سونیا گاندھی نے دکھایا کہ پارلیمانی جمہوریت میں ایک سیاسی جماعت کیا حاصل کر سکتی ہے... پی چدمبرم کا مضمون
راجیو گاندھی کا انتقال ان کے، کانگریس پارٹی اور ملک کے لئے تباہ کن دھچکا تھا۔ جب سونیا گاندھی جی سے قیادت سنبھالنے کی گزارش کی گئی تو انہوں نے سختی سے منع کر دیا اور اس کی وجہ صاف تھی
پی چدمبرم
وقت کے عجیب پھیر کے سبب بے دلی سے پارٹی صدارت کا عہدہ سنبھالنے والی محترمہ سونیا گاندھی 1885 میں انڈین نیشنل کانگریس کے قیام کے بعد سے اب تک کی تاریخ میں سب سے طویل مدت کے لئے صدر رہیں۔ راجیو گاندھی کا انتقال ان کے، کانگریس پارٹی اور ملک کے لئے تباہ کن دھچکا تھا۔ جب سونیا گاندھی جی سے قیادت سنبھالنے کی گزارش کی گئی تو انہوں نے سختی سے منع کر دیا اور اس کی وجہ صاف تھی۔
سال 1991 سے 1998 تک کے واقعات مشہور ہیں اور یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ 1991 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے 244 سیٹیں جیت کر حکومت بنائی۔ اس کے بعد 1996 اور 1998 میں ہونے والے دو انتخابات میں کانگریس نے بالترتیب 140 اور 141 سیٹیں جیتیں۔ یہ وہ وقت تھا جب پارٹی کے رہنما سونیا گاندھی کی مزاحمت کو ختم کرنے اور انہیں کانگریس صدر بننے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ان کی مدت کار دسمبر 2017 تک بلاتعطل چلتی رہی۔ ایک بار پھر انہوں نے 2019 میں کانگریس کے عبوری صدر کا عہدہ سنبھالا۔ کانگریس پارٹی نے 23 سال کے عرصے میں جیت اور ہار دونوں کو دیکھا ہے۔
سب سے شاندار واپسی 2004 (145 نشستوں) میں ہوئی جسے 2009 (206 نشستوں) میں مزید بہتر کیا گیا۔ کانگریس کی تاریخ کے اس دور کے لیے انتخابات جیتنا اور 10 سال تک اقتدار میں رہنا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ 10 سال کے عرصے میں جو کچھ حاصل ہوا وہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ رہے گا۔ حکومتی اختیار وزیراعظم اور وزراء کے ہاتھ میں تھا جیسا کہ آئین کے تحت ہونا چاہیے۔ پارٹی حکومت نہیں بنی، جیسا کہ ہم ایک پارٹی کی حکمرانی والے بہت سے ممالک میں دیکھتے ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ کانگریس پارٹی حکومت کے لیے ماورائے آئین اتھارٹی نہیں بنی، جیسا کہ موجودہ بی جے پی حکومت کے لیے آر ایس ایس بن گئی ہے۔ پھر بھی سونیا گاندھی نے دکھایا کہ پارٹی پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں ایک پارٹی کیا حاصل کر سکتی ہے۔ ہم نے آئین اور قوانین کی وفاداری سے پیروی کی اور کابینہ کے اختیار کردہ ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے نیشنل ایڈوائزری کونسل (این اے سی) قائم کی اور سونیا گاندھی اس کی صدر بنیں۔
این اے سی ایک نیا تجربہ تھا جس نے حکومت کو مشورہ دینے کے لیے معاشیات، کاروبار، سائنس، تعلیم، ماحولیات، غیر سرکاری تنظیموں اور انتظامیہ کے شعبوں سے ہنرمندوں کو جمع کیا۔ بلاشبہ اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے زیادہ تر غیر منصفانہ اور سیاسی دشمنی کی وجہ سے تھے لیکن ایک مشاورتی ادارے کے طور پر اس کی کامیابیاں بے مثال تھیں۔ این اے سی نے ہندوستان کے آئین کے دیباچے میں درج مساوات کو زندہ کیا جس میں سماجی، اقتصادی اور سیاسی انصاف کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس نے حقوق پر مبنی نقطہ نظر کی حمایت کی جس نے آئین میں بنیادی حقوق کے باب کے معنی میں اضافہ کیا۔ تعلیم یا صحت کی دیکھ بھال تک مساوی رسائی کے بغیر 'مساوات' کا کیا مطلب ہے؟ زیادہ بے روزگاری اور بحران کے وقت ضمانت شدہ کام کے حق کے بغیر 'کسی بھی کاروبار کو کرنے کی آزادی' کا کیا مطلب ہے؟
این اے سی کے کہنے پر یو پی اے حکومت نے بنیادی قوانین جیسے حق اطلاعات، حق تعلیم، قومی دیہی روزگار گارنٹی، فارسٹ رائٹس ایکٹ اور فوڈ سیکورٹی ایکٹ منظور کیا۔ ان قوانین کی مطابقت اور مستقل مزاجی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ این ڈی اے حکومت کے پچھلے سات سالوں میں حکومت نے ان قوانین کو منسوخ کرنے کی ہمت نہیں کی۔ اس کے برعکس شدید بحران کے وقت روزگار گارنٹی قانون اور فوڈ سیکیورٹی ایکٹ ایسے قوانین نے لوگوں کی تکالیف کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی حکومت کا واحد استحقاق یا وزیر اعظم کی مرضی اور تخیل نہیں ہو سکتی، یہ ایک حقیقی جمہوریت کے کام کرنے کا طریقہ نہیں ہے۔ جمہوریت کا مرکزی ستون 'عوام' ہیں۔ این اے سی نے 'عوام' کے کردار کو تسلیم کیا اور قانون سازی کو جمہوری بنایا۔ یو پی اے دور کے قانون کی مسلسل مطابقت کا این ڈی اے دور کے زرعی بلوں کے حشر سے موازنہ کرکے اسے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ تاریخ لکھے گی کہ زرعی بل خفیہ طور پر بنائے گئے اور بغیر کسی افسوس کے منسوخ کر دیئے گئے۔ مجھے 2004-2014 کے دوران این اے سی کے ذریعے ادا کیے گئے تاریخی کردار اور سونیا گاندھی کی طرف سے اس ادارے کو فراہم کردہ قیادت کو یاد کرتے ہوئے فخر ہے اور انہیں سالگرہ کی بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔