سب کو معلوم ہے ’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘ کی حقیقت لیکن...
190 ممالک کی معیشت کو مدنظر رکھتے ہوئے ورلڈ بینک کے ذریعہ تیار کردہ 2018 کی ’ایز آف ڈوئنگ بزنس رپورٹ‘ میں ہندوستان 100ویں مقام پر آ گیا ہے۔ 2017 میں ہندوستان کا مقام 130واں اور 2016 میں 142واں تھا۔ یہ بات پہلے ہی میڈیا میں آ چکی تھی کہ اس رپورٹ میں ہندوستان کی حالت بہتر دکھائی جانے والی ہے۔ اس وقت یہ بات مزید واضح ہو گئی جب وزیر مالیات ارون جیٹلی پہلے سے ہی اس موقع کا فائدہ اٹھانے کی تیاریاں کرنے لگے اور 31 اکتوبر کو رپورٹ آنے سے پہلے ہی میڈیا کو رپورٹ سے متعلق کی جانے والی اپنی پریس کانفرنس کا دعوت نامہ بھیج دیا تھا۔ لیکن کئی محاذ پر کٹہرے میں کھڑی ہندوستان کی معیشت کے لیے یہ رپورٹ اس قدر معنی رکھتی ہے، یہ حکومت کے علاوہ شاید ہی کسی کو معلوم تھا۔
گزشتہ سال بھی اس رپورٹ میں ہندوستان 12 مقام اوپر آیا تھا، لیکن اس کا اتنا جشن نہیں منایا گیا۔ اس مرتبہ شاید مودی حکومت کو ایسا کرنے کی ضرورت اس لیے پڑی ،کیونکہ چاروں طرف سے معیشت کی کمزور حالت پر اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ناقدین کو خاموش کرنے کا کمزور ہی سہی لیکن یہ ایک اچھا موقع تھا۔ معاشی امور کے ماہرین سے لے کر حزب مخالف، عوام اور بی جے پی کے لیڈر تک نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور دیگر فیصلوں سے ہندوستانی معیشت کو ہوئے نقصان کے بارے میں اپنی بات رکھ چکے ہیں۔ لیکن حکومت ماننے کو تیار نہیں ہے کہ اس سے کوئی غلطی ہوئی۔ وقتاً فوقتاً وزیر اعظم اور وزیر مالیات نے ہلکے پھلکے انداز میں یہ ضرور کہا کہ وہ اپنے فیصلوں پر دوبارہ غور کرنے کے لیے تیار ہیں اور چھوٹی موٹی تبدیلیاں کی بھی گئیں۔ لیکن نقصان زیادہ ہے تو اس کے ازالے میں بھی وقت زیادہ لگے گا۔
بہر حال، رپورٹ جاری ہونے کے بعد حکومت اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے۔ وزیر مالیات نے جوش میں یہاں تک کہہ دیا کہ مودی حکومت کے ذریعہ لگاتار اٹھائے جا رہے معاشی اصلاحات کا یہ اثر ہے اور وہ بڑے اصلاحات کے تئیں قدم اٹھانے کی سوچ رہے ہیں۔ وزیر مالیات نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے ہندوستان کو اس رپورٹ میں ٹاپ-50 میں شامل کرنے کا ٹارگیٹ رکھا ہے۔ ارون جیٹلی کی اس بے باک رائے پر کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے اردو کے معروف شاعر مرزا غالب کے ایک شعر کا استعمال کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ ’’سب کو معلوم ہے ’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘ کی حقیقت لیکن، خود کو خوش رکھنے کے لیے ’ڈاکٹر جیٹلی‘ یہ خیال اچھا ہے۔‘‘
اب ارون جیٹلی کے ’خیال‘ اور راہل گاندھی کے ’طنز‘ میں حقیقت سے زیادہ قریب کون ہے اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور ضرور کیا جانا چاہیے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ورلڈ بینک کی جس رپورٹ پر آئندہ کچھ دن بحث و مباحثہ جاری رہنے کا امکان ہے، وہ ہندوستانی معیشت کی صورت حال نہیں بلکہ ہندوسان میں تجارت کرنے کی آسانیوں کو بتاتا ہے۔ حالانکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی رپورٹ کاروباریوں میں مثبت رائے پیدا کرتی ہے اور طویل مدت میں اس سے معاشی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس کا فائدہ معیشت کو ہوتا ہے۔
لیکن اس رپورٹ سے متعلق دو باتیں کافی اہم ہیں۔ پہلا، دنیا کی زیادہ تر بڑی معیشتوں سے ہندوستان اب بھی پیچھے ہے۔ اور دوسرا یہ کہ رپورٹ میں دیے گئے الگ الگ پیمانوں کی گہرائی سے جانچ کی جائے تو ہندوستان کی حالت بہت بہتر دکھائی نہیں دیتی۔ تقریباً سبھی پیمانوں میں ہندوستان کافی پیچھے ہے۔ مثلاً ہندوستان تجارت شروع کرنے کے معاملے میں 156ویں، تعمیرات کے لیے منظوری لینے میں 181ویں، ملکیت رجسٹریشن میں 154ویں، سرحد پار سےتجارت میں 146ویں اور ٹھیکہ نافذ کرنے میں 164ویں مقام پر ہے۔ اس کے علاوہ بجلی لینے میں 29، کریڈٹ لینے میں 29 اور چھوٹے سرمایہ کاروں کے معاملے میں ہندوستان چوتھے پائیدان پر ہے۔ ان سب کے کل اوسط کی بنیاد پر رپورٹ میں سبھی ممالک کی رینکنگ کی گئی ہے۔ اس تجزیہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ رپورٹ بھی معیشت سے متعلق کوئی خاص امید نہیں جگاتی۔
اب کچھ بات رپورٹ بنانے کے طریقے پر کرتے ہیں۔ ورلڈ بینک کے سابق ملازم اور کانگریس لیڈر سلمان سوز نے کہا ہے کہ الگ الگ ممالک کے افسران لگاتار اس بات پر شکایت درج کیا کرتے تھے کہ ان کے ملک کو رپورٹ میں ٹھیک مقام نہیں ملا ہے۔ ان افسران کے ساتھ ورلڈ بینک کے ملازمین نے کئی مرتبہ رپورٹ تیار کرنے کے اصول پر سوال اٹھایا ہے۔ اپنی تحریر میں وہ ایک دلچسپ قصہ بھی سناتے ہیں، ’’2013 کے مقابلے میں روس 2014 کی رپورٹ میں 30 مقام اوپر چلا گیا۔ یہ صدر ولادیمیر پوتن کے ذریعہ اپنے افسران کو دیے گئے اس حکم کے بعد ہوا کہ 2012 میں 118 مقام پر رہنے والے روس کی رینکنگ بہتر ہو کر 2015 میں 50 اور 2018 تک 20 ہو جانی چاہیے۔ فی الحال روس 35ویں مقام پر ہے۔‘‘
معاشیات کے ضمن میں رپورٹ کی اہمیت ہندوستان کی اس کے الگ الگ پیمانوں میں حالت اور سلمان سوز کی تحریر اس بات کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ رپورٹ محض دل کو خوش رکھنے کا ایک خیال ہی ہے، بس۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔