مودی کی ’خدائی‘ خطرے میں... ظفر آغا
ہندوستانی جمہور مودی کی ’خدائی‘ کو لات لگانے کو تیار ہے، ضمنی چناؤ نتائج اس کے شاہد ہیں۔ لیکن ضرورت متحد اپوزیشن کو عوام کے دربار میں جانے کی ہے تاکہ 2019 میں نریندر مودی کی خدائی چکنا چور ہوجائے۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
اکثر حکمرانوں کو اقتدار کا نشہ خدائی کے گماں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ نریندر مودی بھی کچھ ایسے ہی حکمرانوں میں سے ہیں اور بھلا انہیں خدائی کا گماں کیوں نہ ہو! ایک معمولی سے چائے والا کب یہ خواب دیکھتا ہے کہ وہ حاکم وقت ہوگا۔ لیکن مودی تو ان چائے والوں میں سے ایک ہیں جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ایسے حاکم بن بیٹھے کہ جس کے ہر جھوٹ پر کروڑوں ہندوستانی اعتماد کر بیٹھے۔ لیکن جب فرعون کی خدائی اس دور میں نہ بر قرار رہی تو بھلاجمہوری نظام میں مودی کی خدائی کب تک چلتی۔
یہ ہندوستان ہے، پاکستان نہیں! یہاں جمہور کا سکہ چلتا ہے، حکمرانوں کا نہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ جمہور کبھی کبھی جھوٹے پروپیگنڈہ میں بہہ جائیں۔ اس سے بھی انکار نہیں ہوسکتا کہ ہندوستانی جمہور کی آنکھوں پر کبھی کبھار دھرم کا چشمہ چڑھ جائےہے۔ لیکن یہ ممکن ہی نہیں کہ ہندوستانی جمہور کی آنکھیں کبھی کھلے ہی نہیں۔ تب ہی تو نظیر اکبرآبادی نے ایک زمانہ پہلے ہی پیشن گوئی کر دی تھی کہ، ’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا۔‘ جی ہاں، ضمنی چناؤ کے جو ابھی نتائج آئے اور اس میں جمہور کی جو لات بی جے پی کو پڑی اس نے مودی کے ہوش تو اڑا ہی دیئے ہوں گیں۔ پتہ نہیں وزیر اعظم کا خدائی کا نشہ ہرن ہوا یا نہیں۔
لیکن پچھلے چند سالوں میں جو سیاسی تبدیلی نمایاں ہوئی ہے وہ اس بات کی شاہد ہے کہ اگر یہی حالات رہے تو 2019 نریندر مودی کے لئے بھاری ثابت ہوگا۔ مشرقی اتر پردیش میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی سیٹ سے لے کر مغربی اتر پردیش میں کیرانہ تک، پھر بہار، پنجاب، کرناٹک سے لے کر میگھالیہ تک الغرض سارے ملک کے کونے کونے میں مودی کا خمار ٹوٹ رہا ہے۔
اس سے قبل مودی کے ہاتھوں سے اپنی سرزمین گجرات جاتے جاتے بچی۔ پھر کوئی دو ہفتے قبل کرناٹک تو جاتا ہی رہا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کرناٹک نے مودی مخالف قوتوں کو اکٹھا ہونے کا راستہ بھی بتا دیا۔ سنہ 2014 کی زبردست کامیابی کے دور میں مودی کو محض 31 فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ 69 فیصد ووٹ پاکر اپوزیشن ناکا رہی تھی۔ سبب محض یہ تھا کہ ووٹ بٹ گیا اور مودی اقتدار کو پہنچ گئے۔ اب کیرانہ یہ صاف بتا رہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد بی جے پی کا قلعہ فتح کر سکتا ہے۔پھر اپوزیشن اس اتحاد کے لئے تیار بھی ہے۔ اس لئے مودی کی خدائی اب خطرے میں ہے۔
لیکن یہ خدائی کا نشہ بڑی بری لت ہے۔ یہ جلدی اترتا نہیں ہے۔ حکمرانی ایسی شئی ہے کہ وہ اگر خطرے میں پڑے تو حکمران اقتدار کا استعمال ہر سہی غلط شئی کے لئے کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ بھلے ہی عدالتوں نے نریندر مودی کو سنہ 2002 کے گجرات قتل و غارت کی ہنگامہ آرائی کے لئے سزا وار نہ ٹھہرایا ہو ، لیکن تاریخ مودی کے دامن پر لگے سنہ 2002 کے خون کے دھبوں کے لئے کبھی معاف نہیں کرے گی۔ یہ مودی کا وہ دور تھا جب وہ اپنی خدائی کی سمت میں شروعاتی قدم اٹھا رہے تھے۔ سنہ 2018 کا مودی تو خدائی کے نشے میں چور ہے۔ وہ حاکم ہند ہے، کسی چھوٹے موٹے صوبے کا حکمراں نہیں۔ اس لئے ڈوبتی خدائی کو بچانے کے لئے مودی پورے ملک کو سنہ 2002 کے گجرات کے رنگ میں بھی ڈبو سکتا ہے۔ پھر نریندر مودی سنگھ کے کاندھوں پر سوا رہے۔ مودی سنگھ کے ہندو راشٹر کی آخری تعبیر ہے۔ مودی کو اقتدار پر برقرار رکھنے کو سنگھ کے پیادے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
اس لئے ہندوستان ایک عجیب و غریب سیاسی دور میں داخل ہو چکا ہے۔ ایک طرف کرناٹک اور حالیہ ضمنی چناؤی نتائج نے ملک کی فضا ہی نہیں بدلی ہے بلکہ ملک کے لئے ایک نیا راستہ بھی پیدا کیا ہے۔ دوسری جانب مودی اور مودی حامی طاقتیں اپنی خدائی بچانے کو کسی حد تک جا سکتی ہیں۔ اسی صورت حال سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے ہندوستانی جمہور۔یعنی اب ضرورت محض اپوزیش اتحاد کی ہی نہیں بلکہ اپوزیش اتحاد کے پرچم تلے پورے ملک کے ہر صوبے میں بڑی بڑی ریلیوں کی بھی ضرورت ہے۔ان ریلیوں میں ہندوستانی جمہور کو محض مودی کی ناکامیوں کا احساس دلانے کی ضرورت نہیں بلکہ ساتھ ساتھ مودی کی ’باٹو اور راج کرو‘ سیاست کے خطرے سے آگاہ کرنے کی بھی سخت ضرورت ہے۔ ہندوستان اب ایک ایسے مقام پر ہے کہ جہاں وہ 1947 میں انگریزوں کی اسی ’باٹو اور راج کرو‘ حکمت عملی کو نہیں سمجھ سکا، وہی ہندوستان اب مودی کی اس خطرناک سیاست کو سمجھ سکتا ہے۔
لب لباب یہ کہ ہندوستانی جمہور مودی کی ’خدائی‘ کو لات لگانے کو تیار ہے۔ ضمنی چناؤ نتائج اس کے شاہد ہیں۔ لیکن پھر بھی ضرورت متحد اپوزیشن کے عوام کے دربار میں جانے کی ہے۔تاکہ سنہ 2019 میں نریندر مودی کی خدائی چکنا چور ہوجائے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 01 Jun 2018, 12:38 PM