دہشت گردی پر پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی نہیں
ویسے تو پاک چین دوستی نئی نہیں ہے۔ لیکن سی پیک کے بعد یہ رومانس نیا ہے۔ پاکستان میں اب یہ سمجھا جا رہا ہے کہ سی پیک نے پاکستان اور چین کو ایک اٹوٹ بندھن میں باندھ دیا ہے۔بھارت کے حوالےسے پاکستان میں ایک نئی سوچ پیدا ہو رہی ہے۔ پاکستان اور چین کے اس اسٹریٹجک اشتراک سے بھارت ۔پاکستان اور چین کے نرغے میں آگیا ہے۔ ایک طرف چین دوسری طرف پاکستان درمیان میں بھارت۔ چین نے گزشتہ ایک سال کے دوران مسعود اظہر کے خلاف اقوام متحدہ میں قراردادیں ویٹو کر کے پاکستان کو اپنی بھارت دشمنی کا یقین بھی دلوا دیا تھا۔ لیکن کوئی مانے یا نہ مانے BRICSاعلامیہ نے پاکستان میں خطرہ کی گھنٹیا ں ضروربجا دی ہیں۔ اس کی تو توقع ہی نہیں تھی کہ جس فورم میں چین موجود ہو گا وہاں پاکستان کے خلاف ایسی متفقہ قرارداد آجائے گی۔
پاکستان تو ابھی امریکی صدر ٹرمپ کی تقریر کے دھچکے سے نہیں نکلا تھا کہ BRICS نے دھماکہ کر دیا۔ امریکہ سے علیحدگی کے بعد پاکستان خود کو روس کے قریب سمجھ رہا تھا۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کے روس جانے کی بھی خبریں تھیں اور ایسے میں یہ اعلامیہ آگیا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا چین بھی پاکستان کو امریکہ کی طرح دھوکہ دے گا۔ کیا چین پر بھی مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ خطرہ کی یہ گھنٹی صرف سیاسی حلقوں میں نہیں ہے بلکہ فوجی قیادت، سیاسی قیادت سے زیادہ پریشان ہے۔بات شروع ہوئی ہے کہ چین کے ساتھ بھی سب ٹھیک نہیں ہے۔جب بھارت نے چین میں ہونے والی ون بیلٹ ون روڈ کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا تو پاکستان میں جیت کے شادیانے بجائے گئے تھے۔ اب مودی چین پہنچ گئے اور پاکستان کے خلاف اعلامیہ آگیا تو سوگ کی فضا تو ہونی ہی تھی۔
BRICS پر پاکستان کا رد عمل ایک بوکھلاہٹ کا شکار تھا۔ وزیر دفاع نے اسے مسترد کیا اور وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں دوستوں کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ رد عمل میں یکسوئی بوکھلاہٹ کا ثبوت تھی۔ تا ہم چین نے پاکستان کے اندر اس فضا کو بھانپ لیا۔ اور پاکستان کے وزیر خارجہ کو ان کے باقاعدہ شیڈیول دورہ سے ایک دن قبل ہی چین بلا لیا۔ ایسا سفارتی سطح پر کم ہی ہوتا ہے۔ لیکن چین کے لئے پاکستان کم اہم نہیں ہے۔ چین اس وقت پاکستان کو ناراض نہیں کر سکتا۔ پاکستان کے پاس بھی واپسی کے راستے ہیں۔ وہ دوبارہ افغانستان میں امریکہ کے لئے گیم کھیل سکتا ہے۔ اور پھر اگر بھارت کی بات ماننی ہے تو چین کی کیا ضرورت ہے۔ وہ براہ راست بھی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو بھارت کے حوالہ سے اپنی جہادی پالیسی ختم کرنے کے لئے چین کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اس کو چلانے کے لئے چین کی ضرورت ہے۔ اگر لشکر طیبہ اور جیش محمد کو بند کرنا ہے تو اس کے لئے چین کے مشورہ کی ضرورت نہیں۔ چین کی مدد تو انہیں چلانے کے لئے درکار ہے۔ پاکستان کو مسئلہ کشمیر زندہ رکھنے کے لئے چین کی ضرورت ہے ۔ اس کو حل کرنے کے لئے چین کی ضرورت نہیں۔ یہ کام تو امریکہ بھی کروانے کو تیار تھا۔ تا ہم گزشتہ ایک سال سے چین اس ضمن میں پاکستان کی مدد کر ہا تھا۔ لیکن یک دم ماحول بدل گیا ہے۔
چین کی جانب سے یک دم پاکستان کے وزیر خارجہ کو چین بلانے سےپاکستان کو کچھ سکون دیا ہے۔ فوجی قیادت نے وزیر خارجہ کو اکیلے نہیں بھیجا ہے۔ بلکہ قومی سلامتی کے مشیر لیفٹنٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کو ساتھ بھیجا گیاہے۔ لیفٹنٹ جنرل (ر) ناصرجنجوعہ کو ان کے ریٹائرمنٹ کے اگلے دن ہی فوجی قیادت کی ڈیمانڈ پر قومی سلامتی کا مشیر بنا یا گیا تھا۔
بہر حال خبر یہی ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تناظر میں چین کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ جو تنظیمیں کشمیر میں پاکستانی مقاصد کے لئے کام کر رہی ہیں۔ وہ کام کرتی رہیں گی۔ اس ضمن میں پاکستان کو چینی تحفظ حاصل رہے گا۔ البتہ افغانستان کے حوالہ سے پالیسی میں تبدیلی ہو رہی ہے اور وہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ پاکستان۔ افغانستان کے ساتھ ایک مکمل سیز فائرکے لئے تیار ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان کے اندر سے پاکستان کے خلاف سرگرم تنظیمیں ختم کی جائیں۔ جواب میں پاکستان، پاکستان کے اندر موجود افغانستان میں کام کرنے والی تنظیموں کو بھی ختم کرنے کے لئے تیار ہے۔ پاکستان کو افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر شدید تحفظات ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ چین۔افغانستان میں اپنا عمل دخل بڑھائے تا کہ بھارت کے اثر و رسوخ کو کم کیا جا سکے۔
اس حوالہ سے چین کی جانب سے یہ اعلان سامنے آگیا ہے کہ وہ اسی سال پاکستان اور افغانستان کے وزارءخارجہ کے اجلاس کی چین میزبانی کرے گا۔ پاکستان۔چین کو امریکہ کی جگہ افغانستان میں ایک نئی طاقت بنانا چاہتا ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ اگر چین کوبلوچستان کی گوادر پورٹ کو لینا ہے تو اسے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ رکھنا ہوگا۔ چین افغانستان سے لا تعلق رہ کر ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک جیسے منصوبے مکمل نہیں کر سکتااور چین نے پاکستان کی یہ بات مان لی ہے۔ اس لئے بھارت کے ساتھ پاکستانی فوجی قیادت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ BRICS اعلامیہ چین نے بھی دل سے قبول نہیں کیا۔ یہ ایک وقتی مجبوری تھی پالیسی نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 08 Sep 2017, 8:16 PM