ندائے حق: کیا پاکستان میں پھر حکومت تبدیل ہوگی؟... اسد مرزا
پاکستان کے حالیہ حالات اس بات کی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ وہاں جلد ہی حکومت تبدیل ہوسکتی ہے اور ایک مرتبہ پھر یا تو فوج یا پھر اس کا کوئی معتبر فرد پاکستان حکومت کی کمان سنبھال سکتا ہے
حالیہ عرصے میں پاکستان میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن کا اثر پاکستانی سیاست اور جمہوریت پر کافی دور رس ہوسکتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک پاکستانی نیوز ویب سائٹ فیکٹ فوکس نے ایک آڈیو کلپ اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا، جس میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار احتساب بیورو کے ایک جج سے یہ کہہ رہے تھے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم کو جیل میں بند رہنے دیا جائے۔ دوسرا واقعہ بھی تقریباً دس -پندرہ دن پرانا ہے اور اس میں پاکستانی حکومت نے ایک نوٹیفیکشن کے ذریعہ ممنوعہ مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان یعنی TLP کو ممنوع تنظیموں کی فہرست سے ہٹا دیا ہے۔
پہلے بات کرتے ہیں نواز شریف کی۔ گزشتہ ایک دو ماہ سے پاکستان میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستانی فوج کے اعلیٰ حکام اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان تعلقات خراب ہوتے چلے جا رہے ہیں اور یہ بھی کہ شاید فوجی حکام دوبارہ نواز شریف صاحب کو سیاست میں لانے کی کوشش کریں۔ ان سب افواہوں کے درپردہ، افغانستان میں رونما ہونے والے حالات، ISI کے چیف کو بدلنے کی کوششیں اور پالیسی اور نظریاتی ٹکراؤ کا کھیل شامل تھا۔
اس آڈیو کلپ کی، جس میں بظاہر نواز شریف کے خلاف سازش ہوتی صاف نظر آرہی ہے۔ فیکٹ فوکس کے بقول اس آڈیو کلپ کی گریٹ ڈسکوری نامی ایک امریکی کمپنی نے جانچ کی اور پایا کہ اس میں سابق جسٹس میاں ثاقب نثار کی آواز ہی ہے اور اس آڈیو کلپ کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی ہے۔ اپنے دفاع میں سابق جسٹس نثار کا کہنا تھا کہ یہ آڈیو کلپ جعلی ہے اور انھوں نے کبھی بھی احتساب کورٹ کے کسی جج کو اس طرح کے کوئی احکامات نہیں دیئے تھے۔ ان کی نواز شریف یا ان کی بیٹی سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور نہ ہی وہ کبھی بھی پاکستانی فوج یا ISIکے رابطے میں رہے ہیں۔ واضح رہے کہ آڈیو کلپ میں جسٹس نثار کو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ ہمیں ’اعلیٰ اداروں‘ کی بات ماننا ہوگی، کیونکہ درحقیقت اصل طاقت انھیں کے پاس ہے۔ جسٹس نثار کے حریفوں کا کہنا ہے کہ ’اداروں‘ سے ان کا مقصد فوج اور ISI سے ہے۔
اس آڈیو کلپ کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر جسٹس نثار کے خلاف بہت زیادہ پوسٹس ڈالی جاچکی ہیں۔ ادھر اس پورے معاملے پر پاکستانی عدلیہ دو گروپوں میں تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے۔ ایک گروپ جسٹس رانا شمیم کے ساتھ ہے، جنھوں نے کہا کہ جسٹس نثار کے خلاف کورٹ میں عرض داشت داخل کی تھی۔ دوسری جانب وہ گروپ ہے جو کہ جسٹس شمیم کے خلاف ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ دوسروں کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں۔
موجودہ حالات میں جس کا جو جی چاہے کہہ سکتا ہے لیکن اصل میں اس پورے واقعے نے پاکستانی عدلیہ کو ایک مرتبہ پھر کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے اور اس کی شبیہ بری طرح مسخ ہوگئی ہے، بالکل عمران خان کی طرح جنھوں نے 2018 میں ملک میں ایک صاف اور شفاف حکومت قائم کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
پاکستانی شدت پسند تنظیمیں
دوسری جانب عمران خان کی تحریک انصاف پاکستان (TIP)کی حکومت نے حال ہی میں شدت پسند مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان (TLP)کو ممنوعہ تنظیموں کی فہرست میں سے ہٹا کر اس پر عائد ساری پابندیاں ختم کر دی ہیں اور امید ہے کہ اس کے قائد حافظ سعد حسین رضوی کو بھی جلد ہی رہا کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے ساتھ بھی حکومت جلد ہی مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے والی ہے۔ حالیہ عرصے میں TTP نے سخت موقف اپناتے ہوئے پاکستانی سرحد کے شمال مغربی علاقے میں سیکورٹی فورسیز اور فوج پر کئی حملے کیے ہیں، ساتھ ہی TTPکے رہنما افغانستان میں امن قائم کرنے کے مسئلے پر بھی کافی منفی کردار ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔
پاکستانی حکومت کے اس حالیہ اقدام کی مذمت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک غلط نظیر قائم کی ہے۔ اب ہر کوئی ممنوعہ مذہبی تنظیم حکومتی اداروں کی پرواہ کے بغیر ملک کو مفلوج کرکے اور غیر یقینی صورتِ حال قائم کرکے، حکومت سے اپنی شرائط پر بے جا مطالبات منوا سکتی ہے۔ ایسا کرکے حکومت نے ایک طرح سے بھانومتی کا پٹارا کھول دیا ہے اور اب ملک کی 78 ممنوعہ تنظیمیں بھی اسی طرح کے مطالبات منوانے کے لیے کوئی بھی تحریک شروع کرسکتی ہیں، کیونکہ اب ان میں حکومت کا خوف ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس سلسلے میں اہل سنت والجماعت نے سپاہِ صحابہ اور شیعہ علما کاؤنسل نے تحریک جعفریہ پر عائد پاندیاں ختم کرنے اور ان کو بھی ممنوعہ مذہبی تنظیموں کی فہرست سے ہٹانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
ان دونوں واقعات نے عمران حکومت کو شدید طور پر متاثر کرنے کے علاوہ ان کی صاف ستھری شبیہ بگاڑنے کا بھی کام کیا ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں بھی شائع ہوتی رہی ہیں کہ پاکستان میں اصل حکومت عمران خان کی اہلیہ بشریٰ پیرنی کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کے علاوہ اگر پاکستان کی تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہوگا کہ وہاں ایک تکون یعنی کہ فوج،ISI اور سیاسی جماعتوں کی شراکت داری میں ہی حکومتیں قائم ہوتی ہیں اور چلتی ہیں۔ عمران خان کے فوج کے چیف جنرل باجوا سے تعلقات اس وقت سے خراب ہونا شروع ہوگئے تھے، جب گزشتہ اگست میں جنرل باجوا نے کشمیر مسئلہ کو سلجھانے کے لیے ہندوستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی پیروی کی تھی۔ اس کے بعد ISI کے نئے چیف کی تقرری کے معاملے پر بھی دونوں کے درمیان اختلاف تھا۔ اب مستقبل میں فوج پھر دوبارہ نواز شریف کو برسرِ اقتدار لاتی ہے یا نہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ مجموعی طور پر ان سب سیاسی کھیلوں کا منفی اثر صرف پاکستان کی جمہوریت اور وہاں کے عوام پر ہوتا ہے کیونکہ باقی سارے کھلاڑی یا ادارے اپنی جگہ قائم اور متحرک رہتے ہیں۔
پاکستان کے حالات
دراصل پاکستان قائم کرانے والے قائدین کی فکر تھی کہ وہ ایک ایسا اسلامی ملک قائم کریں جو کہ پوری دنیا میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہو اور اسلامی امور کی پاسداری کے علاوہ اس کی ترویج میں بھی کلیدی کردار ادا کرے۔ لیکن ایسا نہیں ہو پایا کیونکہ جس طرح ہندوستان میں زمین داری نظام کو ختم کرکے ایک سوشلسٹ نظام قائم کرنے کی کوشش کی گئی، وہ پاکستان میں ممکن نہیں ہوسکا، بلکہ وہاں کے وڈیروں یا زمین داروں نے سیاسی پشت پناہی حاصل کرکے اپنے آپ کو اور مضبوط کرلیا اور ساتھ ہی ساتھ وہاں فوج کے اختیارات میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ اپنے 70 سالہ وجود کے دوران پاکستان میں جمہوری حکومت بہت کم عرصے قائم رہی ہیں اور زیادہ عرصے فوج کسی نہ کسی شکل میں حکومت پر قابض رہی ہے۔
اس کے ساتھ ہی اپنے دورِ اقتدار میں فوج نے کبھی بھی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام نہیں کیا بلکہ صرف اپنے اور اپنے نزدیکی کاروباریوں کے مفاد کے لیے کام کیا۔ اگر ہم ورلڈ بینک کی 2019 کی ایک رپورٹ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ 200 ملکوں کی ایک فہرست میں پاکستان کے بعد صرف 38 ملک ایسے ہیں جن کی فی کس سالانہ آمدنی پاکستان سے کم ہے، جو کہ 2019 میں محض 1530 ڈالر تھی۔ بچوں کی شرح اموات میں پاکستان ان 200 ملکوں میں سب سے زیادہ آگے آتا ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی 1000 شرح پیدائش میں سے 70 بچے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی حکومت کے عوام پرست پالیسیوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے عوام کا کتنا خیال رکھتا ہے، ان میں دو شعبے صحت اور تعلیم سب سے زیادہ اثر رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اپنی GDPکا 4.05 فیصد دفاعی سازو سامان اور اسلحہ کی خرید پر خرچ کرتا ہے اور اس کے مقابلے میں صحت اور تعلیم پر GDPکا صرف 2 فی صد خرچ کرتا ہے۔
اگر ہم یہ کہیں کہ پاکستان کے عوام وہاں کی سیاسی صورت حال اور عدم استحکام کی وجہ سے غریب ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی وہاں کے سیاسی استحکام پر بھی منحصر رہتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی صورت میں آپ قومی اداروں کو کسی بھی طرح کنٹرول کرنے میں کامیاب رہتے ہیں اور ان اداروں کی نا اہلی کی وجہ سے آپ عدلیہ پر بھی منفی اثر ثبت کرتے ہیں اور اس سب کی وجہ سے عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے مستقل طور پر یا لمبے عرصے تک نہیں چل پاتے ہیں کیونکہ ہر تبدیلی کے بعد اقتدار میں آنے والے نئے کھلاڑی اس میں سے اپنے لیے بدعنوانی کے لیے ذرائع ڈھونڈھتے ہیں اور اس مجموعی صورت حال میں صرف ایک ادارہ یعنی کہ ملک کی فوج فائدے میں رہتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔