھا...‘‘، ساتھ ہی انھوں نے کہا ’’میں ہندو ہوں، ہندوتوادی نہیں... میں گاندھی ہوں، گوڈسے نہیں... یہ ملک ہندوؤں کا ہے، ہندوتوادیوں کا نہیں ہے۔‘‘ راہل کے اس بیان پر جیسی کہ امید تھی، رد عمل بہت آئے ہیں، کئی طرح کے تبصرے ہوئے ہیں، لیکن ان رد عمل سے ایک بات تو صاف ہو گئی کہ راہل گاندھی نے بی جے پی کی دُکھتی رَگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ حالانکہ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ راہل گاندھی کو اس معاملے میں الجھنا نہیں چاہیے تھا۔ ہو سکتا ہے یہ بات مناسب ہو، لیکن مذہب کے لبادے میں سیاست کا ننگا ناچ جب مندروں کے دروازوں تک پہنچ جائے تو کسی کو تو ہمت دکھانی ہی ہوگی۔ آخر ڈر ڈر کر رہنا بھی کتنا مناسب ہے۔ راہل کا تیر ٹھیک نشانے پر لگا، اور اس سے اس خیمے میں بوکھلاہٹ بھی بڑھی جس نے ابھی تک اس ایشو پر پر اپنا کاپی رائٹ سمجھ رکھا تھا۔


کانگریس کی جے پور ریلی مہنگائی کے خلاف تھی، اسٹیج پر، بینروں و پوسٹروں میں بھی یہی لکھا تھا ’مہنگائی کے خلاف مہا ریلی‘، اسٹیج پر آئے کانگریس کے سینئر لیڈروں، کانگریس حکمراں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، سابق وزرائے اعلیٰ کی تقریروں کے مرکز میں بھی مہنگائی ہی رہی۔ کچھ لیڈروں نے خواتین کی سیکورٹی کا معاملہ اٹھایا، کچھ نے چین کی جارحیت کا ایشو ھی سامنے رکھا، کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے بھی اپنی تقریر کے مرکز میں مہنگائی کو ہی رکھا، خواتین پر بی جے پی حکمراں ریاستوں میں ہو رہے مظالم کی بات کی، کسانوں کی تحریک کا ذکر کیا۔

لیکن راہل گاندھی تو جیسے طے کر کے آئے تھے کہ اس سوچ کو منہدم کرنا ہے جس کی بیساکھی پر سوار بی جے پی گزشتہ کئی دہائیوں سے ووٹوں کی فصل کاٹ رہی ہے۔ انھوں نے اپنی تقریر کی شروعات میں کہا کہ میں مہنگائی پر بھی بحث کروں گا، کسانوں کی تحریک اور ان کی تکلیفوں پر بھی بات کروں گا، لیکن اس سے پہلے صرف دو الفاظ کے تعلق سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ یکبارگی لگا کہ راہل کچھ بھول رہے ہیں، لیکن جب انھوں نے دو لفظ ’ہندو‘ اور ’ہندوتوادی‘ سامنے رکھے تو سبھی حیران تھے۔ لاکھوں نہیں تو ہزاروں کی بھیڑ ’پِن ڈراپ سائلنس‘ کے ساتھ ان لفظوں کی تشریح سن رہی تھی، ان کے مطالب جان رہی تھی۔


راہل گاندھی نے ہندو اور ہندوتوادی کی تشریح کرتے ہوئے کہا ’’ہندو سچ کے لیے مرتا ہے، سچ ہی اس کا راستہ ہے، وہ تاحیات سچ کی تلاش کرتا ہے۔ مہاتما گاندھی نے پوری زندگی سچ کی تلاش کی۔ لیکن ہندوتوادی گوڈسے نے ان کے سینے میں تین گولیاں مار دیں۔ ہندوتوادیوں کو سچ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ہندو سچ کی تلاش میں کبھی نہیں جھکتا ہے، لیکن ہندوتوادی نفرت سے بھرا ہوتا ہے کیونکہ اس کے من میں خوف ہوتا ہے۔‘‘

راہل گاندھی نے یہ بھی کہا کہ ’’ہندو ستیاگرہی ہوتا ہے، جب کہ ہندوتوادی ستّا گرہی (اقتدار حاصل کرنے والا)۔‘‘ راہل نے کہا کہ ’’آج ملک کو مہنگائی اور نفرت درد جیسی چیزیں ہندوتوادیوں نے دی ہیں۔ انھیں ہر حالت میں اقتدار چاہیے۔ اپنے وجود کو بچانے کے لیے ہی یہ لوگوں کو ورغلا کر ہندوتواد کا جھانسہ دینے میں لگے ہیں۔ انھیں پتہ ہے کہ اگر لوگوں کو ورغلایا نہیں تو اقتدار نہیں ملنے والی ہے۔‘‘


اس پر رد عمل تو اسی دن سے آنے لگا تھا، لیکن براہ راست جواب وزیر اعظم کی طرف سے آئے گا، یہ اندازہ نہیں تھا۔ اگلے ہی دن جب وارانسی میں کاشی وشوناتھ کوریڈور کی رونمائی انجام دینے پہنچے وزیر اعظم نے مذہب کا چولا پہن کر سیاسی چالبازیاں دکھائیں تو تجزیہ نگاروں کو یقین ہونے لگا کہ راہل گاندھی جو کرنا چاہتے تھے، اس کی شروعات ہو چکی ہے۔

بابا وشوناتھ کے نزدیک ہی جس طرح تقرریروں کے ذریعہ اتر پردیش انتخاب کے مدنظر وزیر اعظم نے مذہب اور سیاست کا گٹھ جوڑ سامنے رکھا، اتر پردیش حکومت اور مرکزی حکومت کی طرف سے جس طرح کی تشہیر کی گئی، وہ سب کچھ ہو سکتا ہے، لیکن مہادیو کی بھکتی تو بالکل نہیں۔ بھولے کی نگری میں شیو کے احاطے میں، گنگا میا کے ساحل پر کھڑے ہو کر بھی وزیر اعظم یہی کہتے سنے گئے کہ ’’پرانے وقت میں ظالموں کی نظر کاشی پر رہی ہے۔ لیکن یہاں اگر اورنگ زیب آتا ہے تو شیواجی بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی سالار مسعود اِدھر بڑھتا ہے تو راجہ سہیل دیو جیسے بہادر سپاہی اسے ہمارے اتحاد کی طاقت کا احساس کرا دیتے ہیں۔‘‘ انھوں نے ملک کی سب سے بڑی ریاست کے لوگوں کو مذہب کا تڑکا لگا کر سینکڑوں سال پرانی تاریخ میں الجھایا اور موجودہ وقت میں مہنگائی، بے روزگاری، غریبی، معاشی بحران وغیرہ سے دور لے گئے۔


لیکن اس پروگرام سے قبل کی شام راہل گاندھی کے بیان کی گونج کاشی میں تھمی نہیں تھی، بنارس کے باشندے بھی چوراہے اور چائے کے اڈوں پر ہندوتواد پر بحث کرتے نظر آ رہے تھے۔ مذہب اور سیاست کے اس کھیل کی شروعات اتر پردیش سے ہی ہوئی تھی، اور وزیر اعظم ایک بار پھر اسے یو پی میں کھیلنے کی کوشش میں ہیں۔ لیکن راہل گاندھی کا بیان ایک امید کی شمع تو روشن کرتا ہی ہے۔ سیاست اور مذہب کے اس گھال میل پر اس سے بریک لگ جائے گا، یہ کہنا ابھی جلد بازی ہوگی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا تو دنیا کی نظروں میں ہمارے جمہوری چہرے پر داغ ہی نظر آتا رہے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔