وقت بے وقت: شجاعت بخاری مارڈالے گئے،اس وقت کون کس کے لئے کیادعاکرے ؟
شجاعت بخاری کا قتل اس دن کیا گیا جس دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی رپورٹ میں کشمیر میں ہندوستانی ریاست کی زیادتیوں کو اجاگر کیا گیا تھا۔
’’شجاعت بخاری مارڈالے گئے‘‘، یہ خبر گولی کی طرح کانوں میں پہنچی۔ خبرکے معنی ٰ سمجھنے میں کچھ وقت سکتے میں گزر ا۔شجاعت کی خاموش،بلندرہنے والی آوازاب کبھی سننے کونہیں ملے گی۔یہ سوچنابھی مشکل تھالیکن یہ سچ تھاکہ کشمیرکی عوام نے اپنا حقیقی ہمدرد کھو دیاہے۔ہندوستان نے بھی ایک ایساثالث گنوادیاجواس کے سرکاری تشددپرکسی طرح کاسمجھوتہ کئے بغیرتنقیدکرتے ہوئے بھی اس کے ساتھ سب سے اچھے اندازمیں بات چیت کی وکالت کرتاتھا۔شجاعت کی شکل میں پوری دنیا نے ایسی آنکھیں کھودی ہیں جن سے وہ کشمیرکودوست کی طرح دیکھ اورسمجھ سکتی تھی۔
یہ قتل ہے، جو تشدد کی انتہا ہے۔کس نے شجاعت کاقتل کیا، یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوا ہے، کسی نے ذمہ داری نہیں لی ہے۔ایک کشمیری رہنما نے اس لئے اسے پراسرار قتل کہاہے ۔آخراس قتل سے کس کوفائدہ ہوگا؟ کشمیر میں تشدد کے جتنے ذرائع سرگرم ہیں،یہ کہنامشکل ہے کہ شجاعت پربرسائی گئی گولیاںان میں سے کہاں سے آئی تھیں۔ایک باراخوان نے ان کا اغوا کیاتھا جوسرکاری دہشت گردی کاگروہ ہے۔دوسری باران کااغوادہشت گردوں نے کیاتھالیکن وہ انہیں مارنہیں سکے تھے۔
شجاعت کاقتل عیدکے آخری جمعہ کی شب کوکیاگیا،اس سے یہ ظاہرہوتاہے کہ جس نے بھی یہ کیااس میں کسی طرح کاکوئی لحاظ نہیں ہے۔یہ کہناکہ دہشت گردی کایہ ایک اور خاتمہ ہے، اس حقیقت کو چھپاتا ہے کہ دہشت گردی اپنے آپ میں انسانیت کے خاتمے کا اشارہ ہے۔ کیونکہ ایک وقت تک اس کے تشدد کا ایک مقصددکھائی پڑتاہے لیکن اس کے بعدوہ تشددکوتلاش کرتی رہتی ہے۔جس کے ہاتھ میں بندوق ہے اور جوگولی چلانا اپنا حق سمجھتا ہے، وہ اپنے آپ میں ریاست ہی ہے خواہ وہ کسی ریاست کے اقتدار کے خلاف لڑنے کا دعویٰ کرتی ہو۔ باقی تمام نہتے اسی طرح اس کے رحم پر ہیں جیسے وہ ریاست کے رحم پر ہوتے ہیں۔
شجاعت بخاری کا قتل اس دن کیا گیا جس دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ جاری ہوئی تھی جوکشمیرمیں ہندوستانی ریاست کی زیادتیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔اس بین الاقوامی تنقیدسے حکومت ہندغصے میں تھی ۔لیکن یہ رپورٹ ایک ایسے ادارے کی تھی جس کارکن خودہندوستان بھی ہے اورجوپوری دنیامیں اپنی کمزوریوں کے باوجودحقوق انسانی کی حفاظت کی کوشش کرتا تھا۔کشمیرسے متعلق یہ رپورٹ ایک بنیادبن سکتی تھی جس پرکھڑے ہوکرحکومت کوجواب دہ بنانے کی بحث آگے لے جائی جاسکے۔
جب یہ موقع آیا تھا کہ حکومت ہندکوجواب دیناپڑرہاتھا،عین اسی وقت شجاعت بخاری کے قتل سے آخرکیاحاصل کیاجاناتھا؟ظاہرہے اب سارادھیان اس قتل کی واردات پر اوراس کامقصدتلاش کرنے پرمرکوز ہوگیاہے۔اس سے یہ واضح ہے کہ اس قتل سے کشمیرمیں حقوق انسانی کی وکالت یااس کی خودمختاری کی مہم کوکوئی مددنہیں ملی ہے۔بلکہ وہ سوال اس لئے پس پشت چلاگیاہے کہ اب کہاجاسکتاہے کہ سرکاری سختی میں نرمی کایہی نتیجہ ہوتاہے۔
بخاری کوئی توازن پسند نہیں تھے، ثالت نہیں تھے۔وہ انصاف اور امن کے حامی تھے، وہ تشدد کے خلاف تھے۔اس لئے ہمیشہ ہی سرکاری تشدد یا فوج کی زیادتی کی وہ تنقیدکیاکرتے تھے۔لیکن امن کے چھوٹے چھوٹے امکانات کوبھی وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیناچاہتے تھے۔ان کے لئے لوگوں کی زندگی اہم تھی،اس کی قیمت پر،اس کی قربانی دے کرکوئی بھی بڑامقصدحاصل کیاجاسکتاہے،یہ بخاری نہیں مانتے تھے۔
کشمیرجیسی جگہ پراس اصول پرچلناکتنامشکل ہے،اس کا شجاعت کے حشرسے بخوبی اندازہ کیاجاسکتاہے جنہوں نے پہلے امن کی بات کرنے کی کوشش کی۔اس سلسلے میں منوج جوشی نے’وائر‘کے اپنے مضمون میں میرواعظ فاروق،عبدالغنی لون اورپھرفضل حق قریشی کے قتل کی یاددلائی ہے جوہندوستانی ریاست کے طرفدارنہ تھے لیکن امن چاہتے تھے۔
شجاعت بخاری نے تقریباً مہینہ بھر پہلے ’اسکرول‘کے اپنے کالم میں صاف طورپریہ کہاتھاکہ حکومت پربھروسہ نہیں کیاجاسکتاکیونکہ آج تک اس نے امن کوصرف وقت کواورلمباکھینچنے کے طورپراستعمال کیاہے۔ کشمیری عوام اس کی ترجیح نہیں ہیں،کشمیرپراپنااختیارہے پھربھی چونکہ فوج کی کارروائیوں کی وجہ سے تشددکاایک ایساسلسلہ شروع ہوگیاہے جس میں معمولی لوگ اپنی جان گنوارہے ہیں۔رمضان کے موقع پرحکومت کی طرف سے پرتشددکارروائیاں معطل کرنے کی تجویزاس لئے منظورکی جانی چاہئے کہ اس کے سہارے ایساماحول تیارکیاجاسکتاہے جس سے قیدیوں کی رہائی اورسیکورٹی کے نام پربنے قوانین کے استعمال پربات کی جاسکے۔شجاعت حکومت کواس کی جواب دہی سے کسی بھی طرح آزادکرنے کے حق میں نہیں تھے لیکن وہ’آزادی‘کی تحریک کے رہنماؤں کوبھی یہ کہہ رہے تھے کہ اس موقع کوہاتھ سے نہیں جانے دیناچاہئے ورنہ یہ ثابت ہوگاکہ تشددکے جاری رہنے میں ان کاذاتی فائدہ ہے۔
کیااس وجہ سے شجاعت کوخاموش کردیاگیا؟یاجیسامنوج جوشی کہتے ہیں،اس کے پیچھے حکومت کاہاتھ ہے جیساکہ پہلے ڈاکٹرعبدالحمدگرواورڈاکٹرفاروق آشائی کے قتل میں شبہ کیاگیاتھاجن کے قاتل گمنام تھے اوررہے؟۔
شجاعت بخاری نے ایک بار کہاتھا کہ کشمیر جیسی جگہ میں اکثریہ سب کچھ پراسرارہی رہ جاتاہے۔زیادہ امکان اسی بات کاہے کہ ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکے گاکہ شجاعت کوخاموش کرنے میں کس کافائدہ تھا؟۔
شجاعت بخاری کشمیرجیسے تشددسے متاثرعلاقے میں اپناایک مقام بناسکے تھے جوآسان نہیں تھا۔یہ مقام پھراورکوئی کب حاصل کرسکے گایہ کہنامشکل ہے۔ایک طرف ہندوستانی ریاست ہے جوصرف اپنے حامی چاہتی ہے اوردوسری طرف دہشت گردی ہے جواپنے پیروکارکے علاوہ اورکسی کوقبول کرنے کوتیارنہیں ہے۔ان دونوں کے درمیان شجاعت بخاری جیسی آوازکی جگہ تنگ سے تنگ ہوتی جارہی ہے جس میں شجاعت کاخون بہہ کرجم گیاہے۔اس وقت کون کس کے لئے دعاکرے؟۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔