مودی حکومت آئینی اداروں کی خود مختاری کو ختم کرنے پر آمادہ
جمہوریت جس قدر کمزور ہوگی، آمریت مضبوط سے مضبوط تر ہوگی۔ نریندر مودی کو آمریت کی طرف تیزی سے بڑھتا ہوا بتایا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ملک، دستور اور سیاسی نظام کے لئے بہت بڑا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
آج سے تقریباً 14سال قبل یعنی 12 اکتوبر 2005 کوحق اطلاعات قانون (آر ٹی آئی)عمل میں آیا تھا۔ یہ قانون پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں بہت باریکی سے غور وفکر اور صلاح ومشورے کے بعد اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا۔ اس کے تحت کسی بھی شہری کوحکومت کے کسی بھی کام یا فیصلے کی معلومات حاصل کرنے کا حق حاصل ہے- طویل اورمسلسل جدوجہد کے بعد منموہن سنگھ کی قیادت والی یوپی اے حکومت کی طرف سے نافذ کیے گئے اس قانون کی وجہ سے بہت حد تک شفافیت آئی تھی۔ عام آدمی آسانی سے سرکاری محکموں میں درخواست دے کر 30 دنوں میں متعلقہ معلومات حاصل کرلیتا تھا۔ لیکن مودی حکومت نہ صرف اس قانون کو کمزور کرنا چاہتی ہے بلکہ آئینی اداروں کی خود مختاری ختم کرکے انہیں اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان حالات میں بی جے پی حکومت کی نیت پرشک گہرا ہوگیا ہے یا یوں کہا جائے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ شہری اس سے سوال پوچھیں یا اس کے کسی فیصلے کی مخالفت کریں۔ حکومت لوگوں کو معلومات نہیں دینا چاہ رہی ہے اور اسی لئے اس قانون کو کمزور کرنے کے لئے حکومت اس میں ترمیم کرنا چاہتی ہے۔
آرٹی آئی کو آزاد ہندوستان میں اب تک کے سب سے کامیاب قوانین میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس قانون کے تحت ہرسال60 لاکھ سے زیادہ شہری معلومات حاصل کرنے کے لئے درخواست دیتے ہیں۔ باوجود اس کے مرکز کی مودی حکومت اس قانون کو متاثرکرنے کے لئے پارلیمنٹ میں ترمیمی بل لائی ہے جس کے خلاف سیاسی اور سماجی حلقوں کی جانب سے سخت مخالفت کی جا رہی ہے مگر حکومت اس قانون میں ’منمانی‘ کرنے پر بضد ہے۔ دراصل مودی حکومت چیف انفارمیشن کمشنر اور انفارمیشن کمشنروں نیز ریاستی چیف انفارمیشن کمشنر اور ریاستی انفارمیشن کمشنروں کی تنخواہ، الاؤنس اور سروس کی شرائط کے ساتھ ہی ریاستوں کے انفارمیشن کمشنروں کی مدتِ کار، تنخواہ، بھتہ اور سروس شرائط اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے جس سے حکومت کی نیت میں کھوٹ صاف طور پرنظر آرہی ہے۔ موجودہ حکومت کی مجوزہ ترمیم آرٹی آئی کو بیحد کمزور کرنے والی بتائی جا رہی ہے۔ اصل قانون میں چیف انفارمیشن کمشنر اور انفارمیشن کمشنروں کی تنخواہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنروں کے مساوی ہے۔ ترمیمی بل میں چیف انفارمیشن کمشنر اور انفارمیشن کمشنروں کی میعاد کار میں تبدیلی کی بھی تجویزکی گئی ہے۔
الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جو آئین کی شق 324 کے تحت قائم ہے۔ یہ مرکز میں پارلیمنٹ اور ریاستوں میں اسمبلیوں کے لئے انتخابات کراتا ہے اور صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرتا ہے جو آئینی عہدے ہیں جبکہ انفارمیشن کمیشن ایک قانونی ادارہ ہے جو آر ٹی آئی ایکٹ 2005 کے ذریعہ قائم ہے۔ چونکہ مرکزی الیکشن کمیشن، مرکزی انفارمیشن کمیشن اور ریاستی انفارمیشن کمیشن کے دائرہ اختیار الگ الگ ہیں لہٰذا ان کے عہدے اور سروس شرائط کو منطقی بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ ملک میں آر ٹی آئی قانون نافذ کرنے کے دوران پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں بہت گہرائی اورباریکی سے تبادلہ خیال ہوا تھا اور مانا گیا کہ کیا انفارمیشن کمشنروں کا بھی ملک کے چیف الیکشن کمشنر کے برابر درجہ ہونا چاہیے لیکن این ڈی اے حکومت نہ صرف مرکزی انفارمیشن کمیشن کے کمشنروں کی تنخواہ، بھتے اور سروس شرائط اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے بلکہ مختلف ریاستوں کے انفارمیشن کمشنروں کی مدت، تنخواہ، بھتے اور سروس شرائط پر بھی کنٹرول چاہتی ہے۔ اس سے اس کی نیت پر شک ہونا فطری ہے۔
آرٹی آئی قانون ہندستان کی پارلیمنٹ کی جانب سے بنایا گیا ایک قانون ہے تاکہ حق معلومات کی عملی حکمرانی قائم ہو سکے۔ یہ سابقہ آزادیِ معلومات قانون، 2002 کی جگہ لیتا ہے۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی شہری کسی حکومت یا اس کے ادارہ یا ریاست سے معلومات کی درخواست کر سکتا ہے جس پر فوری طور پر یا 30 دن کے اندرجواب دیا جانا چاہیے۔ آر ٹی آئی قانون کو کمزور کرنے کا مقصد جمہوریت کو کمزور کرنا اور موجودہ مودی حکومت کو مضبوط کرنا ہے۔ در اصل جس قدر جمہوریت کمزور ہوگی اسی قدر آمریت مضبوط سے مضبوط تر ہوگی۔
نریندر مودی کو ہر لحاظ سے آمریت کی طرف تیزی سے بڑھتا ہوا بتایا جارہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ملک، دستور اور سیاسی نظام کے لئے بہت بڑا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جتنے خود مختار ادارے ہیں ان کے پر کاٹنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ آر ٹی آئی قانون میں ترمیم اسی کا ساخشانہ ہے۔ اب تک یہی التزام ہے کہ انفارمیشن کمشنر کی مدت کار5 سال کی ہوگی اور زیادہ سے زیادہ عمر کی حد 65 سال ہوگی۔ اس میں جو بھی پہلے پورا ہوگا، وہیں سروس ختم ہوگی۔ یہ مدت بھی اب مرکزی حکومت کی طرف سے مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ یعنی چیف انفارمیشن کمشنر اور انفارمیشن کمشنر کی مدت وہ ہو گی جو حکومت طے کرے گی۔ اس سے پہلے 2018 میں بھی یہ بل پیش ہوا تھا اور ممبران پارلیمنٹ میں تقسیم بھی ہو گیا تھا لیکن اپوزیشن اور سماجی حلقوں کی طرف سے سخت مخالفت کی وجہ سے مودی حکومت کو اپنے قدم پیچھے کھینچنے پڑے تھے۔
دراصل یہ انفارمیشن کمیشن کو ملی خود مختاری کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہے۔ ترمیمی بل کے ذریعے مرکزی حکومت ساری طاقتیں اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے جس سے ہندوستان کا وفاقی ڈھانچہ کمزور ہوگا۔ اب تک چیف انفارمیشن کمشنر اور انفارمیشن کمشنر کو چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنر کے برابر تنخواہ ملتی ہے جبکہ ریاستی چیف انفارمیشن کمشنر اور ریاستی انفارمیشن کمشنر کو بالترتیب الیکشن کمشنر اور ریاستی حکومت کے چیف سکریٹری کے برابر تنخواہ ملتی ہے۔ آر ٹی آئی ایکٹ کی شق 13 اور 15 میں مرکزی انفارمیشن کمشنر اور ریاستی انفارمیشن کمشنروں کی تنخواہ، الاؤنس اور دیگر سہولیات کا تعین کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ مرکز کی مودی حکومت اسی میں ترمیم کرنے کے لئے بل لے کر آئی ہے۔ اب تک تمام ریاستوں کے انفارمیشن کمشنروں کو ریاست کی طرف سے تنخواہ دی جاتی تھی جس پر مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا تھا لیکن نئے بل میں اس نظام کو ختم کر دیا گیا ہے۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ مرکزی انفارمیشن کمشنر، انفارمیشن کمشنر اور ریاست کے چیف انفارمیشن کمشنر وغیرہ کی حیثیت اس وقت سپریم کورٹ کے جج کے برابر ہے۔ اگر یہ کم کر دی جائے گی تو حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو ہدایت جاری کرنے کا ان کا حق بھی کم ہو جائے گا۔ اس سے آر ٹی آئی ایکٹ کی طاقت ختم ہو جائے گی، یہ وفاق اور جمہوریت کو بھی کمزور کرے گا۔
حکومت نے بل میں ترمیم سے پہلے اسے ماہرین اور عوام کے درمیان مشاورت کے لئے نہیں رکھا، پھر ایسے بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے پہلے اس کی ایک کاپی دو دن پہلے ممبران پارلیمنٹ کو دی جاتی ہے، حکومت نے اس روایت کا بھی پاس ولحاظ نہیں رکھا۔ آج مختلف ریاستوں میں آر ٹی آئی کی فیس مختلف ہے لیکن مرکزی حکومت اس میں یکسانیت نہیں لا رہی، مرکز میں پہلی اوردوسری اپیلیں مفت ہیں مگر ریاستوں میں دونوں اپیلوں میں فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ سب سے پہلے تو تمام ریاستوں میں فیس یکساں کرنے کی ضرورت ہے۔ تعجب خیزبات یہ ہے کہ انفارمیشن کمیشن کی طرف سے منظور ہزاروں احکامات کو ماننے سے حکومتیں انکار کرتی آ رہی ہیں۔ آج پورے ملک میں ہر سطح پر آر ٹی آئی قانون کو لے کر کئی تضاد ہیں۔ انہیں دورکرنے کی بجائے حکومت قانون کو ہی ناکام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اعلیٰ پیمانے پر تحریک کے بعد یہ قانون نافذ کیا گیا تھا مگرموجودہ حالات یہی اشارے کررہے ہیں کہ اب شہریوں کو اس قانون کو بچائے رکھنے کے لئے ایک بار پھر تحریک کے لئے سڑک پر اترنا پڑے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 25 Jul 2019, 7:10 PM