فلسطین کہیں پیچھے چھوٹ گیا!

ایک زمانہ تھا جب ہندوستان اور فلسطین کی دوستی کی مثال دی جاتی تھی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کے ہندوستانی دورے سے ایک روز قبل اسرائیلی سفارتکار سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ووٹ ڈالنے سے ہندوستان اور اسرائیل کے رشتوں پر کچھ اثر پڑا ہے تو اسرائیلی سفارتکار کا جواب تھا کہ ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات ایک ووٹ سے بہت اوپر ہیں ۔ اس جواب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات آج کس نوعیت کے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہندوستان اور فلسطین کی دوستی کی مثال دی جاتی تھی ۔ ہندوستان ان شروع کے ممالک میں سے ایک تھا جس نے فلسطین کو تسلیم کیا تھا اور اسرائیل کو تسلیم کرنے والے آخری چندممالک میں سے ایک تھا ۔ لیکن اب جیسے پوری دنیا کے حالات بدل چکے ہیں ویسے ہی ہندوستان میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں ۔ نئی سوچ کی حکومت کی خارجہ پالیسی بھی پرانی خارجہ پالیسی سے بہت جدا ہے۔ایک زمانہ تھا جب اندرا گاندھی سے لے کر اٹل بہاری واجپئی تک فلسطینی قائد یاسر عرفات کو بہت اہمیت دیتے تھے لیکن نہ تو اب یاسر عرفات ہیں اور نہ ہی اندرا اور واجپئی۔ اب جب ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی تمام پروٹوکول توڑ کر خود اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کو ایئر پورٹ پر لینے گئے تو اس نے نئی خارجہ پالیسی اور نئے دوستوں کی طرف واضح اشارہ کر دیا۔

تصویر اوشل میڈیا
تصویر اوشل میڈیا
فائل فوٹو اندرا گاندھی اور یاسر عرفات

فلسطین اب ہندوستان کی ہی نہیں بلکہ دنیا کے زیادہ تر ممالک کی توجہ ، ہمدردی اور دوستی کا مرکز نہیں رہا ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر ملک کی خارجہ پالیسی میں اب سرمایہ کاری اور بازار کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی ہے ۔ اب سرمایہ کاری اور بازار دو ممالک کے تعلقات کا مرکز بن گئے ہیں ۔ ان دونوں وجوہات کی بنا پر اسرائیل کے سامنے فلسطین اب کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں رکھتا۔یاسر عرفات کے انتقال کے بعد فلسطین اپنی شناخت کھو چکا ہے کیونکہ فلسطین کو عالمی سطح پر شناخت دلانے میں عرفات کا بھی بہت اہم کردار تھا۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد پوری دنیا میں طاقت کا صرف ایک مرکز رہ گیا ہے اور وہ ہے امریکہ ، اس لئے اب صحیح وہ ہے جو امریکہ کی نظر میں صحیح ہے کیونکہ اب اس کو چیلنج کرنے کے لئے کوئی دوسری عالمی طاقت نہیں بچی ہے۔ اب ظلم اور مظلوم جیسے الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ۔ اب اہمیت اس بات کی ہے کہ امریکہ کو کیا پسند ہے اور کس کے پاس سرمایہ ہے اور کس کے پاس بازا ر ہے ۔ جیسے ہمارے لئے سرمایہ کے نقطہ نظر سے امریکہ اور اسرائیل اہمیت رکھتے ہیں ویسے ہی امریکہ اور اسرائیل کے لئے بازار کے نقطہ نظر سے ہم (ہندوستان ) اہمیت رکھتے ہیں۔ ان بنیادی تقاضوں کی وجہ سے تینوں میں دوستی بھی ہے ۔ تقسیم ہندکے بعد سے ہندوستان کی ایک بڑی آبادی ہندوستانی مسلمانوں کو شک کی نظر سے دیکھتی رہی ہے اور گزشتہ دو دہائیوں سے عالمی پیمانہ پر جو دہشت گردی کے واقعات سامنے آئے ہیں اس کے بعد مسلمانوں کی شبیہ یقینی طور پر خراب ہوئی ہے اس کی وجہ سے بھی ہندوستان کے ایک طبقہ میں مسلم نفرت بڑھی ہے ۔ ادھر اسرائیل کی بنیادی لڑائی ہی مسلمانوں سے رہی ہے ۔ ہندوستان اور اسرائیل کی بڑھتی قربت کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے، ویسے خارجہ پالیسی میں ان چیزوں کا دخل نہیں ہوتا لیکن اگر اس کا کوئی دخل ہے تو یہ ملک کی خارجہ پالیسی کے لئے اچھا نہیں ہے ۔

تاریخ گواہ ہے کہ قوموں اور ملکوں کےباہمی رشتے بدلتے رہے ہیں اس تبدیلی کو ہندوستان اور فلسطین کے بدلے ہوئے تعلقات کی روشنی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے اور اس دور کے تعلقات کو بھی ذہن میں رکھا جا سکتا ہے جب عیسایئوں کے خلاف یہودی اور مسلمان یوروپ میں ایک ہو گئے تھے۔ بحرحال ان بدلے ہوئے حالات میں آج فلسطین کہیں پیچھے چھوٹ گیا ہے جیسے سماجی تقاضے اب سرمایہ اور بازار کی نذر ہو گئے ہیں ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 15 Jan 2018, 11:30 AM