حق کی لڑائی لڑنے والوں کو نمائندہ منتخب کرنے کا موقع... نواب علی اختر
عوام کو ایک اچھے نمائندہ کو منتخب کرنے کا موقع ملا ہے۔ اگر اب بھی سماج نے بے حسی کا مظاہرہ کیا تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ ایسے لوگوں کو فرقہ پرستی کے زہر میں گھٹ گھٹ کر مرنے کی عادت ہوگئی ہے۔
آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی سیاست میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ انتخابات سے عین قبل کئی جماعتوں کے قائدین اپنی پارٹی سے ترک تعلق کرتے ہوئے بی جے پی کی صفوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ تاہم اس بار اترپردیش میں حالات اس کے برعکس ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ چار دنوں میں بی جے پی کے تقریباً ایک درجن ارکان اسمبلی نے پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ ان میں تین ریاستی وزیر بھی شامل ہیں۔ ویسے تو گوا اور اتراکھنڈ میں بھی ایک ایک وزیر نے بی جے پی کو چھوڑ کر کانگریس میں شمولیت اختیار کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : اقلیتوں کو ڈرا کر اقتدار ہتھیانے کی کوشش!... نواب علی اختر
اترپردیش کی سیاست ملک کی سیاست کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور یہاں جس تیزی سے حالات تبدیل ہو رہے ہیں، اس نے بھگوا خیمے میں بھونچال لا دیا ہے۔ جو قائدین بی جے پی سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں ان کی اکثریت دلتوں اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ قائد پسماندہ طبقات میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اس صورتحال نے بی جے پی کی نیند اڑا دی ہے اور خود وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے علاوہ مرکزی قائدین بھی صورتحال پر فکرمند ہیں۔ ریاست کے کئی قائدین کو انحراف کرنے والوں کو منانے کی ذمہ داری دی گئی ہے تاہم ابھی تک یہ کوششیں کامیاب نہیں رہی ہیں۔ حالات کی حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ جو اپنے اقتدار کے دوران کسی کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں تھے، خود دلتوں کے گھر پہنچ کر کھانا کھانے لگے ہیں۔
ویسے تو تقریباً ہر انتخابات کے موقع پر بی جے پی کے قائدین دلتوں کے گھر کھانا کھانے پہنچ جاتے ہیں اور اس موقع کی تصویروں کی خوب تشہیر کی جاتی ہے تاکہ انتخابات میں فائدہ اٹھایا جاسکے۔ تاہم وزیراعلیٰ یوگی کا دلت کے گھر جانا ہر بار کی طرح نہیں ہے۔ اس بار ان کی پارٹی سے دلت اور پسماندہ طبقات کی جو دوری ہو رہی ہے اس نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ وہ اپنی رضا مندی سے نہیں بلکہ سیاسی مجبوریوں کے تحت وہاں پہنچے ہیں۔ یوگی تو خود کو سب سے افضل سمجھتے ہیں۔ وہ اب تک کسی کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں تھے۔ اپنی ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزراء اور ارکان اسمبلی تک کے لیے دستیاب نہیں تھے۔ ان کی نمائندگیوں کو برف دان کی نذر کر دیا کرتے تھے۔
اب جبکہ یہ قائدین اپنی ہتک محسوس کرتے ہوئے بی جے پی سے دور ہوگئے ہیں اور یوگی کو اپنے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہونے لگی ہے تو وہ کھانا کھانے کسی دلت کے گھر پہنچ گئے ہیں۔ یہ عوام کو گمراہ کرنے اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہی کہی جائے گی۔ آثار و قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ اترپردیش کے دلت اور پسماندہ طبقات ان کے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔ بی جے پی میں کھلبلی کی ایک اور بھی وجہ ہے اور وہ ریاست میں کانگریس پارٹی کی نوجوان اور پرکشش قیادت ہے جس نے آزادی کے 75 سال بعد ایک بار پھر عوام کو ان کے درمیان سے ایک اچھے شخص کو منتخب کرنے کا موقع دیا ہے۔
اترپردیش اسمبلی انتخابات میں خواتین پر ظلم، بے روزگاری، طبی سہولیات جیسے مثبت موضوعات اٹھانے والی اترپردیش کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے جمعرات کے روز 125 امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کی، جس میں حقوق کی لڑائی کو زندہ کرنے والوں کو منظرعام پر لانے کے ساتھ ساتھ تمام طبقات کو اہمیت دی گئی ہے اور کانگریس کا پہلا عزم کہ ہم 40 فیصد سیاسی حصہ داری خواتین کو دیں گے، اسی کے تحت 125 سیٹوں میں 50 ٹکٹ خواتین طاقت کو دیئے گئے ہیں۔ اترپردیش میں نصف آبادی کے خلاف ظلم کی نئی حکمت عملی کے ساتھ الیکشن لڑنے کا اعلان کرنے والی کانگریس نے اپنے نعرہ ’لڑکی ہوں، لڑسکتی ہوں‘ کوعملی جامہ پہنانے کی سمت ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ کانگریس کی اس فہرست کی بڑی بات یہ ہے کہ اس میں 88 ٹکٹ ایسے لوگوں کو دیئے گئے ہیں جو پہلی بار الیکشن لڑیں گے یعنی 70 فیصد ایسے لوگوں کو امیدوار بنایا گیا ہے جو کبھی الیکشن نہیں لڑے۔
اسمبلی انتخابات کے لیے جن خواتین کو کانگریس نے نامزد کیا ہے وہ سبھی حق کے لیے لڑنے والی ’مردانی‘ ہیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ کانگریس نے اناؤ میں عصمت دری متاثرہ کی ماں آشا دیوی کو ٹکٹ دیا ہے۔ پرینکا گاندھی کے اس فیصلے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس کا مقصد مظالم کا شکار ہونے والوں کو طاقت کے بل بوتے پر طاقت دے کر ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہے اور پارٹی اس کام میں ہر مظلوم شہری کی بھرپور مدد کرے گی۔ خواتین کو بااختیار بنانا اور انہیں مرکز میں لانے کی پہل سے جہاں نصف آبادی کو حوصلہ ملے گا، وہیں پارٹی کے کارکنان میں نئے سرے سے اعتماد بحال ہوگا۔ لیڈرشپ کو نظر انداز کرکے کارکنان کو ترجیح دینے کا فیصلہ جرأت مندانہ قدم کہا جاۓ گا۔ اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ ملک کی سب سے پرانی پارٹی میں اشراف حاوی رہے ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کارکنوں کو وہ اہمیت نہیں مل پاتی تھی جس کے وہ حقدار تھے۔ اس صورتحال کو پرینکا گاندھی نے شاید بخوبی سمجھا اور یہ سوچ بدلنے کے لیے خواتین، نوجوانوں، طلباء کے ساتھ ساتھ ہرطبقہ کے جدوجہد کرنے والوں کو خاطر میں لانے کا فیصلہ کرکے پارٹی کو ایک بار پھر مضبوطی کے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش کی۔
ریاست کی سیاست میں اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ انتخابی فائدے کے لیے ذات برادری کے نام پر عام لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کرکے سماج کو تقسیم کیا گیا، خواتین کو نظر انداز کیا گیا، بے روزگار کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا لیکن رواں الیکشن میں بڑی تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں۔ اترپردیش میں پہلی بار شدت کے ساتھ بے روزگاری، طبی سہولیات اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ کانگریس کی طرف سے اترپردیش میں حقوق کی لڑائی لڑنے والی خواتین کو آگے آنے کا موقع دیا گیا ہے۔ آشا بہنوں کے حق کی لڑائی لڑنے والی پونم پانڈے کو شاہجہان پور سے امیدوار بنایا ہے۔ اسی طرح سی اے اے کے خلاف تحریک کا چہرہ رہیں صدف جعفر کو لکھنو سے امیدوار بنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : اتر پردیش میں ہندوتوا سیاست خطرے میں... ظفر آغا
آزادی کے بعد پہلی بار زمین پر کانگریس کو کھڑا کرنے کی کوشش اہم ہے، ووٹ ملنا، جیتا، ہارنا اتنا اہم نہیں ہے مگر سب سے بڑی اور قابل تعریف بات یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں اب تک جس بڑے طبقے کو محض ووٹ کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں، پرینکا کی قیادت میں کانگریس پارٹی نے انہیں عوام کا نمائندہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بھی دھیان رہے کہ کانگریس کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ گزشہ انتخابات میں سماجوادی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے کانگریس کے 7 امیدوار کامیاب ہوئے تھے اور اس میں سے 5 ممبران اسمبلی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ تمام سروے کانگریس کی بہتر کارکردگی کے اندازے پیش کر رہے ہیں اس لئے کانگریس کھونے کے بجائے بہت کچھ پاتی نظر آرہی ہے۔ ان حالات میں ایک اچھے نمائندہ کو منتخب کرنے کا موقع ملا ہے۔ اگر اب بھی سماج نے بے حسی کا مظاہرہ کیا تو یہی کہا جاۓ گا کہ لوگوں کو فرقہ پرستی کے زہر میں گھٹ گھٹ کر مرنے کی عادت ہوگئی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔