دلتوں کا پتھراؤ نتیش کو مہنگا پڑا
بکسر کے نندن گاؤں میں بہار کے وزیر اعلیٰ کے قافلے پر پتھربازی کی خبر میڈیا کی سرخیوں میں رہی۔ لیکن اس کے بعد گاؤں کے دلتوں پر پولس نے جو قہر برپا کیا وہ میڈیا سے پوری طرح غائب رہا۔
کیا بکسر ضلع کے نندن گاؤں کا واقعہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی سیاسی اونچائیوں کے زوال کا آغاز ہے؟ نندن گاؤں میں پولس کے مظالم کی شکار خواتین کی روداد سن کر یہ سوال پیدا ہونا لازمی ہے۔ بہار کی سیاست میں سب سے کم مستقل حامیوں کے باوجود نتیش کمار گزشتہ 13 سالوں سے مقبول وزیر اعلیٰ ہیں۔ سب سے کم مستقل حامی اس لیے کہ وہ جب جب تنہا انتخاب لڑتے ہیں، کامیابی نہیں ملتی ہے۔ اس حالت میں ان کے فیصلوں نے انھیں مقبول بنایا ہے۔ ان کے ذریعہ تیار کردہ سیاسی اقدام کے دو سب سے اہم حصے خواتین اور مہادلت طبقہ رہے ہیں... اور نندن گاؤں میں یہ دونوں ہی... یعنی خواتین اور مہا دلت طبقہ پر مظالم ہوئے ہیں۔
آخر واقعہ کیا تھا؟
12 جنوری 2018 کو نندن گاؤں میں بہار کے وزیر اعلیٰ کے قافلے پر پتھربازی کی خبر میڈیا کی سرخیوں میں چھائی رہی۔ لیکن اس کے بعد گاؤں کے دلتوں پر پولس کے قہر کی خبر اہم میڈیا ذرائع سے پوری طرح غائب رہی۔ اس خبر کو بحث کا موضوع بنانے کا کام سوشل میڈیا نے کیا۔ ضلع پولس اور وزیر اعلیٰ کی سیکورٹی میں لگے جوانوں نے وزیر اعلیٰ کی تقریب کے بعد خوب قہر برپا کیا۔ تقریباً 300 آبادی والے دلت بستی میں، جہاں مہادلت طبقہ کے مسہر، روی داس، پاسی اور پاسوان ذات کے لوگوں کی زیادہ تعداد ہے، خوب مار پیٹ کی گئی۔ مرد پولس عملہ نے خواتین کو بھی نہیں بخشا اور گھروں میں گھس کر خواتین سمیت کئی لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
پتھر بازی کی وجہ کیا تھی؟
نتیش کمار اپنی ’سمیکچھا یاترا‘ کے دوران بکسر کے نندن گاؤں پہنچے تھے۔ ’سمیکچھا یاترا‘ کا مقصد بہار حکومت کے سات نکاتی منصوبہ پر ہوئی کارروائی سے متعلق جاننا تھا۔ بہت زیادہ تشہیر کیے گئے ان کے ’سات نشچے یوجنا‘ میں خواتین کو سرکاری ملازمت میں 35 فیصد ریزرویشن، نوجوانوں کے لیے اسٹوڈنٹ کریڈٹ کارڈ، خود مختاری بھتہ، یونیورسٹی اور کالجوں میں مفت وائی فائی کی سہولت، ہر گھر تک صاف پانی پہنچانے، ہر گاؤں کو پختہ سڑک دینے اور 2016 کے بعد ہر گھر تک مفت بجلی کنکشن پہنچانے کی بات کی گئی ہے۔
نندن گاؤں کی دلت بستی میں نل تو لگ گئے تھے لیکن ان سے پانی نہیں آتا تھا اور نہ پانی کے نکلنے کے لیے نالی ہی بنی تھی۔ وزیر اعلیٰ گاؤں کے سفر میں اس بستی کی جانب گئے بھی نہیں۔ اسی سے ناراض اور اپنی بستی کا حال بتانے کے لیے دلت خواتین کا ایک گروپ ان سے ملنے گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ ان سے ملے بغیر ہی جانے لگے، اسی وقت وہاں موجود بھیڑ نے ان کے قافلے پر پتھر بازی کر دی۔
ممبر اسمبلی نے بھیڑ کو مشتعل کیا
دیہی لوگوں نے بتایا کہ ایک دن پہلے علاقے کے ممبر اسمبلی ددن پہلوان ان سے ملنے آئے تھے۔ خفیہ محکمہ نے پہلے ہی سے متنبہ کر دیا تھا کہ اس گاؤں میں غیراطمینانی کا ماحول ہے۔ عوام نل لگ جانے اور پانی نہیں آنے، نالی اور سڑک کی تعمیر نہیں ہونے سے ناراض تھے۔ اس کے علاوہ کچھ دن پہلے ہی وہاں کے مکھیا ببلو پاٹھک کے گھر سے شراب پکڑے جانے کی بات سامنے آئی تھی، لیکن مکھیا پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور حیرت انگیز طور پر وزیر اعلیٰ کا پروگرام بھی اسی مکھیا کے گھر پر رکھا گیا تھا، اس سے بھی عوام میں ناراضگی تھی۔
اسی ناراضگی کو دبانے کے لیے ددن پہلوان دلت بستی کے لوگوں کے درمیان گئے تھے اور انھیں وزیر اعلیٰ کی تقریب میں شامل ہونے کے لیے مدعو کیا تھا۔ انھوں نے لوگوں سے کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ کے دورہ کے دوران ان کا ایک نمائندہ وفد اپنی بات کہہ سکتا ہے۔ اس دعوت نامہ پر ہی خواتین کا ایک گروپ وہاں پہنچا تھا جہاں گاؤں میں جلسہ کے پہلے وزیر اعلیٰ رکے تھے۔ غالباً وزیر اعلیٰ کے ذریعہ نمائندہ وفد سے ملنے سے انکار کے بعد دیہی عوام مشتعل ہو گئی۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ ممبر اسمبلی نے اسی درمیان ایک بزرگ خاتون اور نوجوان کو زور سے دھکا دے دیا جس سے بزرگ خاتون زخمی ہو گئی۔ اسی بات سے بھیڑ کی ناراضگی اوربڑھ گئی اور انھوں نے وزیر اعلیٰ کے قافلے پر پتھر برسانا شروع کر دیا۔
دیہی عوام پر قہر
گاؤں میں سیلف ہیلپ گروپ کی خزانچی انجو کہتی ہیں ’’وزیر اعلیٰ جی ہم لوگوں کے گھر آئے بھی نہیں جب کہ وہ ہمارا حال دیکھنے آئے تھے۔ وہ بڑے لوگوں کے دروازے پر ہی رکے۔ وہ اسی جگہ پر گئے جہاں نالی، سڑک اور پانی کی ٹنکی کا کام ہوا تھا۔ ہمارے محلے کے لوگ کام نہ ہونے سے مایوس تھے۔ ہم لوگ تو نتیش بھیا کو اپنا درد بتانے گئے تھے۔ ہمارے ٹولے میں نالی نہیں بنی ہے، نل سے پانی نہیں آتا ہے۔ وہاں ہنگامہ مچ گیا اور بعد میں ممبر اسمبلی اور پولس کے لوگوں نے ہم لوگوں کے ساتھ مار پیٹ کی۔ گھروں میں گھس کر دلت خواتین کو گھسیٹا گیا۔ پولس نے میرے اوپر، میری 14 سالہ بیٹی کے اوپر اور میرے شوہر کے اوپر مقدمہ درج کر دیا۔ میرے شوہر عرب میں رہتے ہیں، وہ اس دن بیرون ملک میں ہی تھے، یہاں موجود ہی نہیں تھے۔‘‘
وزیر اعلیٰ کے قافلے پر ہوئی پتھربازی کے بعد خود ایس ڈی ایم نے دیہی عوام کے اوپر مقدمہ درج کرایا ہے۔ درجنوں لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے۔ نامزد لوگوں کی فہرست یہ ظاہر کرتی ہے کہ الزامات کسی پر بھی عائد کر دیے گئے ہیں، اس میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو اس دن گاؤں میں تھے ہی نہیں بلکہ عرب ممالک میں ملازمت کر رہے تھے۔ متاثرین اور نامزد لوگوں میں بڑی تعداد میں خواتین بھی شامل ہیں۔ گاؤں کے آج بھی کئی گھروں میں تالا لگا ہواہے۔ لوگوں نے ایک گھر میں تالا دکھاتے ہوئے کہا کہ ’’یہ پوری فیملی گاؤں میں آنے کی ہمت نہیں کر پا رہی ہے جب کہ یہ دلت وزیر کے رشتہ دار کا کنبہ ہے۔‘‘
وزیر اعلیٰ پر حزب اختلاف حملہ آور
دلتوں اور دلت خواتین پر پولس کے مظالم کے خلاف حزب اختلاف نے حملہ آور رخ اختیار کیا ہوا ہے۔ نوجوان لیڈر کی شکل میں اپنی مضبوط گرفت بنا رہے تیجسوی یادو نے گاؤں کا دورہ کیا تو نتیش کمار کی پارٹی سے بغاوت کرنے والے شرد یادو اور علی انور نے 31 جنوری کو گاؤں میں دلت مہا پنچایت بلا لیا۔ دلت مہاپنچایت میں مظلوم دلت خواتین نے خصوصی طور پر اپنی بات رکھی۔ جس دن مہاپنچایت تھی، گاؤں میں خبر پھیل گئی کہ حکومت نے گرفتار لوگوں کی ضمانت کی مخالفت نہیں کی ہے، حالانکہ رپورٹ لکھے جانے تک صرف خواتین کو ہی ضمانت مل سکی تھی۔ دلت مہاپنچایت میں شامل دہلی یونیورسٹی کے پرنسپل رتن لال کہتے ہیں ’’جب کسی کی سیاست ناکام ہو جاتی ہے تو وہ ظالمانہ رویہ اختیار کر لیتا ہے۔ نتیش کمار کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔‘‘ دوسری طرف جنتا دل یو کے باغی ممبر پارلیمنٹ شرد یادو کہتے ہیں ’’نتیش کمار ایک محلے کی ترقی کا تجزیہ نہیں کر پا رہے ہیں تو پوری ریاست کا کیا کریں گے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔