ایس سی/ایس ٹی قانون کو ہر حال میں بچانا ضروری

یہ اتفاق نہیں ہے کہ خواتین، دلتوں اور قبائلیوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے بنائے گئے قوانین پر ہی سب سے زیادہ غلط استعمال کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آکار پٹیل

خصوصی قوانین کے غلط استعمال کے خلاف ہماری عدالت عظمیٰ کی مہم جاری ہے۔ کچھ دنوں پہلے جسٹس اے کے گویل اور یو یو للت پر مبنی دو ججوں کی بنچ نے ایس سی اور ایس ٹی (انسداد ظلم) قانون کے بڑے پیمانے پر غلط استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے اس پر روک لگانے کا حکم جاری کیا۔ دراصل یہ ہدایت دلت اور قبائلی حقوق کا تحفظ کرنے والے ایک بے حد اہم قانون کو ختم کر دے گی۔

پہلی نظر میں تو اس فیصلے کا مقصد اندیشہ پر مبنی جرائم کی غیر جانبدارانہ سماعت کے حقوق کو برقرار رکھنا نظر آتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اعتراف کیا ہے کہ غلط طریقے سے گرفتاری اور قید انفرادی آزادی کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ فیصلہ مناسب عمل اور بے گناہ ہونے کی سوچ کے اصولوں کا دفاع کرتا ہے جن کو ہندوستان کی مجرمانہ نظامِ انصاف میں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

لیکن پھر یہ فیصلہ کچھ عجیب سے دلائل پیش کرتا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے کچھ اعداد و شمار (جس پر ہم واپس آئیں گے) اور کچھ ہائی کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مظالم والے ایکٹ بلیک میل کرنے کا انفرادی بدلہ لینے کے طور پر ’استحصال یا ظلم کرنے کا ایک خصوصی حق‘ اور ’ذات پرستی کو قائم رکھنے والا‘ قانون بن سکتا ہے۔

آگے اس میں کئی ہدایات دی گئی ہیں، جن میں ایک خطرناک ہدایت بھی شامل ہے؛ جس میں کہا گیا ہے کہ ذات پر مبنی تفریق یا تشدد کی کسی بھی شکایت میں ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے پولس لازمی طور پر ابتدائی جانچ کرے گی۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سپریم کورٹ کے دو ججوں نے حفاظت کرنے والے قوانین کے غلط استعمال پر سوال اٹھائے ہیں۔ گزشتہ سال جولائی میں اسی بنچ نے تعزیرات ہند کی دفعہ 498 اے (جہیز مخالف قانون) کے غلط استعمال کو روکنے کی ہدایت دی تھی۔ انھوں نے ریاستوں کو جہیز سے متعلق ظلم کی شکایتوں میں مشتبہ یا ملزم کی گرفتاری سے پہلے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے خاندانی فلاح کمیٹیوں کی تشکیل کرنے کے لیے کہا تھا (خوش قسمتی سے اس ہدایت پر سپریم کورٹ کی ایک وسیع بنچ نے پھر سے غور کرنے کی صلاح دی تھی)۔

کچھ دیر کے لیے ان قوانین کے بارے میں سوچیں جن کے غلط استعمال کے سب سے زیادہ الزامات لگتے ہیں۔ جنسی استحصال مخالف قانون (کام کرنے کی جگہ خواتین کو تحفظ دینے کے لیے بنا قانون)، جہیز مخالف قانون (شادی شدہ خاتون کی حفاظت کا قانون)، ذات پرستی ظلم قانون (دلتوں اور قبائلیوں کی حفاظت والا قانون)۔ یہ اتفاق نہیں ہے کہ انتہائی حساس حالت میں لوگوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے بنائے گئے قوانین، ویسے قوانین ہیں جن پر سب سے زیادہ غلط استعمال کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔

دونوں معاملوں کے فیصلوں پر دو سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ پہلا، کیا اس الزام میں کوئی سچائی ہے کہ دوسرے قوانین کے مقابلے ان قوانین کے غلط استعمال کا زیادہ امکان ہے؟ اور دوسرا، کیا جو طریقے بتائے گئے ہیں وہ غیرجانبدارانہ سماعت کے لیے سب سے بہتر ہیں؟

سب سے پہلے ان اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں جو منگل کے فیصلے میں عدالت کے ذریعہ پیش کیے گئے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ این سی آر بی کے 2015 کے اعداد و شمار کے مطابق ”شیڈول کاسٹ کے مقدموں میں سے 5347 اور شیڈولڈ ٹرائب کے مقدموں میں 912 معاملے غلط پائے گئے۔“

دلت حقوق کے اداروں نے اخذ کیا ہے کہ بااثر ذاتوں کے پولس افسران دلتوں کے خلاف جرائم کے معاملے درج کرنے میں اکثر ٹال مٹول کرتے ہیں اور انھیں غلط بتا کر خارج کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔ لیکن تھوڑی دیر کے لیے ان اعداد و شمار پر غور کیا جائے جو این سی آر بی 2016 کی رپورٹ ’ہندوستان میں جرم‘ سے لیے گئے ہیں۔ یہ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ ایس سی، ایس ٹی معاملوں میں درج یا جانچ نامکمل والے معاملوں کی کل تعداد بالترتیب 56299 اور 9096 تھی۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ تقریباً 10 فیصد یا 10 میں سے ایک معاملہ غلط پایا گیا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ 10 میں سے 9 معاملے جھوٹے یا غلط نہیں تھے۔ یہ اعداد و شمار صاف بتاتے ہیں کہ یہ بڑے پیمانے پر غلط استعمال کا معاملہ نہیں ہے۔

ان اعداد و شمار کا موازنہ دیگر جرائم سے کرتے ہیں۔ اغوا یا اغوا کرنے کے معاملوں میں جھوٹے یا غلط معاملوں کی تعداد 9 فیصد ہے۔ پولس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ دھوکہ دہی کے سبھی معاملوں میں 12 فیصد غلط تھے۔ کیا کبھی کسی کو اغوا یا دھوکہ دہی کے قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے دیکھا ہے؟

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”2015 میں عدالتوں کے ذریعہ نمٹارا کیے گئے 15638 معاملوں میں سے 11024 معاملوں میں ملزمین کو بری یا الزام سے بری کر دیا گیا، 495 معاملوں کو واپس لے لیا گیا اور 4119 معاملوں میں الزام ثابت ہوئے۔“ 498 اے کے مخالفین کے ذریعہ اس کے غلط استعمال کے ثبوت کے طور پر الزام ثابت ہونے کی شرح کے اعداد و شمار کا بار بار حوالہ دیا جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس دلیل کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ مظالم والے قوانین کے مقدموں میں قصور ثابت ہونے والی شرح کا صرف 26 فیصد ہونا یہ مان لینے کے لیے کافی ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔

جانچ اور ٹرائل میں روزانہ ہونے والی تاخیر، مظالم کی رپورٹ اور مظلوم و گواہوں پر دباﺅ اور دلتوں اور قبائلیوں کے انصاف پانے میں پیش آنے والی مصیبتوں کو، جو قصور ثابت کرنے میں متاثر کرتی ہیں، ایک منٹ کے لیے نظر انداز کر دیں۔ اگر ان شرحوں کو غلط استعمال کا اندازہ کرنے کے لیے مناسب پیمانہ مانا جائے تو این سی آر بی کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق دھوکہ دہی، رنگ داری اور توڑ پھوڑ اور آگ زنی کے معاملوں میں قصور ثابت ہونے کی شرح بالترتیب 20 فیصد، 19 فیصد اور 16 فیصد ہیں۔ مجھے اس بات کا انتظار ہے کہ کوئی ان قوانین کے غلط استعمال کا دعویٰ کرے۔

ایشو یہ نہیں ہے کہ دفعہ 498 اے یا دوسرے مظالم والے ایکٹ کا غلط استعمال نہیں ہو سکتا۔ ہر قانون کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے اور ہو رہا ہے۔ لیکن ہندوستان میں ذاتیات کی حقیقت کو نظرانداز کرنے والے طریقے سے چنندہ طور پر کچھ قوانین کو چیلنج کرنا اور اس نتیجہ پر پہنچنا کے خصوصی طور پر ان کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے، پوری طرح سے غلط ہے۔

دوسرا ایشو یہ ہے کہ عدالت کے ذریعہ جاری گائیڈ لائنس مناسب ٹرائل سے متعلق مسائل کو حل کرنے کا مناسب طریقہ ہیں۔ ہندوستان میں مظلوم یا گواہوں کی حفاظت کے منصوبے کی کمی ہے، اس لیے نسلی یا جنسی تشدد کی شکایت کرنے والے کمزور طبقہ کے لوگوں کو اکثر مشتبہ لوگوں سے مظالم اور دھمکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس کے علاوہ پولس اکثر ایف آئی آر درج کرنے سے بچنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایسی حالت میں شکایتوں کی جانچ کے لیے ’خاندانی فلاح سمیتی‘ شروع کرنے یا پولس کے ذریعہ ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے ’ابتدائی جانچ‘ کرنا، انصاف پانے کی راہ میں ایک اور رکاوٹ کھڑی کرتی ہے۔

صرف ایک مثال لیں۔ گزشتہ سال چھتیس گڑھ کے رائے گڑھ میں تقریباً ایک سو قبائلیوں نے نجی کمپنیوں کے ایجنٹوں کے ذریعہ دھمکیوں اور غلط اطلاعات کے ذریعہ ان کی زمینیں قبضہ کرنے کے معاملے میں مظالم ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی۔ رائے گڑھ واقع ایس سی-ایس ٹی تھانہ نے پہلے تو شکایتوں کو منظور کر لیا، لیکن پھرجانچ میں تاخیر کے لیے ’ابتدائی جانچ‘ کے بہانے کا استعمال کیا۔ کچھ ہفتوں کے بعد انھوں نے ایف آئی آر درج کرنے سے سیدھے انکار کر دیا۔ ہندوستانی قانون میں پہلے سے ہی جھوٹے معاملوں کے جوکھم سے بچنے کے حفاظتی اقدام موجود ہیں۔ کوئی بھی شخص جو کسی شخص کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے کسی جرائم کا جھوٹا الزام عائد کرتا ہے، اسے سات سال تک جیل کی سزا ہو سکتی ہے۔

جھوٹے ثبوت دینا اور ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی مجرمانہ عمل ہے۔ اگر پولس اور عدلیہ کے ذریعہ یہ طریقہ ٹھیک سے نافذ کیا جائے تو جھوٹی شکایتوں کو اثرانداز طریقے سے روکا جا سکتا ہے۔ ہمیں اور اس طرح کے مزید فیصلوں کی ضرورت نہیں ہے جو دفاعی قوانین کو کچلتے اور شہریوں کو پارلیمنٹ سے منظور شدہ حقوق کے سامنے دیوار بنتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔