گجرات چناوی جنگ: شرافت اور ڈائیلاگ بنام مکاری اور بغض
گجرات انتخابات کا بغل بج چکا ہے۔ راہل گاندھی جہاں شرافت اور ڈائیلاگ کے سہارے لوگوں سے جڑ رہے ہیں، وہیں نریندر مودی صرف حاضر جوابی کا استعمال کررہے ہیں جو مکاری پر مبنی ہے
یہ انتخاب شرافت بنام مکاری کا بن گیا ہے۔ ایک طرف نرم اور مہذب زبان ہے تو دوسری طرف کان پھوڑو نعروں کے شور سے پر روڈ شو ہے اور مبینہ جانبازی کا مظاہرہ ہے۔ ایک طرف رہنما اور عوام کے درمیان ڈائیلاگ ہے ، دوسری طرف ایک خود ساختہ بھگوان کی اندھ بھکتی ہے۔
یہ جنگ ان دو شخصیات کے درمیان ہے جنہیں کئی القاب سے نوازا گیا ہے۔ ایک طرف راہل گاندھی ہیں جنہیں ان کے مخالفین نے ’پپّو ‘کہہ کر چڑھانے کی کوشش کی تو دوسری طرف نریندر مودی ہیں جنہوں نے خود ہی اپنے لئے ’پھینکو‘ کا لقب حاصل کر لیا ۔ گجرات اس وقت میدان جنگ بنا ہوا ہے جہاں بی جے پی کے بنا مقابلہ 22 سالوں میں کانگریس اپنا وجود تقریباً کھو چکی ہے۔
گجرات چناؤ کی تاریخوں کے اعلان سے تقریباً دو مہینے قبل، راجیہ سبھا چناؤ کے وقت اپنے تقریباً ایک چوتھائی ارکان اسمبلی کو کھو نے کا کانگریس کا زخم ابھی ہرا ہے۔ وہیں بی جے پی کے لئے مودی ’ون مین آرمی ‘ ہیں۔
مودی نے چناؤ کی تاریخیں مقرر ہونے سے پہلے ہی گجرات میں ریلیاں کرنا شروع کر دی تھیں۔ وزیر اعظم نے اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے نریندر مودی نے گجرات کے لئے اربوں روپے کے نئے منصوبوں کا اعلان کیا۔ ان کے ہر پروگرام ، ہر ریلی میں سرکاری بسوں اور ٹھیکیداروں سے لڑکوں کو کرایہ پر لے کر بھیڑ جٹائی گئی۔ پھر بھی مودی کی بھڑکانے والی تقاریر عام لوگوں کو مائل کرنے میں ناکام ثابت ہوئیں۔ کئی جگہ تقریر کے درمیان میں ہی لوگوں نے ریلی چھوڑ کر جانا شروع کر دیا۔ یہ صاف طور پر اس بات کا اشارہ تھا کہ مودی کاجادو پھیکا پڑ چکا ہے۔
اس کے بعد راہل گاندھی نے اپنی گجرات مہم کا آغاز کیا۔ گزشتہ ایک مہینے میں انہوں نے ’گجرات نو سرجن یاترا ‘ کے دوران کھلی گاڑی سے تقریباً پورے صوبے کا دورا کیا ہے۔ سوراشٹر میں انہیں حفاظت کا حوالہ دے کر کھلی گاڑی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن بر سر اقتدار بی جے پی کو مات دیتے ہوئے راہل نے بیل گاڑی کی سواری کی۔ حفاظت میں تعینات بلیک کیٹ کمانڈو کو درکنار کر وہ لوگوں سے کھلے دل سے ملے۔
گجرات کے لوگ بھی پر جوش ہو کر اس ’پپو ‘ کو دیکھنے سننے کے لئے آئے جس نے ان سے ملنے کے لئےہر حفاظتی دائرے کو توڑا، عام لوگوں کی طرح ڈھابے پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔کئی جگہ تو انہوں نے نوجوانوں کو دیکھتے ہوئے اپنی سیاسی پوشاک کے بجائے جینس شرٹ زیب تن کی اور نوجوانوں کے ساتھ فوٹو کھنچوائے، ان کے ساتھ سیلفی لی۔
راہل کا اصل سیاسی روپ تو سورت میں نظر آیا ، اس سورت میں جو ٹیکسٹائل اور ہیرے کی صنعت کے لئے مشہور ہے اور جہاں ملک بھر سے آئے 10 لاکھ سے زیادہ کارکن اور مزدور کام کرتے ہیں۔ راہل نے چھوٹی، درمیانی صنعتی اکائیوں کا دورہ کیا ۔ اس دوران حفاظت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے راہل ان اکائیوں کو چلانے والے اور وہاں کام کرنے والے کارکنوں سے بھی ملے۔ انہوں نے ان سے سنجیدگی سے بات کی تاکہ ان کے حالات اور مسائل کو گہرائی سے سمجھ سکیں۔
یہاں کے بعد راہل نے مقامی کاروباریوں اور صنعت سے وابستہ لوگوں کے ساتھ بات چیت کی۔ تقریباً ایک گھنٹے چلے اس پروگرام میں راہل نے صرف 10 منٹ میں اپنی بات رکھی اور لوگوں سے سیدھے سوال جواب کا سلسلہ شروع کیا۔ راہل نے سیدھے کہا ’’ میں آپ سے کہنے نہیں ، آپ کے من کی بات سننے آیا ہوں‘‘۔
تقریباً 45 منٹ تک راہل گاندھی نے صبر و تحمل کے ساتھ مختلف کاروباریوں ، صنعتی اداروں کے نمائندگان کی بات سنی اور ان کے سوالوں کے سواب دئیے۔ پروگرام میں موجود کچھ لوگوں نے راہل سے تیکھے اور پریشان کرنے والے سوال بھی پوچھے۔ لیکن راہل ان سے بھاگے نہیں اور نہ ہی ان سوالوں کو ٹالا یا نظر انداز کیا بلکہ انہوں نے کہا’’ مجھے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ میں نے بہت غلطیاں کیں ہیں ، دھیرے دھیرے سدھار لوں گا۔‘‘
سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے بھی احمدآباد میں کاروباریوں اور صنعتوں سے وابستہ لوگوں کے ساتھ اس پروگرام میں حصہ لیا۔ پروگرام میں منموہن سنگھ نے جب جب نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے فیصلے کی حقیقت اور اسے لاگو کرنے میں دکھائی گئی غیر پختگی اور لاپرواہی کا ذکر کیا ،تو ہال تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونچ اٹھا۔ ان کی تقریباً آدھے گھنٹے کی تقریر جب ختم ہوئی تو لوگوں نے تالیاں بجا کر ان کا خیر مقدم کیا ۔
کانگریسی رہنماؤں کے جتنے بھی ڈائیلاگ پروگرام ہوئے ہیں وہاں کانگریس کارکنان اور حامیوں سے یہ کھلی اپیل کی گئی کہ کسی بھی صورت میں وزیر اعظم نریندر مودی، بی جے پی صدر امت شا ہ اور دوسرے سینئر بی جے پی رہنماؤں کے خلاف بد زبانی نہیں ہونی چاہئے۔
اتنا ہی نہیں گجرات سے سیدھے رابطہ قائم کرنے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کے ارادے سے کانگریس نے سیم پترودا کو میدان میں اتارا ہے جو لوگوں سے سیدھے ڈائیلاگ کر کے پیپلز مینی فیسٹو یعنی عوامی منشور تیار کریں گے۔ سیم پترودا ہندوستان میں ٹیلی کام انقلاب کے بانی ہیں۔ عوامی منشور کے لئے سیم پترودا سماج کے مختلف طبقات سے ملاقات کریں گے جن میں خواتین، نوجوان، چھوٹے اور درمیانے کاروابری، اداکار، ملازمین اور ماہر تعلیم وغیرہ شامل ہوں گے۔
سیم پترودا کہتے ہیں کہ ’’ ہمیں نیچے سے اوپر کی طرف آنے والے سہ روخی ترقی کے ماڈل کو قائم کرنا ہے نہ کہ اوپر سے نیچے کی طرف جانے والے ماڈل کو۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ امیر اور طاقتور لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروپ نے پوری دنیا میں جمہوریت کو اغوا کر لیا ہے۔ سیم کہتے ہیں کہ ’’ گاندھی جی کے شمولیت، تال میل اور غیر مرکزیت کے نظریات پر عمل کر تے ہوئے ہندوستان، دنیا کو ترقی کا ایک نیا ماڈل دے سکتا ہے۔
پترودا کی پیدائش یوں تو مغربی اوڈیشہ کے ایک چھوٹے سے شہر ٹیٹلا گڑھ میں ہوئی لیکن وہ گجراتی ہیں اور انہوں نے بڑودا (وڈودرا) کی ایم ایس یونیورسٹی سے گریجوایشن کیا ہے۔ انہوں نے تعلیم کے کمرشیلازیشن اور اس کی گرتی سطح پر تشویش ظاہر کی ہے۔ وہ تعلیم کی کوالٹی بحال کر نے اور اسے سب کے لئے آسان بنانے میں سرکاری دخل کی وکالت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ اور سیم پترودا کو گجرات کے میدان میں اتار کر اور ان کا لوگوں سے سیدھا رابطہ کراکر کانگریس نے گجرات میں نہ صرف سیدھے ڈائیلاگ کا عمل شروع کیا ہے بلکہ بی جے پی کی اس عیاری اور مکاری کو بھی بےنقاب کر دیا ہے ، جسے اس کے مبینہ غازی اور سپونوں کے سوداگر نریندر مودی نے قائم کیا ہے۔
- مضمون نگار احمد آباد میں فعال صحافی ہیں۔ یہ مضمون سب سے پہلے counterview.net پر شائع ہوا اور اسے ان کی اجازت سے یہاں پیش کیا جا رہا ہے
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔