نیتن یاہو کے باوجود فلسطین ایک حقیقت تھی اور رہے گی!
اسرائیلی فوج نے لبنان کے شہر بیروت میں فلسطینی پناہ گزین ٹھکانوں پراندھا دھند بمباری شروع کردی تھی۔ فلسطین حریت تحریک کے روح رواں یاسر عرافات اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہے تھے۔
یہ ذکر ہے سن 1980 کی دہائی کے شروعاتی دور کا۔ اس وقت کا ہندوستان ہی کیا، دنیا ہی الگ تھی۔ اندرا گاندھی اپنے جاہ وجلال کے ساتھ اقتدار میں تھیں ۔ ادھر سابق سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوچکی تھیں ۔ ساتھ ہی اسرائیلی فوج نے لبنان کے شہر بیروت میں فلسطینی پناہ گزین ٹھکانوں پر اندھا دھند بمباری شروع کردی تھی۔ فلسطین حریت تحریک کے روح رواں یاسر عرافات اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہے تھے لیکن گھٹنے ٹیکنے کو تیار نہیں تھے۔ کچھ دنوں بعد بیروت پر اسرائیلی بمباری ختم ہوگئی اور سال بھر کے اندر ہندوستان میں نان الائنڈ ممالک کی ایک کانفرنس ہوئی۔
جیسا عرض کیا وہ دور ہی الگ تھا وہ ڈونالڈ ٹرمپ اور نریند مودی جیسے قائدوں کا دور نہیں تھا۔ اس دور میں انقلاب اور انقلابی لیڈروں کی ہی عزت ہوتی تھی ۔ ایسے حالات میں جب یہ خبر پھیلی کہ یاسر عرافات دہلی آنے والے ہیں تو دہلی کی میڈیا برادری میں ہلچل مچ گئی۔ میں اس وقت ایک نوجوان صحافی تھا۔ بس دل میں یہی ولولہ تھا کہ کسی طرح یاسر عرافات سے ملاقات ہو جائے۔ ایک ہم کیا پریس کلب آف انڈیا میں جس کو دیکھو ہر صحافی اس کوشش میں کہ کسی طرح عرافات کا انٹرویو مل جائے۔
خیر، عرافات دہلی پہنچے۔ میرے اخبار کی طرف سے مجھ کو بھی کانفرنس کور کرنے کو بھیجا گیا۔ کانفرنس کے دوسرے روز ہی میڈیا لاؤنج میں یہ خبر آئی کہ یاسر عرافات پریس کانفرنس کرنے والے ہیں۔ ہم اشوکا ہوٹل کے اس ہال میں بڑے جوش وخروش سے پہنچ گئے۔ ہمارے ساتھ وہاں ہمارے میڈیا گرو اور’ پیٹریوٹ‘ اخبار کے بیورو چیف جان دیال بھی موجود تھے۔ جلد ہی ہال کھچا کھچ بھر گیا۔ ذرا سی دیر میں یاسر عرافات پہنچ گئے۔
سیکنڈوں میں سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اسی بیچ جان دیال نے عرافات سے ایک سوال کیا جو آج بھی میرے ذہن میں نقش ہے۔ جان کا سوال تھا ’’چئیرمین عرافات، کیا میری زندگی میں فلسطین ریاست کا قیام ممکن ہے؟‘‘ عرافات عموماً ہر وقت بچوں کی طرح مسکراتے رہتے تھے۔ لیکن جب کوئی اہم بات ہو جائے تو یکایک وہ بے حد سنجیدہ نظر آنے لگتے تھے اور ان کی بڑی بڑی گول گول آنکھیں کچھ باہر کو نکل آتی تھیں اور ان سے ایک عجب سحر ٹپکنے لگتا تھا۔ جان کے سوال نے عرافات کو کچھ ویسے ہی موڈ میں کردیا۔ عرافات سنجیدہ ہوگئے۔ ان کی آنکھوں سے وہی سحر ٹپکنے لگا ۔ انہوں نے جان پر غور سے ایک نگاہ ڈالی، ایک لمحے کے لئے خاموش رہے اور پھر بولے ’’تمہاری زندگی میں ہی نہیں ، خود میری زندگی میں ریاست فلسطین قائم ہوجائے گی۔‘‘
وہ دور بدل گیا ۔ عرافات اب ایک قصہّ پارینہ ہو گئے۔ آج ان دنوں دہلی میں فلسطین کا ذکر بھی ذکرممنوع قرار ہوا۔ اس وقت تو اسرائیل کے وزیر اعظم اور ہمارے وزیر اعظم کے ’دوست‘ بنجامن نیتن یاہو اور نریندر مودی ایک دوسرے کے لئے بچھے جارہے ہیں۔ آج کی دنیا میں سوویت یونین صفحہ ہستی سے ہی ختم ہوچکا ہے۔ اب انقلابیوں کا زمانہ ختم ہوا۔ آج کا نوجوان ’مودی مودی‘ کی تسبیح پڑھتا ہے۔
لیکن اس تمام انقلاب زمانہ کے باوجود میرے ذہن میں جان دیال کا وہ سوال کہ’ کیا کبھی فلسطین ریاست کا وجود ہوگا کہ نہیں ‘ کہیں نہ کہیں وقتاً فوقتاً گونجتا رہتا ہے۔ آج کے عالمی ماحول میں تو یہ خواب بھی بے سود لگتا ہے۔ یہ وہ دور ہے کہ جب فلسطین کی دنیا میں کسی کو فکر ہی نہیں رہی تو پھر فلسطینی ریاست کا کیا ذکر۔ حد تو یہ ہے کہ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کے بارے میں یہ خبریں ہیں کہ وہ خاموشی سے اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں۔
لیکن اس ماحول کے باوجود پھر دل میں کہیں سرگوشی ہوتی ہے اور ذہن میں یہ خیال کوند جاتا ہے کہ جنگ آزادی کوئی دو دن کا کھیل نہیں۔ غلامی کی زنجیریں کاٹنے میں اکثر نسلیں خرچ ہو جاتی ہیں۔ بہادر شاہ ظفر سے جواہر لال کے آتے آتے ہندوستان کو بھی ایک عرصہ گزرا تھا۔ بھلے ہی عرافات اب نہ ہوں لیکن فلسطینیوں کی حریت آج بھی ویسے ہی رواں دواں ہے۔ ان کے جذبہ آزادی میں آج بھی فرق نہیں آیا ہے۔ تب ہی تو ابھی حال میں جب امریکہ نے اسرائیلی دارالخلافہ کو یروشلم ٹرانسفر کرنے کا اعلان کر دیا تو اور اس کے خلاف فلسطین کی طرف سے یو این او میں قرارداد پیش کی گئی تو چھ آٹھ چھوٹے چھوٹے گمنام ملکوں کے علاوہ کسی نے امریکہ کی حمایت نہ کی۔ حد یہ ہے کہ نریندر مودی حکومت کی بھی یہ مجال نہیں ہوئی کہ وہ اس معاملے پر امریکہ کی حمایت کرتا۔
بھائی جان دیال، بھلے ہی نیتن یاہو اس وقت چھاتی پھلا کر ہندوستان کا دورہ کر رہے ہوں لیکن آپ ناامید مت ہوئیے۔ فلسطینیوں کے جذبہ حریت کو دنیا کی کوئی طاقت کچل نہیں سکتی۔ بھلے ہی آپ کی اور میری زندگی میں فلسطین کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو لیکن یقین رکھیے ریاست فلسطین کو حقیقت بننے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ آج نہیں تو کل فلسطین ایک ایسی حقیقت ہوگی جس کو امریکہ بھی تسلیم کرے گا!
جنگ آزادی اور جذبۂ حریت کبھی بھی رائیگاں گیا ہے! تو پھر ریاست فلسطین کی حقیقت کو کون روک سکتا ہے۔ فلسطین ایک حقیقت تھا ہے اور رہے گا!
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 17 Jan 2018, 7:19 PM