راہل گاندھی گجرات نتائج کے بعد مودی کے متبادل بن کر ابھرے

گجرات چناؤ نے کانگریس کو ایک مضبوط حزب اختلاف اور متبادل کے بطور قائم کر دیا ہے۔ ساتھ ہی راہل گاندھی ایک ایسے رہنما کے طور پر نمودار ہوئے ہیں جو مودی کے قلعہ کو نیست و نابود کر سکتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

گجرات ایسا میدان جنگ تھا جہاں راہل گاندھی نے نریندر مودی کے خلاف تنہا دو دو ہاتھ کیے۔ ماں سونیا گاندھی وہاں نہیں تھیں، بہن پرینکا بھی پردے کے پیچھے سے مدد نہیں کر رہی تھیں جیسا کہ اتر پردیش میں اکثر دیکھا جاتا رہا ہے۔ بھلے ہی اس جنگ میں راہل چناؤ نہ جیت پائے ہوں لیکن جنگ کے آخر ی دور میں اپنےمعاونین کے ساتھ 82 سیٹیں جیت کر انہوں نے نریندر مودی کو پریشانی میں ضرور ڈال دیا۔ ایمانداری سے کہا جائے تو گجرات چناؤ نے قومی سطح پر راہل گاندھی کو ایک ایسے دمدار جنگجو کے طور پر قائم کر دیا ہے جو مودی جیسے سیاسی حریف کو چیلنج دے سکتا ہے۔

آخر کار نو منتخب کانگریس صدر نے مودی کی پیشانی پر بل تو ڈال ہی دئے ہیں ۔ گجرات میں راہل گاندھی کے روڈ شو اور چناوی ریلیوں میں ا منڈے جم غفیر سے مودی اس حد تک گھبرا گئے تھے کہ انہوں نے تقریباً پوری مرکزی حکومت کو گجرات الیکشن میں جھونک دیا۔ انہوں نے اس چناؤ میں اپنے ذخیرے کے ہر ہتھیار اور ترکش کے ہر تیر کا استعمال کیا۔ مودی کی تقریباً پوری کابینہ احمدآباد میں خیمہ زن ہو کر گجرات بھر کے دورے کر رہی تھی اور سب کے نشانے پر صرف ایک واحد شخص تھا، راہل گاندھی۔

گجرات چناؤ میں سب سے بڑی خبر اگر کوئی نکلتی ہے تو وہ یہ ہے کہ گجرات نے راہل گاندھی کو نریندر مودی کے ایک مضبوط حریف کے طور پر قائم کر دیا ہے ، ایک ایسا حریف جو مودی کو سیدھے ٹکر دے سکتا ہے۔

آر ایس ایس – بی جے پی کی منفی تشہیر کے باعث رہل کے بارے میں لوگوں نے دو رائے بنا لی تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ نادان رہنما ہیں، وہ ایسے رہنما ہیں جنہیں ہندوستانی معاشرے کی حقیقت کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ یعنی وہ ایک ایسے باہری شخص ہیں جو محض گاندھی خاندان کے نام کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور دوسری یہ کہ راہل گاندھی اپنے چچا سنجے گاندھی کی طرح مغرور ہیں اور ان کی پرورش شان و شوکت میں ہوئی ہے۔

لیکن راہل گاندھی نے گجرات میں اپنی ان دونوں شبیہوں کو اتار کر پھینک دیا۔ انہیں اس بات کا بخوبی انداز تھا کہ ان کی اپنی ہی پارٹی کانگریس مودی جیسے حریف سے اس کے ہی گھر میں مقابلہ کے لئے تیار نہیں ہے۔گجرات میں کانگریس نہ صرف بہت کمزور حالت میں تھی بلکہ 22 سالوں کی طویل مدت سے اقتدار سے باہر رہنے کی وجہ سے ایک طرح سے غیر متعلقہ ہو چکی تھی۔ انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ تنہا ان کی پارٹی بی جے پی – آر ایس ایس کی تنظیمی مشینری کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

ہاں ! یہ بات سچ ہے کہ راہل کے پاس گاندھی خاندان کا ایک کرشمہ ضرور تھا۔ اس سے متوجہ ہو کر لوگ ان کی ریلیوں میں آ سکتے تھے لیکن چناوی جیت کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں تھا۔ اتر پردیش میں یہ ثابت ہو بھی چکا ہے۔ ایسے حالات میں انہوں نے ہاردک، الپیش اور جگنیش جیسے نوجوان گجراتی رہنماؤں کو اپنی طرف مائل کیا۔ ان تینوں کی اپنی ایک سماجی مقبولیت تھی اور یہ تینوں بی جے پی-سنگھ کی تنظیمی مشینری کا مقابلہ کر سکتے تھے۔

اس حکمت عملی نے کام کیا۔ بی جے پی کو جگہ جگہ لوگوں کے غصہ کا سامنا کرنا پڑا اور کئی بار تو ریلیوں تک میں پریشانی پیش آئی۔ راہل کی سوشل انجینئرنگ نے سست پڑی کانگریس میں ایک نئی جان پھونک دی اور وہ نہ صرف سڑکوں پر بلکہ اسمبلی میں بھی ایک مضبوط متبادل کے طور پر منظر عام پر نمودار ہوئی ۔

گجرات اب مودی کی جاگیر نہیں رہ گئی۔ مودی کو انہیں کی آبائی ریاست میں محاصر بنا دیا گیا اور کانگریس کی قیادت میں گجرات کے پرجوش رہنماؤں کے سامنے مودی کا قد کم ہو گیا۔

اس چناؤ سے کانگریس کے ساتھ راہل گاندھی کی بھی شبیہ تبدیل ہوئی ہے اور اب انہیں صرف سیاسی بچہ کہہ کر خارج نہیں کیا جاسکتا۔ راہل گاندھی ایک ایسے سنجیدہ اور مضبوط رہنما کے طور پر نمودار ہوئے ہیں جو نریندر مودی کو زبردست چیلنج دے رہے ہیں۔

گجرات چناؤ نے راہل گاندھی کو ایک جھنجلائے ہوئے رہنما سے ایک شیریں زبان اور سلجھے ہوئے رہنما میں تبدیل کر دیا ہے۔ اپنے ہی وزیر اعظم کے آرڈیننس کو پرزے پرزے کر کے ہوا میں اڑانے والے رہنما کے مقابلہ اب راہل ایسے رہنما بن کر ابھرے ہیں جو لوگوں کی پرواہ کرتا ہے ، کسی روتی ہوئی خاتون کو گلے لگا کر تسلی دیتا ہے۔

یہ وہ شبیہ ہے جو کسی پی آر ایجنسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ راہل کا اپنا طریقہ تھا جو گجرات میں لوگوں سے ملاقات کے دوران انہوں نے اختیار کیا۔ کہتے ہیں کہ رہنمائی ایک فن ہے جو کسی ایم بی اے یا کسی اور ڈگری سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ تو آپ کے ڈی این اے میں ہوتا ہے یا پھر آپ اسے لوگوں سے ملنے جلنے کے دوران حاصل کرسکتے ہیں۔ راہل گاندھی میں ان دونون کا سنگم دکھائی دیتا ہے۔ اور اس کے لئے گجرات جیسے میدان جنگ کی ہی ضرورت تھی جہاں ایک نئے اور توانائی سے بھرپور راہل منظر عام پر آئے۔ ایک مضبوط رہنما اور ایک قابل حکمت عملی ساز اور ایک زبردست سیاسی جنگجو کے طور پر راہل گاندھی کا طلوع صحیح وقت پر ہوا ہے۔ وہ اب مودی کے سیاسی دبدبے کو چیلنج کر سکتے ہیں ۔ دیانت دار اور تمام مودی مخالف طاقتیں راہل گاندھی کا ساتھ دینے کو تیار نظر آ رہی ہیں۔ کیوں کہ 2019 میں راہل ہی مودی کا سامنا کرنے کے قابل ہیں۔

اس کے لئے گجرات کا شکریہ ...

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Dec 2017, 9:52 PM