داووس: کون سے ہندوستان کی بات کر رہے ہیں وزیر اعظم؟
اپنی تقریر میں وزیر اعظم کو یاد رکھنا چاہیے تھا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں اس پر خود ہی عمل نہیں کرتے۔ انھیں یادرکھنا چاہیے تھا کہ انھوں نے 44 مہینے کے دور اقتدار میں جوڑنے کی جگہ تقسیم کرنے کا کام کیا ہے۔
دہشت گردی، ماحولیاتی تحفظ اور خود مرکزیت... یہ وہ تین اہم موضوعات یا چیلنجز ہیں جن کا تذکرہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ورلڈ اکونومک فورم کے افتتاحی سیشن میں کیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دہشت گردی اور ماحولیات فکر کے اسباب ہیں، اور اس کے حل کے لیے پوری دنیا کو ایک ساتھ بیٹھ کر حل نکالنا ہوگا۔ لیکن جس تیسرے چیلنج کی بات وزیر اعظم مودی نے کی، وہ بالکل اسی طرح تھا جیسا کہ پرانی کہاوت میں کہا گیا ہے کہ ’دوسروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت‘۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر کی شروعات میں رسمی خطاب کے بعد جو سب سے پہلی بات کہی وہ تھی ورلڈ اکونومک فورم کی اس سال کی تھیم یعنی موضوع۔ انھوں نے اس سلسلے میں کہا کہ ’’آج کا موضوع دراڑوں سے بھری دنیا میں مشترکہ مستقبل کی تعمیر کا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ معاشی صلاحیت اور سیاسی طاقت کا توازن بدل رہا ہے۔ اس سے دنیا کی شکل میں آئندہ ہونے والی تبدیلیوں کی شبیہ دکھائی دے رہی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’دنیا کے سامنے امن، استحکام، تحفظ جیسے معاملوں پر نئی اور سنگین چیلنجز ہیں۔ تکنیک پر مبنی تبدیلیوں نے ہمارے رہنے اور کام کرنے کے رویہ اور بات چیت کے طریقوں کو متاثر کیا ہے۔‘‘
نریندر مودی نے اپنی تقریر کے دوران ٹیکنالوجی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ٹیکنالوجی سے جوڑنے، موڑنے اور توڑنے کی مثال سوشل میڈیا سے ملتی ہے۔‘‘ انھوں نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ یہ بات پوری ذمہ داری سے کہہ رہے ہیں کہ ٹیکنالوجی توڑنے کا کام بھی ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کے اس خطاب کے دوران موجود ناظرین اور سامعین میں ہندوستانی وفد کے بیچ ریلائنس انڈسٹریز کے چیئرمین مکیش امبانی بھی تھے جنھوں نے تقریباً سوا سال پہلے ہی ’ریلائنس جیو‘ شروع کیا ہے۔ مکیش امبانی نے ’جیو‘ لانچ کے وقت کہا تھا کہ ڈاٹا سب سے بڑا خزانہ ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں اس بات کو دہرایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ڈاٹا بہت بڑا خزانہ ہے۔ ڈاٹا سے سب سے بڑے مواقع مل رہے ہیں اور سب سے بڑے چیلنجز بھی۔ ڈاٹا کے پہاڑ بن رہے ہیں اور ان پر کنٹرول کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ ایسا مانا جا رہا ہے کہ جو ڈاٹا پر کنٹرول رکھے گا وہی مستقبل پر کنٹرول کرے گا۔‘‘ ساتھ ہی وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں متنبہ کیا کہ سائنس اور تکنیک سے دراڑیں بھی پیدا ہو رہی ہیں جن سے درد بھری چوٹیں پہنچتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ درد بھری چوٹیں دوری، پابندی، ترقی کی کمی، غریبی، بے روزگاری، مواقع کی کمی اور قدرتی و تکنیکی وسائل پر قبضے کے لیے ہیں۔ انھوں نے خود سے سوال کیا کہ کہیں یہ نظام ان دراڑوں اور دوریوں کو فروغ تو نہیں دے رہی ہیں۔ یہ کون سی طاقتیں ہیں جو ہم آہنگی کی جگہ دوریوں کو ترجیح دیتی ہے، جو تعاون کی جگہ خلفشار کو حاوی کرتی ہیں۔‘‘
غالباً وزیر اعظم کے ذہن میں اپنے گھر کی تصویر گھوم رہی تھی جہاں نابرابری، دوری، بے روزگاری، مواقع کی کمی، سماجی دراڑیں، قدرتی وسائل پر قبضے روز مرہ کا مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ہندوستان، ہندوستانیت اور ہندوستانی وراثت کے نمائندہ ہیں اور ان کے لیے ورلڈ اکونومک فورم میں آنا جتنا نیا ہے اتنا ہی قدیم بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہندوستان میں دورِ قدیم سے ہم انسانوں کو جوڑنے میں یقین کرتے آئے ہیں، اسے توڑنے اور تقسیم کرنے میں نہیں۔‘‘
لیکن یہاں وزیر اعظم کو یاد رکھنا تھا کہ وہ ایسا کیا کہہ رہے ہیں جس پر وہ خود ہی عمل نہیں کرتے۔ انھیں یاد رکھنا چاہیے تھا کہ ان کے 44 مہینے کے دور اقتدار میں جوڑنے کی جگہ توڑنے اور تقسیم کرنے کا ہی کام ہوا ہے۔ انھیں یاد رکھنا تھا کہ ہندوستان میں مذہب، طبقہ اور فرقہ کی بنیاد پر سماج کی تقسیم جس قدر گزشتہ 44 مہینے میں ہوئی ہے اتنی کبھی نہیں ہوئی۔ وزیر اعظم نے یہاں پھر سے ’وَسو دھیو کٹمبکم‘ کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے پوری دنیا ایک فیملی ہے اور پالیسیوں میں ایک مشترکہ اصول جو انھیں ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ یہاں وزیر اعظم شاید اس فیملی کی بات کر رہے تھے جس میں رہ کر ان کی سیاسی تربیت ہوئی ہے۔ وزیر اعظم کو یہاں دل پر ہاتھ رکھ کر سوچنا تھا کہ ورلڈ اکونومک فورم پر ’وسودھیو کٹمبکم‘ کی بات کہنے سے پہلے انھیں اپنے گھر میں جھانک کر دیکھنا ضروری ہے۔
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس دور کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اتفاق میں کمی نظر آ رہی ہے۔ وہ عالمی ضمن میں یہ بات کہہ رہے تھے لیکن بھول گئے تھے کہ اتفاق کی کمی تو ان کے اپنے ملک میں ہی ہے۔ کلبرگی، لنکیش، پہلو خان، اخلاق اس کی مثالیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ دنیا کے سامنے تیسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ ’’بہت سے سماج اور ملک خود مرکزیت کے شکار ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘ انھوں نے مہاتما گاندھی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’’مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ میں نہیں چاہتا کہ میرے گھر کی دیواریں اور کھڑکیاں سبھی طرح سے بند ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ سبھی ممالک کی تہذیب و ثقافت کی ہوا میرے گھر میں پوری آزادی سے آ اور جا سکیں۔‘‘
لیکن وزیر اعظم کو شاید یاد نہیں رہا کہ اس حکومت نے کھڑکی اور دروازے کچھ خاص لوگوں کے لیے ہی کھولے ہوئے ہیں، بقیہ عام لوگ یا تو ٹوئٹر یا پھر من کی بات کا انتظار کرتے رہ جاتے ہیں کیونکہ ان کی حکومت یکطرفہ ڈائیلاگ اور حکومت میں یقین کرتی ہے۔ نریندر مودی نے جمہوریت کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ’’جمہوریت صرف رنگا رنگی پر عمل پیرا نہیں ہوتا بلکہ سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کی امیدوں، خوابوں کو پورا کرنے کے لیے، مکمل ترقی کے لیے روڈ میپ اور ماحول پیدا کرتا ہے۔‘‘
یہاں وزیر اعظم اس رپورٹ کو بھول گئے جو ایک دن پہلے ہی اسی اسٹیج سے جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یکساں ترقی کے معاملے میں ہندوستان نہ صرف پاکستان بلکہ نیپال جیسے چھوٹے ملک اور دوسرے پڑوسی بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی پیچھے ہے۔ انھوں نے 2014 میں اپنی زبردست فتح کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے کسی ایک طبقہ یا کچھ لوگوں کے محدود ترقی کا نہیں بلکہ سب کی ترقی کا عزم کیا ہے۔ میری حکومت کا نشانہ ہے ’سب کا ساتھ سب کا وِکاس‘۔ ترقی کے لیے ہمارا ویژن، مشن اور دَرشن سب کو ایک ساتھ رکھنا ہے۔ یہ میری حکومت کی ہر پالیسی اور منصوبہ کی بنیاد ہے۔‘‘
لیکن وزیر اعظم اس رپورٹ کو بھول گئے جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کی کل دولت کا 73 فیصد ملک کے ایک فیصد لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ وزیر اعظم جب یہ کہہ رہے تھے کہ ترقی تبھی سچے معنوں میں ہے جب ساتھ چلیں، سب کو لے کر چلیں اور سب کے لیے چلیں تو وہ اس انڈیکس کو بھول گئے تھے جس کا اندازہ کسی ملک کے لوگوں کے رہن سہن کا سطح، ماحولیات کی حالت اور قرض کے بوجھ سے حفاظت وغیرہ پہلوؤں پر مبنی ہوتا ہے اور اس انڈیکس میں ہندوستان 103 ممالک کی فہرست میں 62ویں مقام پر ہے۔
مودی نے ہندوستان میں ان کی حکومت کے دور میں اٹھائے گئے اقدام میں سے جی ایس ٹی کو بڑی حصولیابی بتایا۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس ٹیکس کو ابھی تک ان کی حکومت ہی نہیں سمجھ سکی ہے تو عام لوگ اور تاجر کیا سمجھیں گے۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد جی ایس ٹی کاؤنسل کی 25 میٹنگوں میں تقریباً 50 مرتبہ شرح میں تبدیلی کرنے کے بعد بھی کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے۔ یہ بھی نہیں بتایا کہ مبینہ شفافیت کے نام پر جس تکنیک کے استعمال کی وہ بات کر رہے تھے اسی تکنیک کے سبب جی ایس ٹی کا پھانس نہیں نکل پا رہا ہے۔
محاورے بنانے میں ماہر مودی نے پھر سے نیا محاورہ تشکیل دیتے ہوئے کہا کہ ’ڈیموکریسی، ڈیموگرافی اور ڈائنزم نے مل کر ڈیولپمنٹ اور ڈیسٹنی کو ایک شکل دی ہے۔ اب ہماری حکومت کے بے خوف فیصلوں نے حالات میں بدلاؤ کیا ہے۔‘‘ لیکن وہ یہ نہیں بتا پائے کہ ان بدلاؤ اور فیصلوں سے بے روزگاری بے تحاشہ بڑھ گئی ہے، نوجوانوں میں غصہ ہے، روزگار کے مواقع کم ہو گئے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے کچھ مثالیں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح بحران کے وقت وہ دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ انھوں نے اقوام متحدہ میں ہندوستانی وفد کی موجودگی، نیپال زلزلہ وغیرہ کا تذکرہ کیا۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ جب کوئی پہلو خان یا اخلاق مارا جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کی جگہ اس کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا جاتا ہے۔ یہ نہیں بتایا کہ جب کسی گوری لنکیش کا قتل ہوتا ہے تو اس کی تنقید کرنے کی جگہ اسے برا بھلا کہا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر نازیبا الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم نے گرودیو رویندر ناتھ ٹیگور کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’عظیم ہندوستانی شاعر گرودیو رویندر ناتھ ٹیگور نے ایسی آزادی کا خواب دیکھا، آئیے ہم مل کر ایسا ’ہیون آف فریڈم‘ بنائیں جہاں تعاون اور یکجہتی ہو، تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ ہم ساتھ ساتھ دنیا کو دیواروں اور غیر ضروری دراڑوں سے سے آزادی دلائیں۔‘‘
لیکن گرودیو کا نام لینے سے پہلے وزیر اعظم نے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ جس ’ہیون آف فریڈم‘ کی بات وہ کر رہے ہیں وہ کیا ہندوستان میں بچا ہے۔ وہ شاید بھول گئے کہ ان کے دور اقتدار میں لوگوں کو بولنے اور کہنے کی آزادی تو دور، اپنی خواہش کے مطابق کھانے اور پینے کے ساتھ ساتھ پہننے اور اوڑھنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ محبت کرنے پر بھی ان کی حکومت کے دور میں پہرے بٹھا دیے گئے ہیں۔
تقریر ختم کرتے کرتے انھوں نے ایک نیا جملہ بھی اچھالا۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں آپ کو مدعو کرتا ہوں کہ اگر آپ ویلتھ، ویلنیس چاہتے ہیں تو ہندوستان میں آئیے۔ آپ ہیلتھ کے ساتھ زندگی کی ہولنیس چاہتے ہیں تو ہندوستان آئیں، اگر آپ پراسپیرٹی کے ساتھ پیس چاہتے ہیں تو ہندوستان میں آئیں۔‘‘
لیکن وزیر اعظم کو یاد رکھنا تھا کہ ملک میں نہ تو ویلتھ ہے اور نہ ہی ویلنیس، نہ پیس ہے اور نہ ہی پروسپیرٹی، نہ ہی ہیلتھ ہے اور نہ ہی ہولنیس۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔