یوپی انتخاب: فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا جواب تلاش کیے بغیر کوئی امید روشن نظر نہیں آتی
اب ہمارا سماج فرقہ وارانہ طور پر پوری طرح سے پولرائز ہو چکا ہے، ہمارے جیسے بہت سے ’تجزیہ کاروں‘ کو یہ خوش فہمی تھی کہ اس بار بی جے پی اتر پردیش میں ہندوؤں کا پولرائزیشن کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی۔
اتر پردیش کی عوام میں بی جے پی حکومت کے خلاف کئی طرح کی ناراضگیاں تھیں۔ زبردست بے روزگاری، مہنگائی، کسانوں کا غصہ، کورونا بحران کے دوران ناکامیاں، لاک ڈاؤن میں تپتی سڑکوں پر سینکڑوں میل ننگے پیر سفر، فصلیں چرتے آوارہ مویشی، وغیرہ وغیرہ۔ انتخابی نتائج میں ہمیں اس ناراضگی کا اثر نہیں دکھائی دیا تو اس کی کوئی بڑی وہج ہوگی۔ کیا یہ مانا جائے کہ بی جے پی کا انتخابی مینجمنٹ حیرت انگیز ہے؟ کیا بی جے پی اور بی ایس پی میں کوئی اندرونی معاہدہ تھا، یا بی جے پی نے کسی خفیہ پالیسی کے تحت بی ایس پی کا پورا ووٹ بینک ہضم کر لیا؟ ایسے کچھ اور بھی سوال سامنے رکھے جا سکتے ہیں۔
مجھے تو لگتا ہے کہ اب ہمارا سماج فرقہ وارانہ طور پر پوری طرح سے پولرائز ہو چکا ہے۔ ہمارے جیسے بہت سے تجزیہ کاروں کو یہ خوش فہمی تھی کہ اس بار بی جے پی اتر پردیش میں انتخاب سے پہلے ہندو پولرائزیشن کرانے میں کامیاب نہیں ہو پائی۔ انتخابی نتائج سے آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ بی جے پی پولرائزیشن تو پہلے ہی کرا چکی ہے اور وہ سماج میں گہرائی تک داخل ہو چکی ہے۔ اس سے آنکھ لڑانے کی ضرورت ہے، چرانے کی نہیں۔
اس تلخ حقیقت کو قبول کرنے کے لیے صرف مغربی اتر پردیش کے انتخابی نتائج پر نظر ڈال لیجیے۔ بڑے زور و شور سے ہم کہہ رہے تھے کہ ایک سال سے بھی زیادہ چلی کسان تحریک نے ایک بڑا کام یہ کیا ہے کہ 2013 کے فسادات کے وقت سے مغربی اتر پردیش میں جو جاٹ اور مسلم دو قطبوں پر جا کھڑے ہوئے تھے وہ پھر سے ایک ہو گئے ہیں۔ جاٹ-مسلم اتحاد کو بی جے پی کی شکست کا اشارہ مانا جا رہا تھا۔ بلکہ یہ تک کہا جا رہا تھا کہ باقی ریاست میں بھلے ہی بی جے پی بھرپایئ کر لے، لیکن مغربی یوپی اور روہیل کھنڈ میں اسے بہت بڑا نقصان ہونے والا ہے۔ جاٹوں او رمسلمانوں کی یکمشت حمایت سماجوادی پارٹی-آر ایل ڈی اتحاد کو ملنے کی پیشین گوئی کے ساتھ یہ دعویٰ تقریباً سبھی دہرا رہے تھے۔ یہاں تک کہ بی جے پی بھی مان رہی تھی کہ مغرب میں اسے نقصان ہوا ہے۔ اب دیکھیے ذرا، نتیجے کیا کہہ رہے ہیں؟
نئے زرعی قوانین پر کسان بہت غصے میں تھے۔ یہ کسانوں کی زبردست ناراضگی ہی تھی کہ مرکزی حکومت کو قانون واپس لینے پڑے۔ اس تحریک میں اتر پردیش کے کسانوں کا بڑا کردار تھا۔ ایک وقت جب تحریک کمزور پڑنے لگی تھی تب راکیش ٹکیت کے آنسوؤں کے بہانے مغربی اتر پردیش کے کسانوں نے اس میں نئی جان پھونکی تھی۔ لکھیم پور میں کسانوں کے ساتھ مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ کے بیٹے اور ان کے حامیوں نے کیا کیا تھا؟ اگر سماجوادی پارٹی-آر ایل ڈی اتحاد (اس میں کچھ چھوٹی ذات والی پارٹیاں بھی شامل تھیں) مغربی اتر پردیش اور روہیل کھنڈ میں بھی بی جے پی کے ہاتھوں بری طرح شکست کھا گیا تو کیا نتیجے نکلتے ہیں؟ اکثریت برادری جاٹوں نے کسے ووٹ دیا اور کیوں؟
کووڈ کی دوسری لہر میں جو قہر برپا ہوا اور جسے یوپی حکومت کی ناکامیوں نے خطرناک شلک دے دی، وہ کیا اتنی آسانی سے بھول جانے والا واقعہ ہے؟ مریضوں کے لیے اسپتالوں میں جگہ نہیں تھی، لاشوں کے لیے شمشان گھاٹوں میں جگہ نہیں تھی، اور لکڑی بھی ختم ہو چکی تھی۔ ندیوں میں بہتی اور ریتی میں دفن لاشوں کا سچ کیسے چھپ سکتا ہے؟ اس پر بھی مودی-یوگی یہ کہتے ہیں کہ کورونا بحران میں ہم نے سب سے اچھا انتظام کیا، آکسیجن کی کمی کے سبب کوئی نہیں مرا اور دنیا نے بھی اس کے لیے ہماری تعریف کی اور اس بات کو عوام سچ مان کر انھیں ووٹ دیتی ہے، تو اس کا کیا مطلب ہے؟
غریبوں کو مفت راشن اور ان کے بینک اکاؤنٹ میں چھ مہینے تک دو دو ہزار روپے جمع کرنے سے ہی بی جے پی کی یہ بڑی کامیابی نہیں ہوئی۔ ہاں، اس نے پولرائزیشن کو مزید مضبوط کیا۔ اصلی وجہ وہ فرقہ واریت پر مبنی بنٹوارا ہے جسے یوگی نے اپنی تقریروں میں ’اسّی بنام بیس‘ کی لڑائی کہا تھا۔ ہم کہہ رہے تھے کہ بی جے پی اس انتخاب میں ہندو-مسلم نہیں کر پائی، لیکن یوگی-مودی-شاہ اور دوسرے بی جے پی لیڈران کیا تقریر کر رہے تھے؟ ’قبرستان کی چہاردیواری‘، ’صرف عید پر بجلی دینے والی سابقہ حکومت‘، ’دہشت گردوں کو پناہ دینے والی پارٹی‘ وغیرہ جملے ووٹروں کے دماغ کے کس حصے پر کھٹ کھٹ کر رہے تھے؟ کاشی وشوناتھ دھام کا عظیم الشان (ادھورا) افتتاح اور ایودھیا میں رام مندر کا مودی کے ذریعہ سنگ بنیاد رکھا جانا جب قومی نشریوں میں چھایا ہوا تھا تو وہ ’دِویہ دَرشن‘ کس کو کرائے جا رہے تھے؟
خواتین کے خلاف متعدد سنگین جرائم کے باوجود، جن میں بڑے بی جے پی لیڈران خود شامل پائے گئے تھے، اگر مودی-یوگی-شاہ کا یہ دعویٰ عوام مان لیتی ہے کہ اتر پردیش میں خواتین پوری طرح محفوظ ہیں اور جرائم پیشے بے حال ہو گئے ہیں تو اس کی کوئی بڑی وجہ تو ہوگی۔ سماج کی اس فرقہ وارانہ تقسیم میں امید یہ ہے کہ سماجوادی پارٹی نے بی جے پی کو اچھی ٹکر دی۔ وہ سماج کی اس نفرت پر فتح حاصل نہیں کر سکی، لیکن بڑھتی فرقہ واریت سے متفکر اور اس کی مخالفت کرنے والی عوام کے بھروسے کا مرکز وہ ضرور بنی۔ کانگریس کو تو پورے ملک میں اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کے لیے بہت جدوجہد کرنی ہوگی۔ مایاوتی کی سیاست یہاں سے کدھر جائے گی، یہ سوال بھی منھ کھولے کھڑا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔