گوری کا قتل آخری صحافی کا قتل نہیں تھا!

Getty Images
Getty Images
user

سہیل انجم

سینئر خاتون صحافی اور کنڑ ہفت روزہ ’’گوری لنکیش پتریکے‘‘کی ایڈیٹر گوری لنکیش کے وحشیانہ قتل نے پوری دنیا میں ہندوستان کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ ہندوستانی میڈیا کے ساتھ ساتھ عالمی میڈیا بھی یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ کیا خیالات و نظریات کا جواب گولیوں اور بندوقوں سے دیا جا سکتا ہے۔کیا کوئی مہذب معاشرہ اختلاف رائے کا جواب عدم برداشت کے ہتھیار سے دیتا ہے اور اختلاف کرنے والے کو موت کی نیند سلا کر جشن مناتا ہے۔ ہم تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں۔ ہماری جمہوری قدروں اور روایات کو پورے عالم نے تسلیم کیا ہے۔ تنوع اور رنگا رنگی خواہ رہن سہن، بول چال، بود و باش اور تہذیب و ثقافت میں ہو یا پھر خیالات و نظریات میں، وہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے، وہی اس کا حسن ہے اور وہی اس کی جاذبیت ہے۔ لیکن بعض طاقتیں اس حسن، اس خوبصورتی اور اس جاذبیت کو ملیا میٹ کرنے کے درپے ہیں۔ وہ جمہوریت کی روح کو پامال کرکے اس ملک میں فکری، مذہبی و ثقافتی آمریت کی بنیاد ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہ صورت حال انتہائی تشویش ناک اور فکر مندی کا باعث ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جو لوگ اس نظریاتی تعصب و تنگ نظری کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ان کی آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دینے کی سازشیں رچی جاتی ہیں اور جب وہ آوازیں پھر بھی سنائی دیتی ہیں تو انھیں بزور قوت خاموش کر دیا جاتا ہے۔ گوری لنکیش کا قتل اسی صورت حال کی جانب اشارہ کرتا ہے جو کہ دن بہ دن مزید ابتر اور سنگین ہوتی جا رہی ہے۔

پریس یا میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ باقی تینوں ستونوں کی مانند اس کا بھی مضبوط اور مستحکم ہونا بے حد ضروری ہے۔ اگر یہ ستون کمزور ہو گیا تو جمہوریت کی عالیشان عمارت میں کجی پیدا ہو جائے گی۔ یہاں پریس کو ہمیشہ آزادی حاصل رہی ہے۔ کسی بھی حکومت نے اسے پا بہ زنجیر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن اس وقت مرکز میں جو حکومت ہے وہ پریس کو اپنا نظریاتی غلام بنا لینے کی جی توڑ کوشش کر رہی ہے۔ پریس کا ایک طبقہ اس کے جال میں پھنس چکا ہے۔ وہ اس کی تابعداری کو ہی صحافت سمجھنے لگا ہے۔ اس کی قصیدہ خوانی ہی کو اپنی صحافتی معراج ماننے لگا ہے۔ لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو کسی بھی دباؤ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جو اپنے فرض منصبی سے غداری اور بیوفائی کا مرتکب ہونے کے لیے راضی نہیں ہے۔ ایسے ہی بیباک، بے خوف، جی دار اور انصاف پسند صحافیوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ مہم صرف حکومتی سطح پر نہیں ہو رہی بلکہ حکومت نواز عناصر اور سنگھی نظریات کے حامل افراد بھی اس میں پیش پیش ہیں۔ یہ عناصر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے ملک میں ایک ایسا گھناونا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا گیا۔ وہ ایک ایسی خوفناک فضا تشکیل دینے کے درپے ہیں جس میں حق گوئی و انصاف پسندی کے لیے کوئی گنجائش نہ رہے۔

ابھی تک ہم یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ہندوستان میں پریس کو پوری آزادی حاصل ہے۔ موجودہ حکمراں محاذ کی جانب سے اب بھی یہی غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن حقیقتاً اب حالات بدل گئے ہیں۔ اب صرف پاکستان ہی صحافیوں کے لیے خطرناک ملک نہیں رہ گیا ہے بلکہ ہندوستان بھی خطرناک ملک بنتا جا رہا ہے۔ صحافیوں کی ایک عالمی انجمن رپورٹرس وداؤٹ بارڈرس Reporters Without Borders نے اسی سال مئی میں 180 ملکوں کی ایک فہرست جاری کرکے بتایا ہے کہ ہندوستان صحافیوں کے تحفظ کے معاملے میں 136 ویں مقام پر ہے۔ حالیہ برسوں میں وہ تین پائیدان نیچے آگیا ہے۔ یعنی صحافیوں کے تحفظ کا ریکارڈ مزید خراب ہو گیا ہے۔ مذکورہ رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ ملک میں نام نہاد ہندو قوم پرستی کا ابھار ہے۔ یوں بھی صحافیوں کے تحفظ کے معاملے میں ہندوستان کا ریکارڈ اچھا نہیں رہا ہے۔ یہاں یہ بھی دیکھتے چلیں کہ فلسطین میں جو کہ جنگ کے ماحول میں ہے اور جہاں اسرائیلی مظالم کا سلسلہ عرصۂ دراز سے جاری ہے وہاں بھی صحافیوں کے حالات ہندوستان کے صحافیوں سے بہتر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فلسطین اس معاملے میں ہندوستان سے ایک قدم آگے یعنی 135 ویں مقام پر ہے۔ قطر، متحدہ عرب امارات، جنوبی کوریا اور اسرائیل کا ریکارڈ بھی ہم سے اچھا ہے۔ جبکہ پریس کونسل آف انڈیا کا کہنا ہے کہ 1990 سے لے کر اب تک 80 صحافیوں کا قتل ہو چکا ہے اور صرف ایک معاملے میں سزا ہوئی ہے۔ یہ صورت حال ہمارے لیے انتہائی شرمناک ہے۔ کیا اسی کی بنیاد پر ہم یہ شیخی بگھارتے ہیں کہ ہندوستان میں پریس کو آزادی حاصل ہے۔

یہاں تو تفتیشی صحافت کا بھی گلا گھونٹا جاتا ہے۔ دور مت جائیے تہلکہ کے معاملے کو لے لیجیے۔ اس نے بی جے پی کے سابق صدر بنگارو لکشمن کو رشوت لیتے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا۔ ایسے اقدامات کیے گئے کہ تہلکہ کو ختم ہو جانا پڑا۔ اور اب اس کے ایڈیٹر ترون تیج پال پر جنسی زیادتی اور عصمت دری کا مقدمہ قائم کر دیا گیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ سیاست دانوں اور پرائیویٹ کمپنیوں کی جانب سے بھی ان تفتیشی صحافیوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے جن کی رپورٹنگ سے بہت سے لوگ بے نقاب ہوتے ہیں۔ ایسار گروپ نے ایک تفتیشی میگزین ’’کارواں‘‘ کے خلاف 250 کروڑ روپے کا ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے 14000 الفاظ پر مبنی ایک مضمون شائع کیا تھا جس میں مذکورہ کمپنی کی بد عنوانیوں کو اجاگر کیا گیا تھا۔ اسی طرح تمل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جے للتا نے اپنے مخالفوں اور میڈیا اداروں کے خلاف ہتک عزت کے 213 مقدمات قائم کیے تھے۔ حالیہ دنوں میں این ڈی ٹی وی کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا۔ اگر چہ میڈیا اداروں کی جانب سے ان مقدمات کا سامنا کیا جاتا ہے لیکن بہر حال ایسے اقدامات پریس کی آزادی اور رپورٹنگ کی کوالٹی کو متاثر کرتے ہیں۔

یہ سمجھ لینا کہ گوری لنکیش کا قتل آخری صحافی کا قتل ہے، احمقانہ بات ہوگی۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ تمام صحافی نرغے میں ہیں جو ایک خاص نظریے کی مخالفت کرتے ہیں۔ جو اس ملک کو فکری آمریت کے دلدل میں پھنسنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لنکیش کے قتل کے خلاف پورے ملک میں احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن معاملہ یہیں پر نہیں رکے گا۔ صحافیوں کو اپنے وجود اور اپنی عزت نفس کے تحفظ اور بقا کے لیے ایک طویل لڑائی لڑنی ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 09 Sep 2017, 4:59 PM