اویسی دھوکہ دینا بند کریں، عوام کے لئے سیاست کریں... سید خرم رضا
جب تک ملک میں اویسی اور بی جے پی مذہب کی سیاست کرتے رہیں گے اور مایاوتی ذات کی سیاست کرتی رہیں گی اس وقت تک کسی کی بھی ترقی ممکن نہیں ہے
کسی بھی ریاست میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کو اتنا اہم کر کے پیش کیا جانے لگا ہے کہ جیسے ہر ہندوستانی کا مستقبل ان انتخابات کے نتائج پر ہی منحصر ہو۔ مغربی بنگال کے لوگ اپنی ریاست کے لئے کس پارٹی کا انتخاب کرتے ہیں اس کا مدھیہ پردیش میں رہنے والے لوگوں پر کیا اثر پڑے گا۔ کیونکہ یہ کوئی مرکزی حکومت کے لئے تو انتخابات نہیں ہیں کہ پورے ہندوستان کے لوگوں پر اس کا اثر پڑے گا۔ پہلے ریاستی انتخابات کی نہ تو دسری ریاست کے لوگوں کے لئے اتنی اہمیت ہوتی تھی اور نہ ہی ریاستی انتخابات کے نتائج کو مرکز کی سیاست سے جوڑ کر دیکھا جاتا تھا، لیکن اب ہندوستان بدل رہا ہے۔ اب پورے ہندوستان کے لوگوں کو یہ بھی فکر رہتی ہے کہ مغربی بنگال اسمبلی انتخابت میں کس پارٹی کی حکومت ہوگی اور تمل ناڈو میں کس پارٹی کی حکومت ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں : سماج کو سیاسی مذہب کی ضرورت نہیں ہے: سید خرم رضا
اس تبدیلی کی وجہ پورے ہندوستان میں مرکز میں بر سر اقتدار جماعت کے حامیوں اور مخالفین میں واضح تفریق ہے۔ ہندوستان میں آ ج ایک طبقہ وہ ہے جو بی جے پی کی ہر صحیح اور غلط بات کے ساتھ کھڑا ہے اور ایک طبقہ وہ ہے جو بی جے پی کی کسی بھی پالیسی یا نظریہ سے اتفاق نہیں کرتا۔ یہ اس تفریق کی ہی وجہ ہے کہ پورے ہندوستان میں جہاں بھی انتخابات ہوتے ہیں وہاں کے نتائج پر سب کی نظر رہتی ہے اور ایک طبقہ شکست کا انتظار کرتا ہے اور دوسرا جیت کا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ عوامی مسائل پیچھے رہ گئے اور عوامی جذبات یا ان کے لگاؤ سب مدوں پر حاوی ہو گئے۔ اس کی وجہ سے ذات اور مذہب کی سیاست سب پر بھاری ہوتی جا رہی ہے اور روٹی، کپڑا اور مکان کا کوئی ذکر نہیں۔
آئندہ سال پانچ ریاستوں میں انتخابات ہونے ہیں جن میں ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش بھی شامل ہے، جہاں سے سب سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ نمائندگی کرتے ہیں۔ انتخابات کی آہٹ سنتے ہی سب نے اپنی کمر کس لی ہے اور زیادہ تر پارٹیوں نے اپنے اپنے ووٹ بینک کو رجھانے کے لئے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ مجلس اتحاد المسلیمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ اتر پردیش میں سو سیٹوں پر انتخابات لڑیں گے اور انہوں نے خالص مسلمانوں کی سیاست میں دبے کچلے لوگو ں کی خوشحالی کو جوڑ کر اپنا مال بیچنا شروع کر دیا ہے۔ ادھر بی ایس پی سپریموں مایاوتی جن کی سیاست کی پہچان ہی ہندوؤں کی اعلی ذاتوں کے خلاف تھی وہ اب ان اعلی ذاتوں کی محرومیوں اور ان کے حقوق کی باتیں کر رہی ہیں۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ بی جے پی صرف اور صرف ہندوتوا کی سیاست کر تی ہے یا یوں کہئے کہ اس کو اس سیاست کے علاوہ کسی اور طرح کی سیاست کا تجربہ نہیں ہے اور یہ اس کی شناخت بھی بن چکی ہے اس لئے وہ اس کی مجبوری بھی ہے۔
پاکستان میں الطاف حسین نے مہاجر قومی موومنٹ یعنی ایم کیو ایم کے نام سے تحریک شروع کی اور سیاست میں اترے لیکن بعد میں سب کو ساتھ لے کر چلنے کے لئے انہوں نے اپنی پارٹی کا نام بدل کر مہاجر قومی موومنٹ کی جگہ متحدہ قومی موومنٹ کیا۔ الطاف حسین کے بارے میں آج سب کو معلوم ہے۔ اسدالدین اویسی کی سیاسی جماعت کا نام بھی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلیمین یعنی اے آئی ایم آئی ایم ہے تو وہ کسیے اس نام کے ساتھ مسلمانوں کے علاوہ دیگر طبقوں کے دبے کچلے لوگوں کی بات کر سکتی ہے اور ان کی پارٹی سے کیسے غیر مسلم چناؤ لڑ سکتا ہے جو مسلمانوں کے اتحاد کی بات نہیں بلکہ اپنے سماج کی فلاح و بہبود کی بات کرتا ہو یعنی اگر وہ لڑتا ہے تو صرف اور صرف انتخابی فائدہ کے لئے اویسی کے ساتھ ہے اور اگر اویسی کی پارٹی کسی غیر مسلم کو اپنی پارٹی کا ٹکٹ دیتی ہے تو وہ بھی صرف اور صرف انتخابی فائدہ کے لئے یعنی دونوں ہی دھوکہ دے رہے ہیں۔ اگر اویسی دھوکہ نہیں دینا چاہتے تو وہ الطاف حسین کی طرح اپنی پارٹی کا نام بدلیں یا پھر وہ صرف مسلمانوں کے اتحاد کی سیاست کریں۔
سیاسی گلیاروں میں یہ بات عام ہے کہ اتر پردیش میں بی جے پی کی حالت بہت خراب ہے اور اس کی بڑی وجہ سماج کے ہر طبقہ میں بڑھتی ناراضگی ہے۔ برہمن جن کو ہندوؤں کی اعلی ذات کہا جاتا ہے اور وہ بی جے پی کے ساتھ کہے جاتے ہیں وہ ریاست میں بڑھتے ٹھاکر واد کی وجہ سے ریاست کی حکومت سے ناراض ہیں اور وہ کسی ایک پارٹی کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ ریاستی حکومت اور بی جے پی کو اس بات کا احساس ہے، وہ چاہتے ہیں کہ برہمن تقسیم ہو جائیں اور تقسیم ہو کر ان کا کچھ حصہ بی ایس پی میں چلا جائے۔ اسی طرح ریاست کے مسلمان کسی ایک پارٹی کے ساتھ نہ چلے جائیں اس لئے وہ بھی تقسیم ہو جائیں اور ان کا کچھ حصہ اسد الدین اویسی کے حق میں چلا جائے۔ یادو اور دلت بھی سب میں تقسیم ہو جائیں اور بی جے پی ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آ جائے۔ ظاہر ہے ہر پارٹی اقتدار کے لئے یہ سب کچھ چاہتی ہی ہے۔
اس سب کے درمیان ان میں سے نہ تو کوئی مہنگائی کی بات کر رہا ہے، نہ ہی بے روزگاری کی بات کر رہا ہے، نہ کسانوں کی پریشانیوں کی ہی بات کر رہا ہے اور نہ ہی کوئی وبا کے اس دور میں طبی سہولیات کے فقدان کی بات کر رہا ہے۔ کانگریس پارٹی جو ان سب کی بات کر رہی ہے اس کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ اس کا تو ریاست میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ دراصل تقسیم کی سیاست جو کی جا رہی ہے وہ ان مدوں سے ہی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ اس حقیقت کا سب کو علم ہے کہ کانگریس جو مدے اٹھا رہی ہے وہی عوام کے مدے ہیں اور کہیں ریاست کی اکثریت ان مدوں کی وجہ سے کانگریس کے ساتھ نہ چلی جائے اس لئے ان کو تقسیم کیا جائے اور کانگریس کے وجود کو لے کر گمراہ کن پروپیگنڈا کیا جائے۔
ہندوستانی سیاست میں جب تک عوام کے مدوں کو ترجیح نہیں دی جائے گی جب تک ملک کے حالات نہیں بدلیں گے۔ جب تک ملک میں اویسی اور بی جے پی مذہب کی سیاست کرتے رہیں گے اور مایاوتی ذات کی سیاست کرتی رہیں گے اس وقت تک کسی کی بھی ترقی ممکن نہیں ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ سماج میں تفریق کی کھائی مزید چوڑی ہوتی رہے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔