ندائے حق: یورپی یونین کی مجوزہ فوج... اسد مرزا
حالیہ امریکی فیصلوں کے بعد یورپی یونین نے ایک مرتبہ پھر EU فوج کے قیام کی بابت سرگرمیاں تیز ہوچکی ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا منفی اثر پوری دنیا کی دفاعی پالیسیوں پر مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔
گزشتہ دو مہینوں کے دوران امریکی صدر جوبائیڈن کے دو فیصلوں نے یورپی ممالک کی دفاعی اور اسٹریٹجک حکمت عملی پر اپنے اثرات مختلف انداز میں مرتب کیے ہیں۔ جہاں ایک جانب افغانستان سے قبل از وقت امریکی افواج کے انخلا پر ان کی نکتہ چینی خود امریکی فوج اور سینٹ کے علاوہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں ہو رہی ہے، وہیں AUKUS کے اعلان کے بعد ایک ایسے ملک کو جوہری صلاحیت مہیا کرانے پر جو کہ ابھی تک جوہری صلاحیت نہیں رکھتا ہے، جو بائیڈن کی سخت مخالف اور نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ چند دیگر ممالک اور تنظیموں نے اپنے دفاع کے لیے خود مختار ہونے کے منصوبے بنانے شروع کر دیئے ہیں۔
ان حالات کے پس منظر میں جس تجویز پر سب سے زیادہ بحث ہو رہی ہے وہ ہے یورپی یونین یعنی ای یوکی جانب سے اپنی نئی فوج تشکیل دینے کی بات۔ ای یو فوج کے حق میں مطالبہ کرنے والے ممالک کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے دفاع کے لیے خود پر انحصار کرنا چاہیے ناکہ امریکہ پر۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ ای یو کو ایک ایسی فوج تشکیل دینی ہے جو کہ سرعت رفتاری کے ساتھ حملہ آور ہوسکے اور جو یورپی ملکوں کے باشندوں کی حفاظت کو اولین ترجیح دے اور اسے یقینی بناسکے۔
یورپی یونین کی صدر ارسلا ون ڈیرلیئن (Ursula von der Leyen)کے مطابق ہمیں افغانستان میں امریکہ کی جانب سے لیے گئے یکطرفہ فیصلے سے سبق لینا چاہیے اور یورپی ممالک میں ای یو فوج کی تشکیل کے لیے سیاسی فکر کو مضبوط بنانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ای یو کو ایک ایسی فوج تشکیل دینی ہے جو کہ مستقبل میں کسی بھی بحران کے دوران سرعت سے کام کرسکے۔ حال ہی میں یورپین پارلیمنٹ کے سالانہ اجلاس میں اپنی تقریر میں ارسلا نے کہا کہ اس سلسلے میں وہ ناٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹالٹن برگ (Jens Stoltenberg)سے بھی رابطہ میں ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ گزشتہ چند ایک ہفتوں میں اس موضوع پر مختلف یورپی دارالحکومتوں میں کافی سنجیدہ بحث و مباحثہ شروع ہوچکا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم سنجیدہ طور پر اس فیصلے کو حل کرنے کے لیے اپنی اجتماعی طاقت اور وسائل کا استعمال شروع کر دیں۔ لیکن ان کے بقول اس سلسلے میں بنیادی مشکل اجتماعی سیاسی فکر اور اسے عملی جامہ پہنانے میں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر آپ کے پاس ایک جدید اسلحہ سے لیس فوج موجود ہو لیکن اگر آپ میں صحیح وقت پر صحیح فیصلہ لینے کی طاقت نہیں ہے تو ایسی فوج آپ کے لیے بالکل بے کار ہے۔ انھوں نے پرزور انداز میں کہا کہ اگر ہم اجتماعی سیاسی فکر اور یورپی جذبہ قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہم ای یو کی سطح پر بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔ ارسلا کے مطابق وہ ناٹو کے سکریٹری جنرل اسٹالین برگ کے ساتھ ’ای یو اور ناٹو‘ کے درمیان دفاعی تعلقات پر ایک نئے اعلامیہ پر کام کر رہی ہیں جو کہ اس سال کے آخر تک منظرِ عام پر آجائے گا۔ فی الوقت چھ یورپی ممالک: آسٹریا، پولینڈ، فن لینڈ، آئیر لینڈ، مالٹہ اور سویڈن ای یو کے کسی بھی دفاعی اتحاد میں شامل نہیں ہیں۔
ای یو صدر کے علاوہ حال میں جن ملکوں نے کسی نئی ای یو فوج کی حمایت کی ہے اس میں فرانس سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ ماضی میں جرمنی نے بھی اس تجویز کی حمایت کی تھی۔ لیکن فرانس کا حالیہ رویہ امریکی فیصلوں کی بنیاد پر لیا جا رہا ہے کیونکہ فرانس کا ماننا ہے کہ AUKUS سے اسے باہر رکھ کر اور آسٹریلیا کے ساتھ اس کے سمندری آبدوز مہیا کرانے کے دفاعی سودے کو منسوخ کروا کر امریکہ نے صرف انگریزی بولنے والے ملکوں کی طاقت میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : عالم اسلام کو طالبان نہیں ’تونس ماڈل‘ کی ضرورت... ظفر آغا
گزشتہ ہفتے ہی فرانس نے گریس کے ساتھ ایک نئے دفاعی اور اسٹریٹجک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کے مطابق دونوں ملک بحروہ روم اور اگین سمندر میں ایک دوسرے کی دفاعی مدد کریں گے۔ اس کے علاوہ گریس نے فرانس سے 18 رافیل جنگی طیارے اور تین جنگی بحری فری جیٹ خریدنے کا بھی کروڑوں ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ اس سے قبل گریس امریکی بوینگ کمپنی کے F-16 خریدنے کی بابت بھی امریکہ سے بات چیت کر رہا تھا، لیکن AUKUS کا اعلان ہونے کے بعد اس نے امریکہ کے بجائے فرانس سے طیارے اور بحری جہاز خریدنے کو ترجیح دی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حالیہ عرصے میں یورپی ممالک میں امریکہ پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے یورپی ہم سایوں کے ساتھ دفاعی شعبے میں اشتراک میں اضافہ کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
ای یو کی صدر کے مطابق ای یو کو کسی بھی نئی فوج کو ناٹو اور اقوامِ متحدہ کی فوجوں پر انحصار کیے بغیر اپنے آپ کو خود کفیل بنانا ہوگا اور اس کے لیے سیاسی عزم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ان کی اس توجیہ کی حمایت کرتے ہوئے جرمنی کی وزیر دفاع نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ یورپی ممالک کی دفاع اب اس میں شامل ملکوں کی سیاسی فکر اور عزم پر منحصر ہے اور اس میں جرمنی اور فرانس کو قائدانہ رول ادا کرنا ہوگا۔ یعنی کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکہ نے جس طریقے سے دنیا پر اپنی سبقت قائم کرلی تھی وہ اب تقریباً ختم ہوتی نظر آرہی ہے کیونکہ حالیہ عرصے میں زیادہ تر یورپی ممالک نے مختلف موضوعات اور خاص طور پر دفاعی شعبے میں امریکی پالیسیوں کی نکتہ چینی کرنا شروع کردی ہے، یعنی کہ ایک مرتبہ پھر یورپی قوم پرستی کی باتیں شروع ہوچکی ہیں، کیونکہ فرانس کے صدر میکرون سمیت زیادہ تر سیاسی یورپی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ قوم پرستی ہی انھیں اقتدار میں برقرار رکھ سکتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ تمام یورپی ممالک اپنی ایک نئی فوج بنانے کی فراق میں ہیں۔ ای یو کے 27 رکن ممالک میں سے کئی اس تجویز پر سوالیہ نشان لگا چکے ہیں۔ جن میں سابق کمیونسٹ ملک جیسے پولینڈ، رومانیا، یوگوسلاویہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یورپین ملکوں کو ایک دوسری الجھن کا بھی شکار ہونا پڑ رہا ہے کہ وہ اس مجوزہ فوج کو روس کے خلاف کس طرح استعمال کرپائیں گے، کیونکہ ان میں سے اکثر جیسے کہ جرمنی، آسٹریا، ہنگری کے علاوہ اور بہت سے یورپی ممالک روس پر اپنی صنعتوں کو چلانے کے لیے روس پر بجلی یا توانائی کے لیے کافی حد تک انحصار کرتے ہیں۔ اور وہ نہیں چاہیں گے کہ دفاعی شعبے میں کسی نئی حکمت عملی کے سبب ان کے اور روس کے صنعتی تعلقات پر کوئی منفی اثر ثبت ہوسکے۔
اس کے علاوہ ناٹو کے سکریٹری جنرل اسٹولن برگ کے بقول کوئی بھی کثیر ملکی نئی فوج قائم کرنے میں بہت زیادہ رکاوٹیں حائل ہیں۔ خود ای یو کے قوانین سب سے پہلے آپ کے راستے میں آئیں گے اس کے علاوہ جتنے بجٹ کی ضرورت ہے، کئی ممالک شاید ہی وہ پورا کرپائیں کیونکہ زیادہ تر ای یو ملکوں نے گزشتہ دس سالوں میں اپنے دفاعی بجٹ میں کافی کمی کی ہے اور اگر اب وہ اسے بڑھاتے ہیں تو عوامی پروگراموں کے بجٹ پر ان کا منفی اثر مرتب ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر ملک کے انتظامی اور دفاعی قوانین بھی دقت پیش کرسکتے ہیں۔
اس سے قبل 1999 میں بھی اس طرح کی تجویز پر کافی گفت و شنید کے بعد ای یو نے ایک منصوبہ بنایا تھا، جس کے تحت ای یو کو تقریباً 50 سے 60 ہزار فوجیوں پر مشتمل فوج تشکیل دینا تھی۔ جو کثیر سرعت کے ساتھ کہیں بھی تعینات کی جاسکے۔ 2007 میں ای یو نے اپنے ہر رکن سے 1500 فوجیوں کے دو دستے تیار کرنے کی تجویز پیش کی تھی لیکن وہ بھی ٹھنڈے بستے میں پڑ گئی۔ کیونکہ یہ فوجی دستے کہیں بھی تعینات نہیں کیے جاسکے۔
مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ تجویز شرمندہ تعبیر ہوپاتی ہے یا نہیں ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یورپی ممالک کا ردِ عمل امریکی فیصلوں کے بعد ہی آیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ دنیا ایک مرتبہ پھر دونوں جنگ عظیم کے بعد رونما ہونے والے حالات کا ایک مرتبہ پھر شکار ہوسکتی ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ کسی بھی ملک کے حق میں نہیں ہوگا۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کی بھی رائے یہی ہے کہ یہ مجوزہ فوج قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹیں وقت اور بجٹ کی ہوں گی۔ کیونکہ اس طرح کی کسی بھی تنظیم کو قائم کرنے کے لیے کم از کم دس سے پندرہ سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ اور جس طریقے سے ای یو کا ردِ عمل سامنے آیا ہے، وہ انگریزی بولنے والے ممالک کی دفاعی سبقت کو ختم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ رواں سال کے درمیان میں جب صدر جو بائیڈن ای یو کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے برسل آئے تھے، اور وہاں پر ٹرانس -اٹلانٹک رشتوں کو مضبوط کرنے کی جو حمایت کی تھی، اس پر کوئی عملی جامہ پہنانے کی جانب ان کی طرف سے کوئی بھی اقدام نہیں لیا گیا اور اگر امریکہ اور یورپین ممالک کے درمیان تعلقات ناخوشگوار ہوجاتے ہیں تو اس کا زیادہ منفی اثر امریکہ پر ہی ہوگا بجائے یورپین ممالک کے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔