فوجیوں کی شہادت پر سیاست، بی جے پی کو شرم نہیں آتی؟
راہل گاندھی نے بجا طور پر کہا کہ رافیل لانے میں تاخیر کے لیے تو مودی ہی ذمہ دار ہیں۔ انھوں نے ہی سابقہ سودے کو منسوخ کرکے ایک نیا سودا کیا۔ اگر اسے منسوخ نہ کیا گیا ہوتا تو آج رافیل ملک میں ہوتا۔
جوں جوں عام انتخابات قریب آرہے تھے اور حکومت کی ناکامیوں پر پورے ملک میں بحث چھڑی ہوئی تھی تو عام لوگوں کے درمیان ایک بہت خاص قسم کی رائے بنتی جا رہی تھی۔ وہ رائے یہ تھی کہ بی جے پی الیکشن جیتنے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اگر کچھ نہیں ہوا تو کسی بہانے سے کم از کم پاکستان کے ساتھ ایک ہلکی پھلکی جھڑپ ہی کروائی جا سکتی ہے۔ سوئے اتفاق کہ اسی درمیان پلوامہ کے نزدیک سی آر پی ایف کے ایک بڑے قافلے پر خود کش حملہ ہوتا ہے اور اس میں چالیس سے زائد جوان شہید ہو جاتے ہیں۔
اس حادثے کو جو کہ ملک کے لیے بڑی بدنصیبی کی بات تھی بی جے پی اپنے لیے ایک خوش نصیبی میں تبدیل کر دینا چاہتی ہے۔ قارئین دیکھ رہے ہوں گے کہ اس سانحہ سے قبل حکومت اور بی جے پی پر اپوزیشن کی جو یلغار تھی وہ کچھ دنوں تک تو بالکل ٹھنڈی پڑ گئی اور اب اگر کسی جانب سے کوئی آواز اٹھتی ہے تو اسے حکومت اور بی جے پی دونوں فوج کی دشمنی پر محمول کر دیتے ہیں۔
اس سانحہ کے بعد نہ تو ملک میں بے روزگاری کا کوئی مسئلہ ہے، نہ مہنگائی کا۔ نہ تو اب کوئی یہ پوچھ رہا ہے کہ تم نے جو وعدے کیے تھے ان کا کیا ہوا۔ نہ تو یہ پوچھا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کیوں نہیں ہوا۔ نہ یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ ایک کے بدلے دس سر کیوں نہیں لائے جا رہے ہیں۔ نہ ہی ایک سال میں دو کروڑ روزگار کے وعدے کی عدم تکمیل کی کوئی آواز اٹھ رہی ہے۔
اب تو وزیر اعظم نریندر مودی ہوں یا بی جے پی صدر امت شاہ یا بی جے پی کے دوسرے رہنما، وہ جوانوں کی شہادت کو کیش کرانے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے ہیں۔ مودی جی تو اب اپنی ہر تقریر میں جوانوں کی شہادت کے نام پر اپنا سینہ ٹھونکتے ہیں اور یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے ہندوستان کا سر دنیا بھر میں بلند کر دیا ہے۔ اسی کے ساتھ وہ اپوزیشن کو ہدف تنقید بناتے ہیں اور الزام عاید کرتے ہیں کہ اپوزیشن فوجیوں کی بے عزتی کر رہا ہے۔
فضائیہ کے آپریشن بالاکوٹ کی آڑ میں نریند رمودی آپریشن اپوزیشن چلا رہے ہیں۔ کرناٹک کے سابق وزیر اعلی اور بی جے پی کے ایک سینئر رہنما بی ایس یدی یورپا نے اس کارروائی کے بعد کہہ دیا کہ اب مودی جی کے حق میں ہوا بہنے لگی ہے۔ اب کرناٹک میں بی جے پی کو 28 میں سے 22 سیٹیں ملیں گی۔ گویا وہ بات جو ابھی تک دل کے اندر چھپی ہوئی تھی اب زبان پر آگئی۔ اسی درمیان دہلی بی جے پی کے صدر منوج تیواری جو کہ پلوامہ حملے کے بعد ایک تقریب میں رقص کر رہے تھے، اب فوجی وردی پہن کر جلوس نکال رہے ہیں۔ جبکہ حکومت کے ایک وزیر رام داس اٹھاولے نے بھی یدی یورپا والی بات اگل دی۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ سرجیکل اسٹرائک 2 سے بی جے پی کو فائدہ پہنچے گا اور مودی جی پھر وزیر اعظم بنیں گے۔ اس سے قبل رام ولاس پاسوان بھی یہی بات کہہ چکے ہیں۔
جب اپوزیشن کی جانب سے فضائی کارروائی کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا گیاتو وزیر اعظم مودی نے خود ہی سوال گھڑ لیا اور کہنے لگے کہ اپوزیشن فوج پر شک کر رہا ہے اور اس نے جوانوں کی بہادری پر سوال اٹھائے ہیں۔ جبکہ کسی نے سوال اٹھائے ہی نہیں۔ مودی نے انڈیا ٹوڈے کنکلیو میں بولتے ہوئے خود ہی سوال اٹھا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آج رافیل جنگی طیارہ ہوتا تو نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ کانگریس نے اس پر مودی کو گھیرا ہے اور کہا ہے کہ اس کا مطلب آپ خود فوج کی بہادری پر شک کر رہے ہیں اور اس نے جو کارروائی کی ہے اس کے نتیجے پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
اس پر کانگریس صدر راہل گاندھی نے بجا طور پر کہا کہ رافیل لانے میں تاخیر کے لیے تو مودی ہی ذمہ دار ہیں۔ انھوں نے ہی سابقہ سودے کو منسوخ کرکے ایک نیا سودا کیا۔ اگر اسے منسوخ نہ کیا گیا ہوتا تو آج رافیل ملک میں ہوتا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مگ 21 ناکارہ طیارہ ہے۔ مگ 21 ہی نے پاکستان کے ایف 16 طیارے کو مار گرایا ہے۔ اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ مودی جی خود ہی فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اب مودی ہوں یا کوئی اور بی جے پی لیڈر اپنی کسی بھی تقریر میں کوئی دوسری بات نہیں کرتا۔ صرف پلوامہ حملہ اور اس کے بعد فوجی کارروائی کی بات کرتا ہے اور اس کی آڑ میں اپوزیشن کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب بی جے پی کی جانب سے جو پوسٹر چسپاں کیے جا رہے ہیں ان سے بھی یہی تاثر مل رہا ہے کہ وہ فوج کا سیاسی کرن کر رہی ہے اور اس کے کندھے پر بندوق رکھ کر رائے دہندگان کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ امیٹھی میں بندوق کے ایک کارخانے کے سنگ بنیاد کے تناظر میں بھی مودی کا ایک ایسا پوسٹر چسپاں کیا گیا ہے جس سے فوج کے وقار پر حرف آتا ہے۔
ادھر آپریشن بالاکوٹ میں ہلاکتوں کی تعداد کے سلسلے میں ایک تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے پیچھے بھی بی جے پی ہی ہے۔ مرکزی وزیر ایس ایس اہلووالیہ نے کہا ہے کہ بالاکوٹ پر کارروائی کا ہمارا مقصد انسانی جانوں کا اتلاف نہیں تھا بلکہ پاکستان کو ایک پیغام دینا تھا۔ انھوں نے کہا کہ نہ تو مودی جی نے کہا کہ اس کارروائی میں تین سو لوگ مارے گئے اور نہ ہی امت شاہ نے کہا۔ لہٰذا انھوں نے تعداد کو غلط بتایا۔
حالانکہ امت شاہ نے کارروائی کے بعد ہی کہہ دیا تھا کہ 250 لوگ مارے گئے ہیں اور یہ مودی کی حکومت ہے اس میں کچھ بھی ممکن ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کہ نہ تو حکومت نے کوئی تعداد بتائی ہے اور نہ ہی فوج نے۔ وزیر مالیات ارون جیٹلی نے ایک پروگرام میں بولتے ہوئے کہا کہ جب امریکہ نے اسامہ بن لادن کو مارا تو ہماری خواہش ہوتی تھی کہ ہم بھی ایسا کریں مگر سوچ کر رہ جاتے تھے۔ آج یہ ممکن ہو گیا ہے۔ یعنی انھوں نے بھی فوجی کارروائی کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی۔
ایسے میں جبکہ اہلووالیہ نے تعداد کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا اور پھر اپوزیشن نے وہی سوال اٹھا دیا تو اسے بھی اپوزیشن کی جانب سے فوج کی بے عزتی بتایا جا رہا ہے۔ یعنی اگر ایک وزیر سوال اٹھائے تو فوج کا وقار بڑھتا ہے اور اگر اپوزیشن اٹھائے تو فوج کی بے عزتی ہوتی ہے۔
اس طرح اگر ہم غور کریں تو بی جے پی کی جانب سے جوانوں کی شہادت اور پھر فضائیہ کی کارروائی کو پوری طرح سیاسی رنگ میں رنگ دیا گیا ہے اور اس ایشو کو اس طرح زندہ رکھا جا رہا ہے کہ یہ الیکشن تک مرنے نہ پائے۔ کیونکہ اگر یہ ایشو مر گیا تو پھر بی جے پی کے پاس عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کوئی دوسرا ایشو نہیں ہوگا۔ اس لیے حکومت اور بی جے پی کی جانب سے اپوزیشن پارٹیوں کو اسی میں الجھایا جا رہا ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ الیکشن کا ایک ایجنڈہ طے کیا جا رہا ہے تاکہ اسی کے اردو گرد بحث ہو اور بے روزگاری اور مہنگائی اور ان جیسے دوسرے ایشوز ہوا میں تحلیل ہو جائیں۔ پھر بی جے پی فوجیوں کی شہادت اور ان کی قربانیوں اور ان کی شجاعت آمیز کارروائیوں کے نام پر الیکشن جیت لے۔
واقعی فوجیوں کی شہادت اور ان کے بہادرانہ کارناموں سے سیاسی فائدہ اٹھانے میں بی جے پی کو ذرا بھی شرم نہیں آتی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔