مسلمان نہ مسلم فرقہ پرستی کے حامی ہیں اور نہ ہندو فرقہ پرستی کے... سید خرم رضا
مسلمانوں نے ہر انتخابات میں اس دور اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے اور آنے والے اسمبلی انتخابات میں بھی وہ اس کا مظاہر کریں گے اور اپنا ووٹ تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔
آزاد ہندوستان میں مسلم رائے دہندگان کی ہمیشہ اہمیت رہی ہے۔ ویسے تو مغربی بنگال، مہاراشٹر اور گجرات میں بھی کافی اہمیت رہی ہے، لیکن شمالی ہندوستان میں تو ان کی کچھ زیادہ ہی اہمیت ہوتی ہے۔ آج کی برسر اقتدار جماعت اور اس کی ہم خیال پارٹیوں کی یہ کوشش ہمیشہ رہی ہے کہ مسلمانوں کے نام پر غیر مسلم ووٹوں کو اپنی جانب راغب کیا جائے۔ اس کے توڑ کے لئے کچھ سیاسی پارٹیوں نے منڈل کا کارڈ استعمال کیا جس کے جواب میں آج کی برسراقتدار جماعت نے کمنڈل کا استعمال کیا اور اس کو اس کی وجہ سے سال 2014 کے بعد سے کامیابی بھی ملی۔
سیکولر پارٹیوں نے اپنے اپنے حساب سے سیاسی جگاڑ بٹھائے، کسی نے پسماندہ یادؤں کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ کر اقتدار کے مزے چکھے تو کسی نے دلتوں کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ کر اقتدار کے گلیاروں میں اپنے پیر جمائے۔ اس پوری سیاست میں شمالی ہندوستان کے مسلمان مرکز میں رہے اور انہوں نے بھی بہت ہوشیاری سے اپنی رائے کا استعمال کیا اور فرقہ پرست قووتوں کو اقتدار سے دور رکھا، لیکن سال 2014 کے بعد سے ملک میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی رونما ہوئی۔ بی جے پی اور اس کی ہم خیال پارٹیوں نے پہلے تو مودی کی قیادت والے گجرات کے ترقی کے ماڈل کی زبردست تشہیر کی اور اس میں ہندوتوا کا تڑکا لگایا اور ایک ہی جھٹکے میں نہ صرف اقتدار پر قبضہ کر لیا بلکہ شمالی ہند کے مسلمانوں کو سیاسی طور پر اچھوت کر دیا۔
اس کا نقصان مسلمانوں کو تو ہوا ہی ساتھ میں ان قووتوں کو بھی ہوا یعنی پسماندہ اور دلت ذاتوں کو بھی، جنہوں نے اقتدار کے گلیاروں کی چمک دیکھ لی تھی اور ان ذاتوں کے لئے ایک امید کی کرن بھی پیدا کر دی تھی۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ شمالی ہندوستان کے مسلمان ہوں یا دیگر ریاستوں کے مسلمان ہوں، انہوں نے اپنی وفاداریاں تبدیل نہیں کیں اور انہوں نے سیکولرزم کا پرچم بلند کئے رکھا۔ مغربی بنگال ہو یا مہاراشٹر، وہاں کے مسلم رائے دہندگان نے سیکولرزم کے پرچم کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔
جن رائے دہندگان کی گجرات کے ترقی کے ماڈل اور ہندوتوا کی چمک سے آنکھیں چندھیاں گئی تھیں اور اس چمک میں انہوں نے اپنی وفاداریاں تبدیل کر لی تھیں ان کو بھی اب اپنی غلطی کا احساس ہوتا نظر آ رہا ہے۔ بی جے پی کی مجبوری یہ تھی کہ اگر وہ اپنے ہندوتوا کے ایجنڈے کو پیچھے رکھ کر ترقی کی بات کرتی ہے تو اس میں اور سیکولر پارٹیوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے، اس لئے اس نے ہندوتوا کی لو کو جلائے رکھنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں اس کا حکومت کا ماڈل بری طرح متاثر ہوا جس کا نقصان اس ووٹر کو سب سے زیادہ ہوا جس کا تعلق پسماندہ اور دلت ذاتوں سے تھا۔
مسلم رائے دہندگان کی مجبوری کہئے یا دور اندیشی، لیکن اس نے سیکولرزم کا دامن نہیں چھوڑا اور یہی وجہ تھی کہ اتر پردیش میں گزشتہ اسمبلی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کو سب سے زیادہ ووٹ فیصد اقلیتوں کا ہی ملا اور یہ ووٹ فیصد پچھلے انتخابات کے مقابلے میں زیادہ تھا لیکن وہ اقتدار کے آس پاس بھی نہیں آئی، کیونکہ ان کا اپنا غیر مسلم ووٹ انہیں چھوڑ کر بی جے پی کی گود میں چلا گیا تھا۔
ہندوستانی مسلمانوں کو کوئی کچھ بھی کہے لیکن آزادی کے بعد سے انہوں نے اپنی رائے کا استعمال سیکولرزم کو بچانے اور زندہ رکھنے کے لئے ہی کیا ہے۔ ظاہر ہے ملک اور اقلیتوں کا فائدہ بھی سیکولرزم کی بقا میں ہی ہے۔ جب پورے ہندوستان کے مسلمان اپنی شہریت کو لے کر پریشان تھے اور اپنے کاغذات ڈھونڈنے اور بنوانے میں مصروف تھے اور اس کے لئے ان کی اپنے گھر کی عورتیں مظاہرہ کر رہی تھیں، اس وقت جس عام آدمی پارٹی کو اقتدار میں لانے میں ان کا بہت اہم کردار تھا اور ہے، اس پارٹی نے بھی ان کے اس احتجاج میں ان سے دوری بنائے رکھی، تب بھی انہوں نے انتخابات میں اسی پارٹی کو ووٹ دیا۔ انہوں نے اپنی ناراضگی اور غصہ کو دور رکھتے ہوئے ملک اور سیکولرزم کے لئے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں : ’ہنگامہ ہے کیوں برپا، تھوڑی سی تو پھسلی ہے‘... اعظم شہاب
مسلمانوں نے ہر انتخابات میں اس دور اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے اور آنے والے اسمبلی انتخابات میں بھی وہ اس کا مظاہر کریں گے اور اپنا ووٹ تقسیم نہیں ہونے دیں گے، کیونکہ ان کی لڑائی ہی تقسیم کرنے والوں کی سیاست کے خلاف ہے۔ مسلمان جب فرقہ پرست بی جے پی کو ہرانے کے لئے ووٹ کرتے ہیں تو وہ اویسی جیسوں کی فرقہ پرست پارٹی کی کیسے حمایت کر سکتے ہیں۔ اتر پردیش ہو یا ملک کا کوئی بھی کونا ہندوستانی مسلمان محب وطن ہیں اور سیکولرزم کے بھی علمبردار ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔