عام آدمی پارٹی کے مستقبل کو لے کر کئی سوال
سابق وزیر اعلی شیلا دکشت نے ان تمام کمیوں کے باوجود دہلی میں ترقیاتی کام کئے اور دہلی کے عوام کی تمام ضرورتوں کو پورا کیا۔
تین سال پہلے ’پانچ سال کجریوال‘ کے نعرے کے ساتھ بدعنوانی کے خلاف جنگ کی علمبردار بن کر تحریک سےپیدا ہوئی عام آدمی پارٹی نے 70میں سے 67اسمبلی کی سیٹیں جیت کر ایک تاریخ رقم کی تھی۔ اس پارٹی میں ہندوستانی عوام اور خاص طور سے دہلی کی عوام کو ایک نئی صبح نظر آئی تھی اور سب کو محسوس ہوا تھا کہ ہندوستان میں ایک نئی طرح کی سیاست کا باب شروع ہو گیا ہے ۔ پانچ سال کجریوال کے نام پر دہلی کی عوام نے کجریوال اینڈ ٹیم کو جو پانچ سال کا مینڈیٹ دیا تھا اس میں سے اس ٹیم نے اپنے سفر کی آدھی مد ت سے زیادہ وقت طے کر لیا ہے ۔ اس سفر پر چلنے کے لئے جو راستہ تھا اس پر چلنے کا تجربہ اس ٹیم کو بالکل نہیں تھالیکن ٹیم کے پاس زبردست اکثریت ، بھرپور جوش اور نیاحوصلہ تھا اس لئے فکر کی کوئی بات نہیں تھی۔
اس سفر کے تعلق سے پارٹی کے نو منتخب راجیہ سبھا رکن سنجے سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’ تین سال میں تمام دشواریوں کے باوجود جو بھی ہماری حکومت کر پائی ہے وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ حکومت کی تمام تر توجہ بجلی، پانی، صحت اور تعلیم پر رہی ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبہ میں تو ہم پورے ہندوستان کے لئے ایک ماڈل ریاست کی شکل میں سامنے آئے ہیں ۔ ہماری پہلی حکومت ہے جس نے پانچ فلائی اوور کی تعمیر میں عوام کے300 کروڑ روپے بچائے ہیں۔ ہم نے شہید جوان کی بیوہ کو ایک کروڑ روپے کا معاوضہ دیا اور مرنے والے کسان کے گھر والوں کو پچاس ہزار روپے دئیے ہیں جو کسی بھی حکومت نے کبھی نہیں دئیے‘‘۔
سابق وزیر اور کبھی اروند کجریوال اور سنجے سنگھ کے قریبی رہے کپل مشرا حکومت کی کارکردگی سے بہت مایوس ہیں ’’اس حکومت نے ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کے خوابوں کو چکنا چور کیا ہے ۔ تین سال کو اگر ہم دیکھیں تو زمین پر کچھ کام نہیں ہوا ۔ گزشتہ ایک سال میں ترقیاتی کاموں میں جو گراوٹ آئی ہے وہ تو کمال کی ہے ، پی ڈبلو ڈی اور سڑکوں کا کوئی نیا پروجیکٹ شروع نہیں ہوا ۔ تعلیم کے شعبہ میں کلاس روم تو بنے ہیں لیکن نہ تو نئے اسکول بنے ہیں اور نہ ہی تعلیم کے معیار کے تعلق سے کچھ ہوا ہے۔ صحت کا شعبہ جس کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اس میں محلہ کلینک میں ہی صرف دس فیصد کا ہدف حاصل کیا گیا ہے۔ پولی کلینک جو دہلی میں 150بننی تھیں اس میں سےصرف 23بنی ہیں۔ اسپتالوں میں بیڈ دس ہزار پہلے سے تھے جن کو بڑھا کر بیس ہزار کرنا تھا وہ دس سے بھی کم ہو کر نو رہ گئے ہیں‘‘۔
سابق مرکزی وزیر اور دہلی کانگریس کے صدر اجے ماکن بھی کپل مشرا سے اتفاق رکھتے ہیں ’’ یہ لوگ اپنے بنیادی نظریہ میں ہی پوری طرح ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے ترقیاتی کاموں میں دہلی کو بہت پیچھے کر دیا ہے۔تعلیم کے شعبہ میں کوئی بھی نیا کالج نہیں کھلا۔ ایک لاکھ سے زیادہ بچے سرکاری اسکول چھوڑ کر پرائیویٹ اسکول میں چلے گئے۔ ڈی ٹی سی کی 1800بسیں کم ہو گئی ہیں ، میٹرو کا تیسرا فیز پہلے ہی پیچھے چل رہا ہے چوتھے فیز کا کام شروع ہونے کے امکان ہی نہیں ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو کانگریس سے مقابلہ کرنے والی ہیں۔ جو وعدے کئے تھے ان کو چھوڑئے۔ کوئی نیا اسپتال نہیں کھلا۔ پرنی ڈسپنسری بند کر دی گئی ہیں‘‘۔
تین سال پہلے جب رام لیلا میدان میں اروند کجریوال نے حلف لیا تھا تو انہوں نے ایک بات پر خاص طور سے زور دیا تھا کہ کسی بھی وقت 67سیٹوں کو لے کر ہمیں کسی بھی قسم کا تکبر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ تکبر ہمیں ختم کردے گا۔ لیکن تھوڑے ہی وقت میں خود کجریوال کو اقتدار کا نشہ ہونے لگا اور انہوں نے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر اور افسران کو بہت جلدی اپنے ڈنڈے سے ہانکنے کی کوشش شروع کر دی۔
کپل مشرا کا کہنا ہے کہ ’’ دراصل ایک آدمی کے لالچ نے پوری پارٹی اور تحریک کو ختم کر دیا ہے۔ عوام نے جو مینڈیٹ دیا تھا وہ بدعنوانی کے خلاف دیا تھا اور اقتدار کو ایک ہاتھ میں نہ رکھ کر تقسیم کرنے کی بات کہی تھی، سواراج کے لئے عوام نے ووٹ دیا تھا ۔ آج بدعنوانی کے سب سے زیادہ الزامات اس حکومت پر ہیں، کابینہ کے وزراءپر الزامات ہیں۔ یہ سب تکبر کا ہی نتیجہ ہے ۔دوسرا جو عوام کو اقتدار دینے کی بات کہی تھی وہاں بھی بالکل اس کے خلاف ہوا اور سارا کا سار اقتدار ایک شخص کے ہاتھوں میں آ گیا۔ کجریوال کو اقتدار کا نشہ اس قدر ہوا کہ انہو ں نے اپنے علاوہ کسی بھی دوسرے آدمی پر بھروسہ نہیں کیا‘‘۔
ماکن کا کہنا ہے کہ ’’کجریوال کو دراصل دو وجہ سے نشہ ہوا ایک توان کی پارٹی کو تاریخی 67سیٹیں حاصل ہوئیں دوسرا یہ کہ مرکز میں بھی ان کی حامی حکومت ہے ۔ دراصل کجریوال حکومت بی جے پی کی ’بی ‘ ٹیم ہے ۔ان کا سب سے بڑا نعرہ اور وعدہ تھا کے وہ بدعنوانی سے پاک شفاف حکومت چلائیں گے اور یہ دونوں چیزوں میں پوری طرح ناکام رہے ہیں۔ یہ لوگ جان بوجھ کر بی جے پی سے نورا کشتی کرتے رہتے ہیں تاکہ اپنی تمام ناکامیوں پر پردہ ڈال سکیں‘‘۔
ماکن نے مزید کہا کہ دراصل کانگریس کو ختم کرنے کے لئے آر ایس ایس نے یہ پارٹی بنائی تھی تاکہ کانگریس کا ووٹ بینک تقسیم ہو جائے اور مرکز میں ان کی حکومت آسانی سے بن جائے۔ راجیہ سبھا انتخابات کو لے کر ماکن کہتے ہیں ’’سشیل گپتا کا تو سب کو معلوم ہے کہ وہ کیسے راجیہ سبھا کے رکن بنے لیکن این ڈی گپتا کے تعلق سے نہیں معلوم ۔ بتایا جاتا ہے کہ این ڈی گپتا جیٹلی کے بہت قریبی ہیں اور مرکز اور ریاستی حکومت کے کام کاج میں ایک پل کا کام کر رہے ہیں ۔ آپ نے غور کیا ہوگا کہ کجریوال نے ایل جی اور مودی کے خلاف اب کچھ بھی کہنا بند کر دیا ہے‘‘۔
حکومت چلانے میں دشواریوں کے تعلق سے سنجے سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری حکومت کو کچھ تو پریشانیاں تھیں اور کچھ ہمارے لئے پیدا کی گئیں۔ ایڈ منسٹریشن کے کام کاج میں پریشانی آئی کیونکہ ہمارے پاس ایک کلرک کے ٹرانسفر کا بھی حق نہیں ہے دوسرا زمین اور پولس مرکز کے پاس ہے۔ اس کے اوپر یہ ہوا کہ اینٹی کرپشن بیورو (اے سی بی) ہمارے پاس تھا وہ بھی ہم سے لے لیا گیا جس کی وجہ سے بدعنوانی کے خلاف ہماری لڑائی کو جھٹکا لگا‘‘۔
ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ سابق وزیر اعلی شیلا دکشت نے ان تمام کمیوں کے باوجود دہلی میں ترقیاتی کام کئے اور دہلی کے عوام کی تمام ضرورتوں کو پورا کیا۔
اگر بجلی اور پانی کو چھوڑ دیا جائے تو گزشتہ تین سالوں میں عام آدمی پارٹی کی حکومت نے دہلی کےعوام کو مایوس ہی کیا ہے ۔ بدعنوانی کے خلاف جنگ کے نام پر اقتدار میں آنے والی اس پارٹی نے آج تک لوک پال لاگو نہیں کیا ، جبکہ خود اس کے وزراء کئی طرح کے معاملات میں پھنسے اور ہٹائے گئے۔ جیسے عاصم محمد خان بدعنوانی کے الزام میں ہٹائے گئے۔ جتیندر تومر فرضی ڈگری معاملے میں ہٹائے گئے، سندیپ کمار سیکس سی ڈی معاملے میں ہٹائے گئے اور کپل مشرا بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ کیونکہ انہوں نے بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھائی تھی اس لئے انہیں ہٹایا گیا۔ زیادہ تر افسران سے اختلافات رہے۔ ابھی وائی فائی، سی سی ٹی وی اور خواتین مارشل جیسے وعدوں کو پورا کرنا باقی ہے۔ دیگر ریاستوں میں انتخابی کامیابی تو ملی نہیں لیکن دہلی میں جس پارٹی کو تاریخی کامیابی ملی تھی وہاں بھی تین سالوں میں کسی بھی چناؤ میں کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی ۔
ماکن کہتے ہیں کہ ’’ تین سال میں دہلی میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ان میں دہلی والوں نے ان کو پہلے سے کم ووٹ دئیے ہیں۔ سال 2013 میں کارپوریشن کی13سیٹوں کے لئے انتخابات ہوئے تھے اور سب میں ان کا برا حال ہو گیا۔ راجوری گارڈن ضمنی انتخابات میں ان کی حالت خراب ہو گئی‘‘۔ ادھر 20ارکان کی رکنیت کو لےکر پہلے ہی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔
دہلی میں مڈل کلاس پوری طرح اس پارٹی سے دور ہو چکا ہے ۔ مسلمان اور غریبوں کا ایک طبقہ ابھی بھی اس پارٹی کے ساتھ کھڑا ہوا ہے لیکن اس کی مایوسی بڑھ رہی ہے۔ راجیہ سبھا انتخابات میں جس طرح کے امیدواروں کا انتخاب کیا گیا ہے اس نے بھی پارٹی کی سوچ اور قیادت پر کئی سوال کھڑے کر دئیے ہیں ۔ کجریوال کو اپنی پارٹی کی ساکھ کی بحالی کے لئے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ لیکن کرنے کا وقت کم ہوتا جا رہا ہے ۔ پارٹی کے بانی ارکان جیسے یوگیندر یادو، پرشانت بھوشن، کمار وشواس ، مینک گاندھی وغیرہ کے پارٹی چھوڑنے کے بعد ہی اس تحریک کا دم نکل چکا تھا ، حکومت باقی ہے اور اس کے مستقبل پر اب سب کی نظر یں ٹکی ہوئیں ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔