ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ... سہیل انجم
بعض ذمہ دار مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کے حالات 1857 اور 1947 سے بھی بدتر ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو بات کچھ زیادہ غلط بھی نہیں لگتی۔ آج روزانہ کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ابھی حال ہی میں اپوزیشن کے کسی بڑے لیڈر سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے یہ اشارہ دے دیا کہ ابھی وزیر اعظم کے منصب سے ان کا دل بھرا نہیں ہے۔ انھوں نے مذکورہ لیڈر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے کہا کہ مودی جی ملک نے آپ کو دو دو بار وزیر اعظم بنا دیا اب اور کیا کرنا ہے۔ (یعنی اب آپ اس منصب کو چھوڑ دیں) نریندر مودی نے کہا کہ ان کو ایسا لگتا ہے کہ دو دو بار وزیر اعظم بن گیا مطلب بہت کچھ ہو گیا۔ لیکن ان کو پتہ نہیں مودی الگ مٹی کا بنا ہے۔ گجرات کی دھرتی نے اس کو تیار کیا ہے۔ اس لیے جو بھی ہو گیا اچھا ہوا چلو اب آرام کرو۔ نہیں میرا سپنا ہے سیچوریشن۔ (یعنی کسی کام کے اس طرح پایۂ تکمیل تک پہنچ جانا کہ اس میں مزید کچھ کرنے کی گنجائش نہ ہو)۔
یہ بھی پڑھیں : مختار عباس نقوی کا دعویٰ کتنا سچ کتنا جھوٹ؟... سہیل انجم
انھوں نے اس موقع پر گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران اپنی حکومت کی حصولیابیوں کا بھی ذکر کیا اور یہ بتانا چاہا کہ جب تک وہ اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو جائیں گے آرام نہیں کریں گے۔ یعنی وزیر اعظم کا عہدہ نہیں چھوڑیں گے۔ واقعی اس ملک نے گزشتہ آٹھ برسوں میں زبردست ترقی کی ہے۔ اتنی زیادہ کہ مہنگائی گزشتہ آٹھ برسوں کی ریکارڈ اونچائی پر پہنچ گئی ہے۔ یعنی ان آٹھ برسوں میں اتنی مہنگائی نہیں ہوئی تھی جتنی کہ اب ہوئی ہے۔ واقعی ملک نے زبردست ترقی کر لی ہے۔ کیا کسی نے سوچا تھا کہ لیموں جیسا پھل چار سو روپے کلو فروخت ہوگا۔ کیا کسی نے سوچا تھا کہ سبزیاں اب کلو کے حساب سے نہیں بلکہ پاؤ اور گرام کے حساب سے بکیں گی۔ کیا کسی نے سوچا تھا کہ پٹرول اور ڈیزل سو روپے لیٹر سے بھی آگے نکل جائیں گے۔ کیا کسی نے سوچا تھا کہ گیس ہزار روپے سلنڈر سے بھی مہنگی ہو جائے گی۔ کیا کسی نے سوچا تھا کہ ایک ڈالر کے مقابلے میں ہندوستانی کرنسی 77 روپے سے بھی آگے چلی جائے گی۔
ذرا یاد کیجئے جب ڈاکٹر من موہن سنگھ کے زمانے میں ڈالر کے مقابلے میں ہندوستانی روپیہ 65 پر پہنچا تھا تو نریندر مودی نے من موہن سنگھ کا مذاق اڑایا تھا اور سشما سوراج نے کہا تھا کہ جب روپیہ گرتا ہے تو حکومت کی عزت بھی گرتی ہے۔ لیکن اب عزت نہیں گر رہی ہے بلکہ اٹھ رہی ہے۔ جب رسوئی گیس میں معمولی سا اضافہ ہو جاتا تو اسمرتی ایرانی اور دوسرے لیڈر سڑکوں پر سلنڈر لے کر احتجاجی مظاہرہ کرتے تھے۔ لیکن اب کہا جاتا ہے کہ اگر مہنگائی بڑھ رہی ہے تو وکاس بھی تو ہو رہا ہے۔ اگر حکومت قیمتیں بڑھا رہی ہے تو دیش کے لیے بڑھا رہی ہے۔ گویا سابقہ حکومتیں جو کچھ کرتی تھیں وہ دیش کے لیے نہیں کرتی تھیں۔ تب کوئی ترقی نہیں ہوتی تھی۔ اس حکومت نے ایسا پروپیگنڈہ کیا ہے کہ جیسے اس ملک میں جو کچھ ہوا ہے انہی آٹھ برسوں میں ہوا ہے۔ سابقہ حکومتوں نے جو بھی کام کیا تھا وہ کام نہیں تھا بلکہ ملک کو برباد کرنے کے کارنامے تھے۔ اور ملک تو واقعی 2014 ہی میں آزاد ہوا ہے۔ وہ تو 1947 کے بعد پھر غلام ہو گیا تھا۔ ایسی ایسی بے سرپیر کی باتیں کی جا رہی ہیں کہ دنیا ہنس رہی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وہ ابھی چپ نہیں بیٹھیں گے جب تک ان کا کام سیچوریشن کے پوائنٹ تک نہ پہنچ جائے۔ اس وقت ملک میں جس طرح تاریخ کو ادھیڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ حکومت نے سب کو کام پر لگا رکھا ہے۔ کوئی یہ دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ تاج محل کے تہہ خانے میں کیا ہے تو کوئی یہ دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں کیا راز چھپا ہوا ہے۔ کوئی قطب مینار کو وشنو استمبھ یعنی وشنو ستون ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے تو کوئی کسی اور مسجد کے نیچے کسی مندر کا ملبہ تلاش کر رہا ہے۔ لیکن یہی لوگ تھے جب دہلی کے جامع مسجد علاقے میں میٹرو ریل کے لیے کی جانے والی کھدائی کے دوران اکبری مسجد نکل آئی تھی تو انھوں نے زوردار ہنگامہ کیا تھا اور اس مسجد کو بازیاب نہیں ہونے دیا۔ اسے پھر مٹی تلے دبوا دیا گیا۔ لیکن اب یہی لوگ جگہ جگہ کھدائی کرانا چاہتے ہیں تاکہ ہر مسجد کے نیچے ایک مندر تلاش کیا جا سکے۔
جب بھی میڈیا کے بعض نمائندے لوگوں سے عوامی مسائل کے بارے میں بات کرتے ہیں تو لوگ مہنگائی اور بے روزگاری کی بات کرتے کرتے ہندوتوا پر آجاتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں کہ مودی جی جو کچھ کر رہے ہیں ٹھیک کر رہے ہیں۔ پھر فوراً پاکستان بھی آجاتا ہے اور کہا جانے لگتا ہے کہ ہندوستان میں پاکستان سے کم مہنگائی ہے۔ ارے بھائی ہندوستان کا مقابلہ پاکستان سے ہے کیا جو وہاں کی مہنگائی کی مثال دی جانے لگتی ہے۔ کچھ لوگ جو ذرا زیادہ متعصب قسم کے ہیں ان کا بغض و عناد سامنے آجاتا ہے اور وہ کہنے لگتے ہیں کہ مودی جی نے ملاؤں کو ٹھیک کر دیا ہے۔ حکومت نے جاہلوں اور پڑھے لکھے سب لوگوں کو دھرم کی ایسی افیون چٹائی ہے کہ اس کا نشہ اترنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ بلکہ وہ اور تیز ہوتا جا رہا ہے۔
بعض ذمہ دار مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کے حالات 1857 اور 1947 سے بھی بدتر ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو بات کچھ زیادہ غلط بھی نہیں لگتی۔ آج روزانہ کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کبھی لاؤڈ اسپیکر اتروانے کا شوشہ تو کبھی کوئی اور۔ حکومت نے یہ پلاننگ کر رکھی ہے کہ عوام کو چین سے نہ جینے دو۔ بہت پہلے ایک ٹی وی پر ایک پروگرام آتا تھا کہ چین سے سونا ہے تو جاگ جاؤ۔ آج سنگھ پریوار نے وہ ماحول بنا دیا ہے کہ پورے ملک کا ہندو جاگ گیا ہے۔ بہت سے ہندو اس کا اعلان بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہندو اب جاگ گیا ہے اب وہ اپنے خلاف کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ یہ کتنی بڑی احمقانہ بات ہے کہ ملک کے 80 فیصد کو بیس فیصد سے خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ گویا ابھی تک ہندو سو رہا تھا اور اسی لیے اپنا سب کچھ کھو رہا تھا۔ لیکن اب وہ جاگ گیا ہے۔
یہ کیسی بیداری ہے کہ ملک کا امن و امان خاک میں مل گیا ہے۔ سماجی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ہے۔ فرقہ وارانہ میل جول اور آپسی محبت کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ جسے گنگا جمنی تہذیب کہتے تھے اس کو ملیا میٹ کر دیا گیا ہے۔ اور مودی جی کہتے ہیں کہ وہ سیچوریشن میں یقین رکھتے ہیں۔ جب تک ان کی تمام اسکیمیں نافذ نہیں ہو جائیں گی وہ آرام نہیں کریں گے۔ ان کی اسکیمیں کیا ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملک زبردست ترقی کر رہا ہے اور جلد ہی وہ وشو گرو بن جائے گا۔ کیا کسی نے ایسے کسی ملک کو وشو گرو بنتے دیکھا ہے جو تعمیر میں نہیں تخریب میں یقین رکھتا ہو۔ جو بھرائی پر نہیں کھدائی پر وشواس رکھتا ہو۔ جو آپسی محبت اور بھائی چارے کے بجائے باہمی نفرت اور دشمنی میں یقین رکھتا ہو۔ مودی جی ابھی جانے والے نہیں ہیں۔ ان آٹھ برسوں میں انھوں نے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال دیا ہے اور جب تک وہ اپنی منزل پر نہیں پہنچ جائے گا وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ کسی نے کہا ہے کہ:
روئیں نہ ابھی اہل نظر حال پہ میرے
ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔