ایک ملک-ایک انتخاب: توجہ ہٹانے کا حربہ یا جمہوری عمل میں خلل؟

ایک ملک-ایک انتخاب کا خیال سیاسی اور آئینی پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اسے نہ صرف سپریم کورٹ میں چیلنج ہونے کا امکان ہے بلکہ پارلیمنٹ میں بھی یہ منصوبہ ناکام ہو سکتا ہے

<div class="paragraphs"><p>پولنگ مرکز کی فائل تصویر / یو این آئی</p></div>

پولنگ مرکز کی فائل تصویر / یو این آئی

user

انورادھا رمن

'ایک ملک-ایک انتخاب' کا تصور مختلف سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے اور اس پر شدید اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ خیال کہ تمام ریاستی اور قومی انتخابات ایک ساتھ کرائے جائیں، نہ صرف آئینی چیلنجوں کا سامنا کر سکتا ہے بلکہ سیاسی طور پر بھی اس کی راہ میں رکاوٹیں موجود ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی جمہوریت کے لیے بہتر ہے یا صرف عوامی توجہ ہٹانے کی ایک چال ہے؟

سیاسی دانشوروں کا ماننا ہے کہ یہ منصوبہ صرف حکومت کی توجہ ہٹانے کی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ اس میں سب سے بڑی تنقید یہ ہے کہ اسے ایک چھوٹے طبقے، خاص طور پر متوسط طبقے کی خواہش قرار دیا جا رہا ہے، جو ایک ساتھ انتخابات کو آسان سمجھتا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بڑے پیمانے پر انتخابات کے انعقاد سے جمہوریت کی روح متاثر ہو سکتی ہے، کیونکہ ریاستی سطح کے مسائل قومی سطح کے مسائل کے نیچے دب سکتے ہیں۔

اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے کم از کم پانچ آئینی ترامیم کی ضرورت ہوگی۔ سابق لوک سبھا سیکرٹری پی ڈی ٹی آچاریہ کے مطابق، آئین کے آرٹیکل 83، 85، 172، 174 اور 356 میں ترامیم درکار ہیں۔ ان ترامیم کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوگی، جو کہ فی الحال بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس نہیں ہے۔ مزید یہ کہ ان ترامیم کی منظوری کے بعد بھی انہیں 50 فیصد ریاستوں کی منظوری حاصل کرنی ہوگی، جو کہ غیر بی جے پی ریاستوں کی مزاحمت کے باعث ممکن نظر نہیں آتی۔

اس پر عوام کا ردعمل بھی خاصا اہم ہے۔ مشہور سیاسی رہنما اسد الدین اویسی نے اس منصوبے کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے اسے عوام کے لیے غیر موزوں قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابات سے صرف وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو تھکن ہوتی ہے جبکہ عوام انتخابات کے منتظر رہتے ہیں۔ سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کہتے ہیں کہ ’’غریب طبقے کے لیے انتخابات کا وقت ایک خوشی کا موقع ہوتا ہے۔ چھتیس گڑھ میں ایک بار ایک خاتون نے مجھ سے کہا تھا کہ چناؤ ہوتا ہے تو غریب کے پیٹ میں پلاؤ آتا ہے۔‘‘


سیاسی لحاظ سے اس منصوبے کا مقصد شاید قومی جماعتوں کو فائدہ پہنچانا ہو سکتا ہے، کیونکہ ریاستی انتخابات میں عوامی مسائل پر توجہ دی جاتی ہے جبکہ قومی انتخابات میں یہ مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ایک ساتھ انتخابات سے علاقائی جماعتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو مخصوص ریاستی مسائل پر الیکشن لڑتی ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر اوڈیشہ کے اسمبلی انتخابات لوک سبھا انتخابات کے ساتھ نہ کرائے جاتے تو شاید بیجو جنتا دل کا مظاہرہ بہتر ہوتا۔

اقتصادی لحاظ سے یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ ایک ساتھ انتخابات کرانے سے اخراجات میں کمی آئے گی۔ لیکن سابق لوک سبھا سیکرٹیری پی ڈی ٹی آچاریہ کے مطابق، صرف انتخابات کے انعقاد کا خرچ مرکزی حکومت کے بجٹ کا محض 0.02 فیصد ہوتا ہے، جو کہ عوام کے جمہوری حقوق کی اہمیت کے مقابلے میں نہایت معمولی رقم ہے۔ مزید برآں، اگر حکومت واقعی اخراجات کم کرنے میں سنجیدہ ہے، تو کیا وہ انتخابی فنڈنگ کو حکومتی سطح پر لانے کے لیے تیار ہے؟

اس منصوبے کی تائید میں مختلف ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں جیسے کہ جرمنی، سویڈن، جاپان وغیرہ، لیکن ان ممالک کی آبادی اور سیاسی نظام ہندوستان کی نسبت بہت چھوٹے اور سادہ ہیں۔ ہندوستان کے کثیر الثقافتی اور متنوع سماجی ڈھانچے میں ایک ساتھ انتخابات کا انعقاد جمہوری عمل کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔

آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ اس منصوبے کا مقصد وفاقی ڈھانچے کو کمزور کرنا ہو سکتا ہے۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے اپنے خط میں اس منصوبے کو غیر عملی اور وفاقی نظام کے منافی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مرکزی حکومت کسی بھی وجہ سے ناکام ہو جاتی ہے اور نئے انتخابات کی ضرورت پیش آتی ہے، تو کیا تمام ریاستوں کے انتخابات دوبارہ ہوں گے؟

مجموعی طور پر، 'ایک ملک-ایک انتخاب' کا منصوبہ نہ صرف سیاسی طور پر متنازعہ ہے بلکہ آئینی اور اقتصادی چیلنجوں سے بھی بھرا ہوا ہے۔ یہ منصوبہ جمہوریت کو بہتر بنانے کے بجائے توجہ ہٹانے کا ایک حربہ معلوم ہوتا ہے اور اس پر عمل درآمد کے امکانات کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔