طالبان بہانہ، مسلمان نشانہ... اعظم شہاب
اگر آسام میں طالبان کی حمایت میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے الزام کا نتیجہ دہشت گردی کی دفعات کے تحت گرفتاری ہوسکتی ہے، تو پھر تریپورہ میں طالبانی اسٹائل اپنانے کی اپیل دہشت گردی کیوں نہیں ہوسکتی ہے؟
آسام میں سوشل میڈیا پر طالبان کی حمایت میں پوسٹ کرنے کے الزام میں 14؍افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ ان پر یو اے پی اے اور دہشت گردی سے متعلق قوانین کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام گرفتار شدگان مسلمان ہی ہوسکتے ہیں اور واقعتاً ایسا ہے بھی۔ ان گرفتاریوں پر ہماری قومی میڈیا پر جس طرح سینہ کوبی ہو رہی ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے تمام مسلمان طالبان کی حمایت کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں اور کچھ تو افغانستان بھی پہنچ چکے ہیں۔ اسی مہم میں خاص طور سے یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ طالبان ایک دہشت گرد گروپ ہے، انہوں نے اپنی دہشت گردی سے ملک پر قبضہ کرلیا ہے جس کی وجہ سے افغانستان کے ہندوستان دوست صدر اشرف غنی کو ملک چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ گویا اس طرح طالبان کی آڑ میں مسلمانوں کو ہندوستان مخالف ثابت کرنے کی ایک مہم شروع ہوچکی ہے جو خدا جانے کہاں جاکر رکے گی۔
تریپورہ کے بیلونیا حلقہ اسمبلی سے بی جے پی کے ممبر اسمبلی ارون چندر بھومیک نے اپنے کارکنان کو ٹی ایم سی سے نمٹنے کے لیے طالبانی اسٹائل اپنانے کا مشورہ دیا ہے۔ مرکزی وزیر پرتما بھومیک کے لیے بیلونیا ٹاؤن ہال میں 18؍اگست کو منعقدہ ایک استقبالیہ پروگرام میں ارون چندر بھومیک نے اپنی پارٹی یعنی بی جے پی کارکنان سے کہا کہ میں آپ سبھی سے اپیل کرتا ہوں کہ ہمیں طالبانی اسٹائل میں ان پر حملہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جب وہ یہاں ایئرپورٹ پر پہنچیں تو ہمیں ان پر ایک بار حملہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم خون کے ہرایک بوند سے بپلپ کمار دیو کی سربراہی والی حکومت کی حفاظت کریں گے۔ بھومیک کی اس اپیل کا خاطرخواہ اثر بھی ہوا۔ تریپورہ کے ٹی ایم سی کے صدر سوبل بھومیک نے دعویٰ کیا کہ اگرتلہ کے ایک ہوٹل میں جہاں ٹی ایم سی لیڈران ٹھہرے ہوئے تھے وہاں انہیں پریشان کیا گیا۔ سوبل بھومیک نے ارون چندر بھومیک کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ لیکن اس کے بعد وہی ہوا جو بی جے پی کی روایت رہی ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر سبرت چکرورتی نے ارون چندر بھومیک کے مذکورہ اپیل کو ان کا ذاتی بیان قرار دے دیا، جبکہ ارون چندر بھومیک نے اپنے بیان کو غلط پیرائے میں پیش کرنے کا الزام عائد کر دیا۔
پہلے واقعے میں آپ نے دیکھا کہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے الزام میں 14؍لوگوں کی آناً فاناً گرفتاری عمل میں آگئی اور نہ صرف گرفتاری عمل میں آئی بلکہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کے قوانین کے تحت ان پر مقدمہ بھی درج کردیا گیا جس میں کم ازکم 6 ماہ تک ان کی ضمانت بھی نہیں ہوسکتی۔ جبکہ سوشل میڈیا پوسٹس میں اکاؤنٹ کے غلط ہونے یا ہیک ہونے کی گنجائش بہر حال رہتی ہے۔ لیکن یہ تو عدالت میں ثابت ہوگا، سرِ دست یہ 14؍افراد جن میں کچھ عالم دین بھی ہیں،6 ماہ تک کے لیے سلاخوں کے پیچھے پہنچ چکے ہیں۔ اس کے برخلاف دوسرے واقعہ میں ایک شخص بھرے مجمع میں طالبانی اسٹائل کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کے مطابق اپنے مخالفین سے نمٹنے کی اپیل بھی کرتا ہے، اس کی ویڈیو وائرل ہوتی ہے اور وہ اس میں اپیل کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے نتائج بھی برآمد ہونے شروع ہوجاتے ہیں، مگرچونکہ وہ دنیا کی سب سے بڑی دیش بھکت پارٹی کا رکن اسمبلی ہوتا ہے، نہ پارٹی اس کے خلاف کوئی کارروائی کرتی ہے اور نہ ہی پولیس اس کو گرفتار کرتی ہے، گرفتار کرنا تو دور اس کی تفتیش تک نہیں ہوتی ہے اور وہ آزاد رہ کر اپنے بیان کی توضیح کرتا ہے۔
ابھی چند ہی روز گزرے ہیں مدھیہ پردیش کے کٹنی سے بی جے پی کے ضلع صدر رام رتن پائل نے پٹرول وڈیژل سستا چاہنے والوں کو افغانستان چلے جانے کا مشورہ دیا تھا۔ پٹرول وڈیژل کی قیمتوں میں اضافے پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ جنہیں پٹرول و ڈیژل سستا چاہئے وہ افغانستان چلے جائیں، وہاں انہیں 50 روپئے لیٹر میں پٹرول مل جائے گا۔ آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ ملک میں کورونا کی تیسری لہر آنے کا امکان ہے اور آپ پٹرول وڈیژل پر بات کر رہے ہیں؟ آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ ملک کس سنکٹ (مشکلات) سے گزر رہا ہے؟ لطف کی بات یہ رہی کہ کورونا کی تیسری لہر کا خوف دلاتے ہوئے مہاشے جی خود بغیرماسک کے تھے جو کورونا سے حفاظتی تدابیر میں اولیت کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ غالباً یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ یہاں کی مہنگائی افغانستان سے زیادہ بہتر ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ انہوں نے یہ بھی تسلیم کرلیا کہ افغانستان جیسا جنگ زدہ ملک میں بھی ایندھن کی قیمتیں ہمارے ملک سے کم ہیں جبکہ کورونا کی تیسری لہر کا خطرہ جتنا ہمارے ملک کو ہے اتنا ہی افغانستان کو بھی ہے۔ اب ایسے میں رام رتن پائل سے یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ اگر ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی شکایت کرنے والوں کو آپ افغانستان چلے جانے کا مشورہ دے رہے ہیں تو پھر ان کے بارے میں کیا خیال ہے جو لوگ طالبانی اسٹائل اپنانے کی بات کرتے ہیں؟ تو یقین ہے کہ وہ بھی ارون چندربھومیک کی طرح اپنے بیان کی وضاحت کرتے نظر آئیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان میں طالبان ایک مضبوط طاقت ہیں اورغالباً چند دنوں میں وہ ایک مشترکہ حکومت بھی تشکیل دے لیں لیکن ان کے ماضی کو یاد کر کے لوگوں میں خوف تو پیدا ہوتا ہے۔ ہمارا ملک بھی اس حقیقت سے واقف ہے اور وہ انتظار کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مرکزی حکومت نے ابھی تک طالبان کے بارے میں کسی واضح موقف کا اعلان نہیں کیا ہے۔ حکومت ابھی تک گومگو کی کیفیت میں ہے کہ اسے طالبان سے رابطہ کرنا چاہئے یا نہیں۔ افغانستان میں ہمارے ملک نے بھرپور سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا تحفظ طالبان سے رابطہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ دوسری جانب امریکہ وبرطانیہ تک نے طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے۔ ایسی صورت میں ہماری مرکزی حکومت کا موقف نہایت اہمیت کا حامل ہوگا۔ لیکن ملک کے اندر طالبان وافغانستان کے بارے میں جو فضاء تیار کی جا رہی ہے وہ یقینی طور پر ہماری حکومت کے مستقبل کے فیصلے پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آسام میں طالبان کی حمایت میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے الزام کا نتیجہ دہشت گردی کی دفعات کے تحت گرفتاری ہوسکتی ہے تو پھر تریپورہ میں طالبانی اسٹائل اپنانے کی اپیل کرنا دہشت گردی کیوں نہیں ہوسکتی ہے؟ اور اگر مدھیہ پردیش کے رام رتن پائل مہنگائی کی شکایت کرنے والوں کو افغانستان چلے جانے کا مشورہ دیتے ہیں تو پھر ارون بھومیک کو کہاں جانا چاہئے؟ انہیں اس کی بھی وضاحت کردینی چاہئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔