ایم پی ضمنی انتخاب: کیا یہ شیو راج کے اختتام کا اشارہ ہے!

بی جے پی نے دونوں سیٹوں پر چناؤ جیتنے کے لئے ہر داؤ کا استعمال کیا۔ پہلے آدیواسیوں کو 1000 روپے ماہانہ دینے کا اعلان کیا اس کے بعد ذات کی بنیاد پر تین وزرا بنائے گئے، لیکن تمام کوششیں بے کار گئیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سندیپ پورانک

تقریباً 15 سال پہلے مدھیہ پردیش کے اقتدار پر قابض ہوئی بی جے پی کو 28 فروری کو اعلان شدہ دو اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج میں کرارا جھٹکا لگا ہے۔ تمام کوششوں کے باوجود بی جے پی کے ہاتھ سے یہ دونوں سیٹیں نکل گئیں۔ یہاں مقابلہ شیو راج سرکار بنام کانگریس کے رکن پارلیمنٹ جیوترادتیہ سندھیا کے درمیان ہو گیا تھا۔ انتخابی نتائج سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ ریاست میں بی جے پی کے لئے پہلے جیسا سازگار ماحول اب نہیں رہا ہے۔ وہیں انتخابی نتائج عوامی مزاج تبدیل ہونے کی طرف بھی اشارہ ہیں۔ ریاست میں سال کے آواخر میں ہونے والے ضمنی انتخابات سے قبل شیو پوری کے کولارس اور اشوک نگر کے مونگاؤلی اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات کافی اہم تصور کئے جا رہے تھے اور برسر اقتدار جماعت اور حکومت نے چناؤ جیتنے کے لئے ہر طرح کی کوشش بھی کیں۔ ادھر کانگریس کی قیادت نوجوان رکن پارلیمنٹ جیوترادتیہ سندھیا کے ہاتھوں میں تھی۔ انتخابی تشہیر کاری کی مہم میں انہیں سابق مرکزی وزیر کمل ناتھ، ریاستی وزیر ارون یادو، حزب اختلاف کے رہنما اجے سنگھ، ریاستی انچارج دیپک بابریا اور سہریا قبیلہ میں کافی مقبول منیش راجپوت کا تعاون حاصل ہوا۔

چناوی نتائج پر دانشور ساجی تھامس نے کہا ’’یہ ضمنی انتخاب ہر زاویہ سے ریاستی حکومت کے لئے کافی اہم تھے کیوں کہ گزشتہ دنوں مندسور میں کسانوں پر گولی چلنے کے واقعہ کے بعد جگہ جگہ کسان تحریک اور ملازمین طبقہ کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ وہیں مرکزی حکومت کی طرف سے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی مسلط کئے جانے کی وجہ سے لوگوں میں ناراضگی ہے۔ ایسے حالات میں اگر بی جے پی جیت حاصل کرتی تو یہ تصور کیا جاتا کہ شیوراج کی مقبولیت ابھی برقرار ہے لیکن یہ نہیں ہو سکا۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ ضمنی انتخاب کے نتائج سے بی جے پی اور حکومت کو یہ اشارہ ضرور ملا ہے کہ آنے والا وقت ان کے لئے بہت اچھا نہیں ہے۔ یہ بات سہی ہے کہ یہ دونوں اسمبلی حلقے کانگریس کے قبضہ والے رہے ہیں اور یہ دونوں رکن پارلیمنٹ سندھیا کے پارلیمانی حلقے میں آتے ہیں۔ اس کے باوجود ریاست کے وزیر اعلیٰ چوہان نے تنظیم کی جیت کے لئے کسی طرح کی کمی نہیں چھوڑی۔ تقریباً پوری وزراء کونسل اور تنظیم کے عہدیداران کئی کئی دنوں تک خیمہ زن رہے تھے۔

دوسری طرف سندھیا کے قریبی اور رکن پارلیمنٹ کے نمائندہ کے پی یادو کو بی جے پی میں شامل کراکر سندھیا کو بڑا جھٹکا بھی دیا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے تقریباً ہر اجلاس اور عوامی رابطہ کے دوران دونوں مقامات کے ووٹروں سے 5 ماہ کے لئے بی جے پی کے ارکان اسمبلی کو جیتانے کی اپیل کی اور وعدہ پورا نہ ہو پانے پر اگلے چناؤ میں درکنار تک کر دینے کو کہا لیکن عوام کا انہیں ساتھ نہیں مل سکا۔

نتائج آنے کے بعد وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے اس ہار کو قبول کرتے ہوئے کہا ’’یہ دونوں حلقے کانگریس کے تھے۔ یہاں عام انتخابات میں کانگریس بڑے فرق سے فتحیاب ہوئی تھی۔ اس کے باوجود بی جے پی کے کارکنان نے کافی محنت کی اور مقابلے میں بنے رہے۔ ہم کافی کم فر۱ق سے ہارے ہیں۔‘‘

وہیں حزب اختلاف اور کانگریس کے رہنما اجے سنگھ اور ریاستی صدر کا کہنا ہے کہ بی جے پی آئندہ انتخابات میں 200 پار کا نعرہ دے رہی ہے جبکہ وہ دو حلقوں کے انتخابات میں ایک کو بھی پار نہیں کر سکی۔ انہوں نے کہا کہ ’’کانگریس کی جیت بی جے پی کے خلاف پیدا ہوئے عدم اعتماد کی جیت ہے۔ ‘‘ اس جیت میں رکن پارلیمنٹ جیوترادتیہ سندھیا اور کارکنان کا بڑا تعاون رہا ہے۔ ان نتائج کے بعد شیوراج حکومت کی وداعی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ سیاسی ماہرین کی مانیں تو ان نتائج سے حکومت کی صحت پر تو کوئی فرق نہیں پڑنے والا لیکن کانگریس میں جوش کا اضافہ ضرور ہوگا۔

عوام کا حکومت کو سیدھا پیغام یہ ہے کہ اب باتیں اور وعدے کرنے سے وہ نہیں بہلنے والے۔ کانگریس میں جوش تو بڑھا ہی ہے اور اسے جیت کی وہ خوراک بھی مل گئی ہے جس کی اسے تلاش تھی۔ مدھیہ پردیش میں عام انتخابات کچھ وقت بعد ہی ہیں اور کئی طبقات میں بی جے پی حکومت کے خلاف غصہ بڑھ رہا ہے۔ اس صورت حال میں بی جے پی اور شیو راج کس طرح مقابلہ کریں گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Mar 2018, 10:51 AM