راہل گاندھی، نئے ہندوستان کی نئی امید ..ظفر آغا
رہل گاندھی کو اس نئی اکیسویں صدی کے انسان کو ایک نئی راہ دکھانی ہے۔ ان کو ایک نیا نظریہ پیش کرنا ہے اور اس کو نفرت کے میدان سے نکال کر باہمی ہم اہنگی کی تر غیب دینی ہے۔
کفر ٹوٹا خدا خد ا کر کے! جی ہاں، راہل گاندھی جلد ہی کانگریس پارٹی کے نئے صدر منتخب ہو جا ئیں گیں۔ یہ اطلاع کسی اور نے نہیں بلکہ خود ان کی والدہ اور موجودہ کانگریس صدر سونیا گاندھی نے دی ہے اس لئے اب کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یعنی راہل گاندھی اگلے ماہ کانگریس صدر بن جا ئیں گے۔ وہ نہرو گاندھی خاندان کے چھٹے شخص ہوں گے جو اس عہدہ پر فائز ہوں گے ۔ اس سے قبل مو تی لال نہرو ، جواہر لعل نہرو ، ان کی دادی اندرا گاندھی ، والد راجیو گاندھی اور والدہ سونیا گاندھی کانگریس صدر رہ چکے ہیں۔ ان میں سے سب کا کانگریس اور ملک کی تاریخ میں ایک اہم رول رہا ہے۔ اس لئے اب محض سارے ہندوستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کی نگاہیں راہل گاندھی پر ٹکی ہوئی ہیں۔
لیکن کیا راہل گاندھی تقریباً مردہ اور بے جان کانگریس میں جان پھونکنے میں کامیاب ہو جائیں گیں؟ یہ ایک مشکل سوال ہے ،کیو نکہ ان سے قبل کسی اور گاندھی خاندان کے فرد کو ایسی بے جان کانگریس ورثہ میں نہیں ملی ۔ فی الحال کانگریس نہ صرف بے دم ہو چکی ہے بلکہ اس وقت نظریاتی اعتبار سے کم وبیش عوام میں بے معنی بھی ہو چکی ہے ۔وجہ یہ ہے کہ اس اکیسویں صدی میں وہ تمام نظریات جنہوں نے کانگریس کو بنایا وہ آج عوامی سطح پر بے معنی اور اور بے سود نظر آرہے ہیں ۔ مثلاً ، جوہر لعل نہرو کی سیکو لرزم اور گنگا جمنی تہذیب کا آج کے ہندوستان میں مذاق اڑایا جا رہا ہے ۔ اندرا گاندھی کا سو شل ازم آج دنیا بھر میں ایک کھو کھلا نعرہ کہلاتا ہے۔ سونیا گاندھی کا عام آدمی آج خوابوں کی دنیا میں جی کر مودی کے ’اچھے دنوں ‘ کا انتظار کر رہا ہے۔
اکیسویں صدی کی دنیا اور اس کے ساتھ ہندوستان ایک نئی دنیا اور نیا ہندوستان ہے۔ آج ساری دنیا میں رجعت پر ستی کا ڈنکا بج رہا ہے اور مذہب و قومیت کا ڈھول بج رہا ہے ۔ مودی سے ٹرمپ تک جدھر نگاہ ڈالو ہر سو ’نفرت کے پیامبروں‘ کا بول بالا ہے۔ کیونکہ 20ویں صدی کے تمام نظریات آج کھوکھلے سے ہو گئے ہیں اس لئے بے نظریاتی دنیا اور نوجوان آج مذہب اور قومیت کے جنوں کا شکار ہیں ۔
دراصل زبر دست تکنیکی تبدیلی اور مارکیٹ اکنامی نے دنیا کی کایا پلٹ کر دی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے بیس برسوں میں ایک طرف دولت کی بارش ہوئی اور دنیا بھر میں عام انسان کا معیار زندگی زبر دست طریقے سے بدل گیا ۔ آج کم وبیش دیہاتوں تک میں زیادہ تر گھروں میں بجلی ہے ، پکے مکان ہیں ، بچے اسکول جاتے ہیں، گھر میں ایک موٹر سائیکل اور ٹی وی سیٹ بھی ہے۔ اکثر گھروں میں ایک کار اور ایک اےسی کا ہونا کو ئی حیرت ناک بات نہیں ۔ پھر انٹر نیٹ نے دنیا کوفیس بک اور واٹس ایپ (Facebook & Whatsapp) جیسےذرائع سے انسان کی مٹھی میں کر دیا ہے۔
ایک طرف تو زبر دست ترقی ہے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ امیر ، امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور نیچے کا طبقہ اوپر والے سے بہت پیچھے ہوتا جا رہا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی 50 فی صد سے زیادہ دولت محض 50 افراد اور گھرانوں کے ہاتھوں میں ہے ۔ اس سے آپ امیر اور غریب کے درمیان کا فاصلہ تصور کر سکتے ہیں ۔ اس اکیسویں صدی کے انسان کی ضرورتیں بڑھی ہیں ۔ وہ اب نئے خواب دیکھ رہا ہے ۔ لیکن بے پناہ رفتار سے ہونے والی ترقی اور تیزی سے بدلتی ٹیکنالوجی نے دنیا بھر میں بے روزگاری کا بازار گرم کر دیا ہے۔ اس بڑھتی بے روزگاری نے ساری دنیا میں ایک لایقینی اور خوف کا احساس پیدا کر دیا ہے ۔ ہر کوئی جیسےڈرا ڈرا سا ہے ۔ ہر کسی کو محض اپنے مذہب اور اپنے تشخص کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں ہے۔ اسی لئے ہر دوسرے مذہب اور قومیت سے خوفزدہ ہے۔ مودی اور ٹرمپ جیسے سیاسی کھلاڑی اس خوف کو نفرت کی سیاست میں بدل کر اپنی اپنی حکومتیں چلا رہے ہیں ۔
رہل گاندھی کو اس نئی اکیسویں صدی کے انسان کو ایک نئی راہ دکھانی ہے۔ ان کو ایک نیا نظریہ پیش کرنا ہے اور اس کو نفرت کے میدان سے نکال کر باہمی ہم اہنگی کی تر غیب دینی ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ خاص طور سے جب راہل کے سامنے مودی جیسا خطر ناک سیاستداں کھڑاہو۔ ہندوستانی رجعت پرست سیاست کا اب تک کا سب سے شاطر کھلاڑی ہے ۔ وہ عوام کو لبھانے والا مقرر ہے ۔ وہ ایک کامیاب جھوٹے سپنوں کا سوداگر بھی ہے ۔ ساتھ ہی وہ موت کا سوادگر بھی ہے ۔ نفر ت کی سیاست کا بادشاہ ، فسادوں اور موب لنچنگ جیسے شاطر حربوں سے بازی جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پھر مودی اکیلا نہیں ہے اس کے ساتھ بی جے پی تو ہے ہی ساتھ ہی آرایس ایس جیسی تنظیمی طاقت بھی ہے جو ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے پر اب آمادہ ہے۔
راہل گاندھی کو ایسے خطر ناک دشمنوں کا سامنا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے راہل کو پہلے بدنام کر رکھا ہے ۔ اس لئے راہل کا سفر کانٹوں بھرا ہے، لیکن تمام گاندھی لیڈران کی طرح راہل بھی ہمت ہارنے کو تیار نہیں ہیں ۔ بلکہ پچھلے دو مہینوں کے اندر راہل میں نہ صرف زبر دست تبدیلی آئی ہے بلکہ انہوں نے بہت حد تک اپنے بارے میں بے وجہ پیدا ہونے والے شبہات کو بھی دور کیا ہے۔ راہل اب بڑے نپے تلے اور مہذب لب و لہجے میں اپنی بات عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہو رہے ہیں ، لوگ ان کو اب سنجیدگی سے لے رہے ہیں ۔ امریکہ کے دورے کے بعد ان کے بارے میں سوشل میڈیا میں کا فی تاثر بدلا ہے۔ صرف اتنا ہی ، بلکہ گجرات کے ان کے حالیہ دورے بھی کامیاب رہے ہیں۔
راہل گاندھی کو محض مودی اور آر ایس ایس سے ہی خطرہ نہیں بلکہ کانگریس کے مسائل بھی حل کرنے ہوں گے۔ کیونکہ اب کانگریس تقریباً پورے ملک سے غائب ہو چکی ہے۔’کانگریس مین ‘ ملک کے کونے کونے میں ہیں لیکن کانگریس زیادہ تر اقتدار سے باہر ہو کر گہری نیند سو رہی ہے۔ پھر سینئر کانگریسی راہل کو نا پسند کر تے ہیں ۔ راہل کا ہتھیار تو کانگریس ہی ہے اس لئے سب سے پہلے راہل کو کانگریس میں تیل پانی ڈال کر اس کو جنگ کے لائق بنانا ہو گا۔ اس سلسلے میں ان کو یاد رکھنا ہو گا کہ ان کے دشمن کانگریس کے باہر ہیں ، کانگریس کے اند ر نہیں ۔ اس لئے کانگریس میں ان کو اتفاق اور ہم اہنگی پیدا کرنی ہو گی ۔ اس کے لئے ان کو پرانی اور نئی دونوں نسلوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔
راہل گاندھی کو ایک بات یاد رکھنی ہو گی کہ ہندوستان کتنا ہی بدا لا ہو ، لیکن ہندوستان کے بنیادی تقاضے آج بھی وہی ہیں جو صدیوں سے چلے آرہے ہیں ۔ ہندوستان ایک گنگا ۔جمنی تہذیب اور رواداری کلچر کا ملک تھا اور آج بھی اسی سیکولر اور گنگا۔ جمنی تہذیب میں ہی ہندوستان کی بقا ہے ۔ اس ملک کی افادیت اسی میں ہے کہ اس ملک کے اقلیتوں کو تحفظ ملے اور وہ ترقی کریں۔یہاں کے رنگا رنگ کلچر اور زبانیں پھلتے اور پھولتے رہیں ۔ تب ہی تو آزادی کے بعد ہمارے بزرگوں نے “Idea of India” کا جو تصور دیا وہ انہی رنگا رنگ قدروں پر مبنی ہے۔ راہل کو بھی اس تہذیب اور قدروں کا امین رہنا پڑےگا ۔ ہر دور کے اپنے تقاضے ہو تے ہیں اور ان تقاضوں کو پورا کرنے کا اپنا ایک جدا لب و لہجہ ہو تا ہے۔ آج سیکولر زم بد نام ہو گیا ہو لیکن یہ تصور بے معنی نہیں ہوا ہے ۔ اس لئے راہل بھلے ہی ہر جگہ سیکولرزم کی دہائی نہ دیں ،لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ’سافٹ ہندوتوا ‘ کارڈ کا استعمال کر یں۔ ان حربوں کا کانگریس کو پہلے نقصان ہو چکا ہے۔ اس لئے ان حربوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
راہل گاندھی اکیسویں صدی کے ہندوستان کی آواز اور امید دونوں ہیں۔ ہندوستان جب جب لڑکھڑایا ہے ایک گاندھی نے ہی ہندوستان کو سنبھالا ہے۔ ہندوستان اس وقت اپنے محور سے کھسک چکا ہے ضرورت ہے کہ اس کو پھر اپنے محور پر پہنچایا جائے۔ یہ کام ایک نہرو ۔گاندھی خاندان کا فرد ہی کر سکتا ہے۔ راہل وہی گاندھی ہیں جن کی ضرورت اس وقت صرف کا نگریس پارٹی کو ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کو ہے ۔ اس لئے کانگریس پارٹی صدر کے عہدے پر ان کا فائز ہونا ضروری ہی نہیں بلکہ ملک اور پارٹی دونوں کے ہی حق میں ہے۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 15 Oct 2017, 8:23 AM