پارٹی کو مضبوط بنانے کے لیے بی جے پی کی نئی چال

Getty Images
Getty Images
user

تنویر احمد

فتح کے رَتھ پر سواری کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اس وقت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا یونین انتخابات میں شکست فاش اور دہلی، پنجاب و کیرالہ کے ضمنی اسمبلی انتخابات کے نتیجہ نے بی جے پی کوبدحواس کر دیا ہے۔ دوسری طرف گجرات میں جس طرح راہل گاندھی نے کانگریس میں نئی جان پھونک دی ہے اور بی جے پی پر لگاتار حملہ آور ہیں، نریندر مودی اور امت شاہ کا پریشان ہونا لازمی ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ گجرات اسمبلی انتخابات میں اگر انھوں نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو آئندہ سال دیگر ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات اور پھر 2019 کے عام انتخابات پر اس کا منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ پرکشش جملوں، جھوٹے وعدوں اور ہندو-مسلم کارڈ کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرنے والی بی جے پی کو اپنی حالت بد کا اندازہ ہونے لگا تھا یہی سبب ہے کہ اس نے خود کی ساکھ بچانے کے لیے بہت پہلے سے نئی پالیسی پر کام کرنا شروع کر دیا ہے یا یوں کہیں کہ ووٹروں کو بے وقوف بنانے کے لیے نیا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ بی جے پی نے یہ کام اس قدر چالاکی سے کیا کہ کسی کی توجہ اس طرف گئی ہی نہیں۔

بی جے پی نے اپنی اس مہم کے تحت مخالفین کو کمزوربنانے کانیا طریقہ اختیار کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹی کے بڑے اور عوام میں مقبولیت رکھنے والے لیڈروں کو توڑ کر انھیں نئی پارٹی بنانے کے لیے مجبور کرنا۔ اسی مہم کے تحت جب گجرات میں شنکر سنگھ واگھیلا اور ان کے حامیوں نے کانگریس سے دامن چھڑایا تو بی جے پی نے انھیں اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش نہیں کی۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ راجیہ سبھا سیٹ کے لیے ہوئی ووٹنگ میں جن لوگوں نے احمد پٹیل کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ان میں شنکر سنگھ واگھیلا بھی شامل تھے۔ ان کے فیصلوں نے بی جے پی کو جس طرح سے مضبوط بنانے کا کام کیا تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ لیکن بی جے پی نے اپنی پالیسی کے تحت ہی واگھیلا کو پارٹی میں شامل کرنے کی کوشش نہیں کی اور جس کی سبب ایک نئی پارٹی ’جن وِکلپ مورچہ‘ منظر عام پر آئی۔

بی جے پی کی اس سوچ کو اس کی مہم کا حصہ اس لیے قرار دیا جا سکتا ہے کہ حال ہی میں مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ نارائن رانے اور مغربی بنگال کے سینئر لیڈر مکل رائے نے بالترتیب کانگریس اور ترنمول کانگریس کا ساتھ چھوڑا اور بی جےپی سے قربت بڑھا لی۔ لیکن بی جے پی نے دونوں میں سے کسی کو اپنی پارٹی میں شامل نہیں کیا۔ نارائن رانے نے ’مہاراشٹر سوابھمان پکش‘ کے نام سے نئی پارٹی کا اعلان کیا (ساتھ ہی این ڈی اے میں شامل بھی ہو گئے) اورممکن ہے مکل رائے بھی کچھ ایسا ہی قدم اٹھائیں۔ حالانکہ مکل رائے نے نئی پارٹی بنانے سے انکار کیا ہے لیکن سیاست میں تو جھوٹ چلتا ہی ہے۔ ایسا اس لیے کہا جا سکتا ہے کیونکہ مغربی بنگال کے بی جے پی انچارج کیلاش وجے ورگیہ سے ملاقات کے بعد بھی مکل رائے بی جے پی میں شامل نہیں کیے گئے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ پارٹی اُن کا دوسری طرح سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نےایک ہفتہ قبل نارائن رانے کو ’اُن کا حق‘ دینے کی بات کہہ دی ہے اور کیلاش وجے ورگیہ نے بھی مکل رائے کو ساتھ لے کر چلنے کا واضح اشارہ دے دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں... مہاتما گاندھی کو برا بھلا کہنا بی جے پی کی عادت میں شامل

اس طرح کی پالیسی بی جے پی نے بہار کی سیاست میں بھی اختیار کی تھی جب نتیش کمار کے بھروسہ مند اور سابق وزیر اعلیٰ جیتن مانجھی کو بی جے پی نے اپنے جال میں پھنسایا تھا۔ اس وقت مانجھی نے وزیر اعلیٰ کے عہدہ سے استعفیٰ دیا اور بی جے پی کے حق میں باتیں کرنے لگے۔ بی جے پی کے کئی اہم لیڈروں سے ان کی ملاقات بھی ہوئی۔ لیکن بی جے پی نے انھیں اپنی پارٹی میں شامل نہیں کیا بلکہ انھیں ایک نئی پارٹی بنانے کے لیے مجبور کیا جو این ڈی اے میں شامل ہو۔ ایسا ہی ہوا اور اس کا فائدہ بی جے پی کو پہنچتا بھی لیکن کانگریس-آر جے ڈی-جے ڈی یو کے اتحاد نے پورے معاملے پر پانی پھیر دیا۔

آئیے اب اس بات پر غور کرتے ہیں کہ اس پالیسی کے تحت کس طرح بی جے پی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ بی جے پی کو پارٹی کے اندر کسی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ گویا کہ نظریاتی سطح پر کوئی لیڈر بی جے پی سے الگ ہو تو بھی پارٹی کو کسی طرح کی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ علاوہ ازیں نئی پارٹی تشکیل دینے کی صورت میں پرانی پارٹی سے تعلق رکھنے والے کارکنان بھی کثیر تعداد میں نئی پارٹی سے جڑیں گے اور ان میں بی جے پی مخالفین بھی شامل ہوں گے۔ جب کہ بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے سے کچھ خاص حامی ہی ساتھ آئیں گے۔ اس پالیسی کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ بی جے پی کے کٹر ووٹر بی جے پی کو ہی ووٹ دیں گے لیکن بی جے پی مخالف ووٹروں کا ووٹ کئی پارٹیوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ بھی مذکورہ پالیسی کے کئی چھوٹے بڑے فائدے ہیں، جیسے کسی مخالفت کی صورت میں یا رسّہ کشی کے بعد کبھی بھی اُس پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کی جا سکتی ہے۔

ویسے تو یہ پالیسی بی جے پی ملک گیر پیمانے پر اختیار کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے لیکن فی الحال گجرات کے ماحول میں دیکھا جائے تو پارٹی نے بہت چالاکی کے ساتھ کانگریس کو نقصان پہنچانے کا راستہ نکال لیا ہے۔ شنکر سنگھ واگھیلا گجرات میں بڑا چہرہ ہیں اور اب جب کہ انھوں نے اسمبلی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ کانگریس کا ووٹ کاٹنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ایسا اس لیے کہا جا سکتا ہے کیونکہ بی جے پی کے کٹر ووٹر دوسری طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کریں گے اور واگھیلا چونکہ کانگریس کو چھوڑ کر آئے ہیں تو ساتھ ہی بے شمار کانگریس کارکنان کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ یعنی وہ پوری طرح سے کانگریس کو نقصان پہنچانے والے ہیں۔ دوسری طرف عام آدمی پارٹی نے بھی ڈیڑھ سو سیٹوں پر انتخاب لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور یہ ظاہر سی بات ہے کہ عام آدمی پارٹی کو کوئی بی جے پی ووٹر ووٹ دینے والا نہیں۔ یعنی اس کا نقصان بھی کانگریس کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ اس طرح بی جے پی نے تو اپنی چال چل دی ہے، اب گجرات کی عوام کو سمجھنا ہے کہ انھیں کس پالیسی کے ساتھ ووٹنگ کرنی ہے۔ اگر گجرات میں بی جے پی کی یہ پالیسی ناکام ہو گئی تو یقیناً اس کے قدموں سے صرف گجرات کی زمین نہیں کھسکے گی بلکہ پورے ملک میں پارٹی کے لیے زلزلہ کا سا ماحول پیدا ہو جائے گا۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 Oct 2017, 9:34 PM