مسلمانوں کو نمازیوں کے قاتل کو معاف کر دینا چاہیے...سید خرم رضا
حقیقت تو یہ ہے کہ انسان اپنا وطن، اپنا مذہب اور رنگ خود طے نہیں کرتا تو پھر جس چیز پر خود کو کوئی قدرت حاصل نہیں ہے اس کی برتری کو ثابت کرنے کے لئے ایک دوسرے کا خون بہانے کا کیا مطلب ہے۔
گزشتہ جمعہ کو نیوزی لینڈ کے شہر سے جو خبر آئی اس نے دہشت گردی کے زخم کو ایک مرتبہ پھر پوری شدت سے ہرا کر دیا ہے۔ آسٹریلیا کے جس شہری نے ایک طبقہ کو دہشت زدہ کرنے کے لئے اور دوسرے طبقہ کو تسکین پہنچانے کے لئے نمازیوں کو اپنے جنون کا نشانہ بنایا، اس کا غم وغصہ نہ تو اس کے اہل خانہ کی معافی سے کم ہو سکتا ہے اور نہ ہی مجرم کو سخت سے سخت سزا دے کر اس کے عمل کو قابل معافی بنا سکتا ہے۔ جس کو ہم دہشت گردی کہتے ہیں اس کو وہ لوگ اپنے حق کی لڑائی کا نام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی سوچ کے حساب سے اس کو کوئی بھی کچھ بھی نام دے لیکن اس کا نام صرف ایک ہی ہے ’انسانیت کا قاتل‘۔
عیسائی اپنے ہی ہم مذہب ساتھیوں کا اس لئے قتل کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کی بات اور سوچ سے اتفاق نہیں کرتے، عرب کے مختلف ممالک آپس میں یہ بات منوانے کے لئے ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں ان کی سوچ اور نظریہ کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ الگ الگ مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک دوسرے کی جان کے دشمن اس لئے رہتے ہیں کیونکہ ان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ بس وہ ہی صراط مستقیم پر چل رہے ہیں۔ ہم وطن آپس میں اس لئے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہتے ہیں کیونکہ ان کا دعوی ہوتا ہے کہ وہ ہی سچے محب وطن ہیں اور ملک کے اچھے برے کے بارے میں ان سے زیادہ بہتر کوئی نہیں سمجھتا۔ تنظیمیں صرف خود کو اس لئے صحیح سمجھتی ہیں کیونکہ وہ اس خیال میں جیتی اور مرتی ہیں کہ دنیا کو ٹھیک کرنے کا ٹھیکہ صرف ان کو ملا ہے۔ الگ الگ رنگ اور نسل کے لوگ خود کو اعلیٰ اس لئے سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے دماغ میں یہ گھر کر چکا ہوتا ہے کہ اوپر والے نے ان کو ہی اعلیٰ بنایا ہے۔
رنگ، نسل، ممالک، سوچ، اور مذہب وغیرہ کے تعلق سے ہر انسان الگ ہوتا ہے اور اس الگ ہونے کی وجہ سے اختلافات ہونا بھی ایک فطری بات ہے، لیکن مسئلہ وہاں کھڑا ہوتا ہے جب انسان یہ سوچنے لگے کہ صرف اس کی سوچ، اس کا مذہب، اس کا مسلک، اس کی تنظیم ہی بالکل صحیح ہے اور باقی سب غلط ہیں۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب انسان صرف اپنی سوچ دوسروں پر تھوپنا چاہتا ہے۔ جبکہ آج تک کی یہ حقیقت ہے کہ سوچ، مذہب، مسلک، رنگ، وطن کے تعلق سے انسان کو کوئی قدرت حاصل نہیں ہے۔ جس ملک میں وہ اپنی مرضی کے بغیر دنیا میں آ تا ہے وہ اس کا وطن ہو جاتا ہے، جس مذہبی گھرانے میں وہ پیدا ہو تا ہے وہ اس کا مذہب ہو جاتا ہے (مختصر تعداد کو چھوڑ کر)، جس رنگ کے اس کے والدین ہوتے ہیں وہ رنگ خود بخود اس کو مل جاتا ہے۔ جس چیز پر خود کو کوئی قدرت حاصل نہیں ہے اس کی برتری کو ثابت کرنے کے لئے ایک دوسرے کا خون بہانے کا کیا مطلب ہے۔
آئرلینڈ کے لوگ اپنی آزادی کے لئے لوگوں کی جان لیں، فلسطینی اپنے حقوق کی لڑائی کے لئے کسی کی جان لیں، لنکا کے تمل باغی اپنے مطالبات منوانے کے لئے خود کش حملہ کریں، انتہاء پسند سکھ اور مسلمان یا مختلف مسالک کے شدت پسند اپنی بات منوانے کے لئے دہشت پھیلائیں اور لوگوں کی جان لیں اس کو کسی بھی طرح سے ٹھیک قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نفرت اور جرم کے بدلہ میں کبھی پیار اور سکون نہیں مل سکتا اگر دنیا میں پیار و محبت اور امن و سکون چاہیے تو ضروری ہے کہ ہم صرف وہی سماج میں پھیلائیں کیونکہ جو ہم پھیلائیں گے وہی ہمیں ملے گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب ’بوئے پیڑ ببول تو آم کہاں سے آئے‘ ۔ محبت، امن اور سکون کے لئے شدت پسندی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے پیڑ اکھاڑ کر بھائی چارے اور پیار کے پیڑ لگانے ہوں گے۔ ’میں یہ کیوں نہ کہوں‘ کہ مسلمانوں کو اس میں پہل کرنی چاہیے اور آگے بڑھ کر اس شخص کو معاف کر دینا چاہیے اور محبت کے درخت لگانے کی ابتداء کرنی چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 18 Mar 2019, 3:09 PM