ملک کو پولس اسٹیٹ میں بدلنے کی تیاری! ...م-افضل
ملک میں مسلمانوں کے خلاف جلد ہی این آر سی کے نام پر ایک نیا محاذ کھل سکتا ہے۔ ایسے میں شہریت سے متعلق تمام ضروری کاغذات تیار کروالیں کیونکہ ملک کو پولس اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کی پوری تیاری ہوچکی ہے۔
این آئی اے (قومی تفتیشی ایجنسی) ترمیمی بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری مل چکی ہے۔ ضرورت کے مطابق ملک میں قانون بنائے جاتے ہیں اور ضرورت کے حساب سے اس میں ترمیم بھی ہوتی ہے لیکن جس طرح اس ترمیم کے ذریعہ این آئی اے کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے اس کے پیش نظر اسے معمول کی ترمیم نہیں کہا جاسکتا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ کسی بڑے منصوبہ کو ذہن میں رکھ کر پیش بندی کے طور پر یہ ترمیم کی گئی ہے اور یہ کسی طے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس ترمیمی بل کی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں کانگریس اور دوسری ہم خیال اپوزیشن پارٹیوں نے نہ صرف شدید مخالفت کی بلکہ یہ الزام بھی لگایا کہ حکومت اس ایجنسی کا سیاسی طور پرغلط استعمال کر کے ہندوستان کو پولس اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس ترمیمی بل کا مسودہ این آئی اے کے سابق اسپیشل ڈائریکٹر این آر واسن نے تیار کیا ہے۔ ترمیمی بل کی اہمیت اور افادیت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ26/11 کے ممبئی حملوں کے معاملہ میں ڈیوڈ ہیڈلی کو اس لئے سزا دینے میں کامیاب ہوا کیونکہ ان کے پاس یہ قانون موجود تھا کہ کسی دوسرے ملک میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ میں وہ معاملہ درج کرسکیں۔ قابل ذکر ہے کہ ممبئی حملوں میں امریکی شہری بھی مارے گئے تھے۔ مسٹر واسن کہتے ہیں کہ این آئی اے کے پاس اس طرح کی کوئی طاقت نہیں تھی گویا موجودہ ترمیم کے بعد اسے غیر ملکی سرزمین پر بھی تفتیش کرنے اور ملزمان کے خلاف کارروائی کا اختیار مل جائے گا۔ بلاشبہ یہ اچھی بات ہے۔
ایجنسی کو بااختیار اور طاقتور بنانے پر بھلا کسے اعتراض ہوسکتا ہے لیکن بات یہیں تک محدود نہیں ہے اسے اور بھی دوسرے اختیارات دیئے گئے ہیں اور اگر ان اختیارات کا صحیح اور شفاف طریقہ سے استعمال نہیں ہوا تو پھر یہ طے ہے کہ ٹاڈا، پوٹا اور مکوکا کی طرح ان اختیارات کا غلط استعمال بھی ایجنسی اقلیتوں، دلتوں اور محروم طبقات کے خلاف دھڑلے سے کرے گی اور تب اگر اس کی مخالفت بھی کی جائے گی تو اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوگا، کیونکہ اس صورت میں ایجنسی اپنے اختیارات کا حوالہ دے گی۔ اس ترمیم کے ذریعہ این آئی اے کو ایک بڑا اختیار یہ دیا گیا ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کے خلاف اپنے طور پر فیصلہ لے کر کارروائی کرنے کی مجاز ہوگی، کسی بھی ریاست میں داخل ہونے کی اسے مکمل آزادی ہوگی، اس کے لئے اسے متعلقہ ریاستی حکومت سے اجازت لینے کی بھی ضرورت نہ ہوگی اور اسے معاملہ کی تفتیش کرنے اور لوگوں کو گرفتار کرنے کا اختیار بھی ہوگا۔
کانگریس اور دوسری پارٹیوں کو درحقیقت اسی پہلو پر اعتراض تھا۔ ان کی طرف سے اس خدشہ کا اظہار کیا گیا کہ ایسا کرنے سے ایجنسی ’شتر بے مہار‘ ہو جائے گی۔ وزیر داخلہ کی حیثیت سے امت شاہ نے لوک سبھا میں نہ صرف اس بل کو وقت کی ضرورت قرار دیا بلکہ یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ اس قانون کا کبھی غلط استعمال نہیں ہوگا اور بلا لحاظ مذہب و قوم اس کا استعمال دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے کیا جائے گا۔ لیکن کیا واقعی اس بل کو لانے کے پیچھے حقیقی منشا یہی ہے؟ نہیں شاید نہیں۔
اس روز امت شاہ کی طویل تقریر کے بعد لوک سبھا میں جب بی جے پی کے ایک ممبر بل کی حمایت میں قصیدہ خوانی کر رہے تھے توایک مسلم ممبر نے این آئی اے کی غیر جانب داری پر سوال اٹھاتے ہوئے ان سے یہ پوچھا کہ مکہ مسجد دھماکہ میں ملزمین کی رہائی کو این آئی اے چیلنج کیوں نہیں کر رہی ہے؟ تو بی جے پی کے مذکورہ ممبر نے یہ الزام لگایا کہ ملزمین (سب مسلمان تھے) کی رہائی کے لیے ریاستی وزیراعلیٰ نے دباؤ ڈالا تھا تو مسلم ممبر نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ جھوٹ ہے۔ پھر کیا تھا امت شاہ جی غصہ میں کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اس ممبر پارلیمنٹ کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے یہ نصیحت کی کہ وہ سچ سننے کی عادت ڈالیں۔ اس پر اس ممبر نے کہا کہ کیا آپ مجھے ڈرا رہے ہیں تو شاہ کا جواب تھا کہ نہیں میں ڈرانے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں لیکن اگر کسی کے ذہن میں ڈر گھر کر گیا ہوتو کیا کیا جاسکتا ہے؟
واضح ہو کہ سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ میں سوامی اسیمانند کو گرفتار کیا گیا تھا جس نے بعد میں ایک مجسٹریٹ کے حضور اپنا حلفیہ بیان قلمبند کرایا تھا اور نہ صرف مکہ مسجد اور اجمیر درگاہ بم دھماکہ میں ملوث ہونے کی ذمہ داری قبول کی تھی بلکہ یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ ملک میں ہوئے متعدد اہم بم دھماکوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں آرایس ایس نواز بھگوا تنظیموں کا ہاتھ ہے۔ اس حلفیہ بیان کے بعد سوامی اسیمانند کو مکہ مسجد دھماکہ میں بھی ملزم بنایا گیا تھا اور اس الزام میں گرفتار تمام مسلم نوجوانوں کو ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا، مگر اب سوامی اسیمانند بھی رہا ہوچکا ہے اور این آئی اے نے اس کی رہائی کو اب تک چیلنج نہیں کیا ہے۔ مذکورہ مسلم ممبر نے اسی پس منظر میں اپنا سوال کیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا کسی عوامی نمائندے کے تعلق سے ملک کے وزیر داخلہ کا ایسا رویہ ہونا چاہیے تھا؟ جمہوریت کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ عوام اپنی پسند کا نمائندہ چنتے ہیں اور یہ نمائندے پارلیمنٹ میں اس کے احساسات اور مسائل کی ترجمانی کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف پارلیمنٹ میں عوام کے مسائل پر آواز اٹھاتے ہیں بلکہ حکومت سے سوال کرنے کا جمہوری حق بھی انہیں حاصل ہے، مگر اقتدار کے نشہ میں چور خود کو جمہوریت کا علمبردار اور آئین کا محافظ کہنے والے ایک نمائندہ کویہ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچ سننے کی عادت ڈالے۔ آخر ایسا کیوں؟ اس کیوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ ذہن کھپانے کی ضرورت نہیں۔ درحقیقت شاہ نے ایسا کرکے آرایس ایس اور بی جے پی کی طے شدہ حکمت عملی کا برملا اظہار کردیا ہے۔ ورنہ وہ پارلیمنٹ میں یہ نہ کہتے کہ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کا معاملہ فرضی طور پر تیار کیا گیا تھا اور اس کا مقصد ایک خاص مذہب کو دہشت گردی سے جوڑنا تھا۔ شاہ نے سوامی اسیمانند کا نام تو نہیں لیا لیکن ایسا کہہ کر انہوں نے سوامی اسیمانند کی بے گناہی( رہائی) کو درست ٹھہرانے کی کوشش کی۔
بظاہر بی جے پی بھی کہتی ہے کہ دہشت گردی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس کا یہ کہنا بھی ٹھیک اسی طرح ہے جس طرح ہمارے وزیراعظم اور دوسرے لوگ جمہوریت کا قصیدہ پڑھتے ہیں اور آئین کی قسمیں کھاتے ہیں، مگر عمل جمہوریت اور آئین کی قدروںاور ہدایات کے برخلاف ہوتا ہے اسی طرح گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفہ کی غیر ممالک میں تشہیر کی جاتی ہے مگر اندرون ملک ہر روز گاندھی کے اصولوں کا خون کیا جاتا ہے۔
1993میں ممبئی بم دھماکوں کے بعد ٹاڈا جیسا سیاہ قانون لایا گیا تھا۔ اس قانون کی آڑ میں مسلمانوں پر ایسے مظالم ڈھائے گئے کہ خدا کی پناہ۔ حالات ایسے تھے کہ تب اس سیاہ قانون کے خلاف لوگ بولنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہے تھے۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو انہیں بھی دہشت گرد سمجھ لیا جائے گا۔ اس سیاہ قانون کے خلاف سب سے پہلے میں نے راجیہ سبھا میں صدائے احتجاج بلند کی تھی اور تب مجھ سے پارلیمنٹ میں بعض ممبرساتھیوں نے کہا تھا کہ آپ نے کتنا خطرناک معاملہ اٹھایا ہے اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ آپ کو شاید نہیں معلوم۔
مجھے فون پر مسلسل دھمکیاں بھی ملتی رہیں مگر میں ثبوت وشواہد کے ساتھ ٹاڈا کے خلاف مسلسل آواز اٹھاتا رہا اور پھر رفتہ رفتہ دوسرے ممبروں کی بھی مجھے حمایت حاصل ہوگئی۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ اس وقت کے وزیرداخلہ کو پارلیمنٹ میں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ٹاڈا کے تحت زیادتیاں ہوئی ہیں اس کا غلط استعمال ہوا ہے۔ یہ قانون ختم ہوا تو پوٹا آگیا۔ پھر مکوکا لے آیا گیا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کی آڑ میں ان تمام قوانین کا غلط استعمال ہوا۔
تازہ اطلاعات ہیں کہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے جو موجودہ قانون ہے سرکار اس میں بھی ترمیم کرنے جا رہی ہے۔ اگر این آئی اے ترمیمی بل کی طرح اس ترمیم کو بھی منظوری مل گئی تو پھر حکومت کو یہ اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ کسی بھی شخص کو دہشت گرد قرار دے دے۔ حال ہی میں راجیہ سبھا میں ضمنی سوالات کا جواب دیتے ہوئے امت شاہ نے تقریباً دھمکی آمیز لہجہ میں کہا ہے کہ غیر قانونی شہریوں کو چن چن کر ملک بدر کیا جائے گا۔ این آئی اے ترمیمی بل اور دہشت گردی کے قانون میں ترمیم کی کوشش کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
مسلمانوں کے خلاف جلد ہی ملک بھر میں این آر سی کے نام پر ایک نیا محاذ کھل سکتا ہے۔ این آر سی کی تیاری کی آڑ میں آسام میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہی کچھ پورے ملک میں ہوسکتا ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ ہم غافل نہ بیٹھیں بلکہ اپنے اور خاندان کے دوسرے لوگوں کی شہریت سے متعلق تمام ضروری کاغذات تیار کروالیں اس لئے کہ ملک کو پولس اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کی پوری تیاری ہوچکی ہے۔ جس میں حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کا کسی کوحق حاصل نہ ہوگا، ان کا اصل نشانہ مسلمان ہو گے، امت شاہ نے غیر قانونی شہریوں کی جو اصطلاح استعمال کی ہے اس سے مراد مسلمان ہیں دوسرے شہری نہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 21 Jul 2019, 9:10 PM