ندائے حق: کیا یہی ہمارا خواب تھا؟...اسد مرزا
ہندوستانی جمہوریہ نے گزشتہ 75 برسوں میں بہت کچھ حاصل کیا ہے، تاہم اکثریت اور اقلیت کے درمیان تعلقات آج بھی قومی سیاست کا مرکزی پہلو بنے ہوئے ہیں
گزشتہ اتوار کو آزادی کے 75 برس بعد اور بھارت کے ایک عوامی جمہوریہ بننے کے 73 برس بعد جوش کے احساس کو محسوس کرنے اور اپنے کارناموں کو مجتمع کرنے کے بجائے ہمیں اس سوال پر غور کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے کہ آیا یہ وہی ہندوستان ہے جس کا خواب ہمارے مجاہدین آزادی، قائدین اور معمارانِ دستور نے دیکھا تھا؟ آج ہم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ہندوستانی شہریوں کی ایک بڑی تعداد اپنے قانونی موقف اور مستقبل کے تعلق سے الجھن میں مبتلا ہے اور ساتھ ہی ہندوستانی سماج کے سیکولر اور شمولیاتی کردار کے تعلق سے بھی تشویش مند ہے۔ لاکھوں ناخواندہ افراد، بے زمین لوگ، پسماندہ طبقات اور درج فہرست قبائل و طبقات سمیت ملک کی ایک بڑی اکثریت کو اس سوال پر غور کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے کہ آیا ملک میں ان کی قانونی شناخت کیا ہے؟ حالانکہ وہ دستور کے اس دیباچہ کو پڑھتے ہیں: ’’ہم ہندوستان کے عوام سیکولر عوامی جمہوریہ ہیں اور اپنے تمام شہریوں کا تحفظ کرتے ہیں۔‘‘
حکومت وقت نے سارے ملک کو ایک ایسے شور اور ہنگامے میں ڈھکیل دیا ہے جہاں سے باہر آنا بہت مشکل ہوگا۔ اب ہر ایک کو ایک ہندوستانی شہری کی حیثیت سے اپنے وجود سے متعلق سوالات کا جواب دینا ہے۔ یہ ایک ایسا کٹھن اور جاں گسل کام ہے کہ اس کے لیے کئی برس درکار ہوں گے اور آبادی کا ایک بڑا فیصد مکمل طور پر ایک لاحاصل اور غیرمطلوب کام میں مصروف ہوجائے گا۔ حکومت نے پارلیمنٹ میں اپنی بھرپور اکثریت سے فائدہ اٹھا کر عوام کو ایک ایسے کام میں لگا دیا ہے کہ جس کے بارے میں خود اسے یقین نہیں ہے کہ کس طرح یہ پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔
ملک کے سب سے بڑے اقلیتی طبقہ کو گزشتہ دو سال میں اتنے چیلنجوں میں گھیر دیا گیا ہے کہ وہ الجھن اور تذبذب کا شکار ہے کہ وہ کیا کرے۔ مزید برآں وہ اس ہندوستان کا حصہ ہونے کی حقیقت سے ہم آہنگ ہونے کے لیے مشکل محسوس کر رہے ہیں جہاں ان طاقتوں کی حکومت ہے جو ہمیشہ اس کے خلاف رہی ہیں۔ لیکن اہم اور خاموش سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوگیا اور کس نے اس کی اجازت دی؟ ہمارے سامنے اس سے بھی زیادہ حساس اور خلجان میں ڈالنے والا سوال یہ ہے کہ آیا ہندوستان ابھی بھی حقیقی معنوں میں ایک سیکولر عوامی جمہوریہ ہے؟
ہندوستانی شہریوں کے درمیان موجود باہمی سماجی تعلقات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ وہ ضرورت اور مشکل کے وقت ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور اپنی تکلیف آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ صدیوں سے پرامن بقائے باہمی کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ یہ باہمی میل جول استعماری طاقتوں کی جانب سے دو نمایاں مذاہب کے درمیان تفریق ڈالنے سے پہلے تک قائم و دائم رہا تھا۔ اگرچہ یہ باور کیا گیا تھا کہ آزاد ہندوستان بلالحاظ ذات و برادری کے اپنے تمام شہریوں کو پھلنے پھولنے کا یکساں مواقع فراہم کرے گا لیکن حقیقت بڑی حد تک مختلف ہے۔ ینگ انڈیا کے لیے لکھتے ہوئے گاندھی نے سوراج کے حق میں آواز اٹھائی تھی۔ ینگ انڈیا مورخہ 16.04.1931 میں انھوں نے سوراج کی تشریح تمام عوام کی حکومت اور انصاف کی حکمرانی کے طور پر کی تھی۔
اقلیتوں نے ہمیشہ اسی زمین پر جدوجہد کی ہے جس زمین پر ملک کے اکثریت طبقے نے کی ہے اور ان کی قوم پرستی پر متعدد طعنوں کے باوجود انھوں نے اپنی مشقت جاری رکھی اور کئی ممتاز فرزندان اور دختران پیدا کیے جنھوں نے راکٹس سائنس سے لے کر تعلیم، صحت، سماجی خدمات اور تجارت تک ہر شعبے میں خود کو منوایا ہے۔ تاہم سیکولر ہونے کا سوالیہ نشان ہمیشہ ہر اقلیتی شہری کی گردن پر لٹکتا رہا ہے۔ درحقیقت اقلیتی طبقہ سے ہمیشہ ان کے اعتبار کو ثابت کرنے کا سوال کیا جاتا رہا ہے اور انھیں پاکستان چلے جانے کے لیے رائے دی جاتی ہے۔
آج ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر کسی کو زیادہ حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ اپنی ان داخلی پیچیدگیوں کے سبب ہو رہا ہے، جب نام نہاد سیکولر پارٹیاں اقتدار میں تھیں تو انھوں نے کبھی بھی سخت ہندوتوا عناصر پر لگام کسنے کی کوشش نہیں کی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے نرمی برتی اور ہر مذہب کے لیے مساوی حقوق کی بات کرتے ہوئے شدت پسند عناصر کو پروان چڑھایا، شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے دلوں کے اندر یہ خواہش بھی پنپتی رہی کہ وہ ایک دن ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ہندوستانی مسلمان آزادی کے بعد سے اب تک ایک طویل جاں گسل راستے پر چلتے رہے۔ تقسیم کے بعد پہلے 20 برسوں کی نسل اس آگ میں جھلستے ہوئے اپنے نقصانات کی پابجائی میں مصروف رہی اور بحیثیت ایک قوم اس کو درپیش مختلف چیلنجوں کا حل تلاش کرتے ہوئے ایک نئی جمہوریت میں اپنی بقاء کا سامان کرتے رہے۔ اس سفر کے دوران مسلم ملت کو اپنے کئی عظیم سپوتوں کو گنوانا پڑا جنھوں نے جدوجہد آزادی کے دوران ان کی رہنمائی اور نمائندگی کی تھی۔ اس کے بعد بدقسمتی سے قوم کی قیادت ان درمیانی سطح کے قائدین کے ہاتھ لگی جو صرف اپنی فلاح و بہبود کے لیے گامزن تھے۔
اس دور میں مسلم برادری کو تعلیمی پسماندگی کے ساتھ ساتھ معاشی انحطاط کا بھی سامنا کرنا پڑا، تاہم 70 کے دہے میں مشرقِ وسطیٰ میں روزگار کے باعث ان کے معاشی حالات میں کسی قدر سدھار آیا، لیکن دوسری جانب وقتاً فوقتاً ملک کے مختلف شہروں میں بار بار فسادات کروا کر ان کی معاشی کمر توڑنے کی کوششیں بھی بدستور جاری رہیں، غور کرنے کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر فسادات اس وقت ہوئے جب نام نہاد سیکولر پارٹیاں ریاست اور مرکز دونوں جگہوں پر برسراقتدار تھیں۔ 70 کے دہے کے بعد سے ملت نے اپنی معاشی ترقی کو مجتمع کرتے ہوئے تعلیم و سماجی خوشحالی کے راستے پر اپنے سفر کو آگے بڑھایا۔ 90 کے دہے میں ملک کی معیشت میں آنے والی مثبت تبدیلیاں بھی ملت کی ترقی میں مزید معاون ثابت ہوئیں اور ملت کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے ٹیکنالوجی بالخصوص آئی ٹی کے مختلف شعبوں میں ملٹی نیشنل کمپنیوں (ایم این سیز) میں ملازمتیں حاصل کرکے اپنا اور اپنی قوم کا نام آگے بڑھایا اور اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے کامیابی کے نئے راستے ہموار کیے۔
اس معاشی آزادی نے اور پیشہ وارانہ کامیابیوں نے ہماری موجودہ نسل کو اپنا مذہبی، سیاسی اور سماجی تشخص برقرار رکھنے میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو تقسیم کے بوجھ کے زیر اثر نہیں ہے اور جو مساوی طور پر اپنے دشمنوں سے ٹکر لینے کے لیے سماجی اور علمی طور پر بااختیار ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے ہندوتوا عناصر کو مایوس کیا ہے اور وہ اس نسل سے ڈرے ہوئے ہیں جسے اپنے تشخص یا اپنے مذہب کو درپیش چیلنج کا سامنا کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے۔ ساتھ ہی موجودہ نسل وہ نسل ہے جو اپنی ترقی اور مذہبی تشخص کے درمیان ایک توازن قائم رکھنے کے قابل بھی ہے۔
موجودہ تناظر میں ہمارے سیکولر اور جمہوری رہنماؤں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک میں نافذ کی جانے والی نئی پالیسیوں کے تعلق سے پارلیمنٹ اور دیگر فورمس میں سوال اٹھائیں، ساتھ ہی ساتھ ایک ایسی سیاست کو آگے بڑھانے کی جدوجہد کریں جس کے ذریعے ہم اپنے ملک کو اس کے معمارِ وطن کی خواہشات کے مطابق ایک بہتر ملک بنانے میں کامیاب ہوسکیں، جہاں سبھی قومیں مل جل کر ساتھ رہ سکیں اور ملک کی ترقی و بہبود میں یکساں کردار ادا کرنے کے ساتھ ہی موجودہ دور میں قوم کے مذہبی رہنماؤں اور اکابرین کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قوم کو صحیح سمت میں لے جانے کی کاوشیں اور تحریکات عملی طور پر شروع کریں اور اس کے لیے ان کو اپنے گروہی تنازعوں کو ختم کرنا پڑے گا اور مسلمانوں کو بحیثیت ایک قوم پیش کرنے کی اور آگے لے جانے کی کوشش شروع کرنا پڑے گی، جس سے کہ مسلم قوم دیگر اقلیتوں کی طرح ایک جگہ اور ایک آواز میں اپنے فیصلے کرسکیں اور ان کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کارگر طریقے سے بے اثر کرسکیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔