یوگی سرکار نے میر تقی میر کو بھی نہ بخشا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

حسین افسر

مرکز کی مودی اور یو پی کی یوگی سرکار کے ایجنڈے میں شاید مسلمانوں یاا ردو کے تعلق سے ہستیوں اور ان کی یادگاروں کو مٹانے کا ایجنڈا سر فہرست ہے۔ تاج محل،قطب مینار،ایودھیا اور انگنت ایسے موضوعات ہیں جن سے سیکولر اور انصاف پسندوں کو وحشت ہو رہی ہے،مگر کون سنتا ہے صدائے درویش۔

بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے ہمنواؤں کو خوش کرنے کے لئے کبھی جھانکی دکھاتی ہے اور کبھی کبھی پوری فلم کو ہی پیش کر دیتی ہے۔ایودھیا میں دیپاولی منانا کوئی بری بات نہیں ۔لیکن اس کا خرچ آخر کہاں سے کیا گیا یہ ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب ابھی تک نہیں آیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ تاثر دینا کہ اب گویا بابری مسجد کے مسمار ٹیلے پر کسی رام مندر کی تعمیر کا وقت آگیا ہے اور اسی کے پیش نظر ہراول دستے نے ایودھیا میں مقامی اور غیر مقامی لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ راجہ رام کی راجدھانی میں اب ان کا عالیشان مندر عنقریب تعمیر ہونا شروع ہو جائے گا۔

بہرحال ابھی تک اکبر،بابر،اور نگ زیب وغیرہ فرقہ پرستوں کے کٹہرے میں کھڑے تھے اب شاعروں پر بھی وار شروع ہو گیا ہے۔ یہ بھی ایک لٹمس پیپر ٹسٹ ہے جس کی طاقت اور اثر کو ناپا جا رہاہے کہ آخر چاہنے والے کس حد تک جھنجھلاتے ہیں اور ان کا رد عمل کیا ہوتا ہے۔

گزشتہ دنوں لکھنؤ کے سٹی اسٹیشن واقع محلہ میں عظیم شاعر میر تقی میرؔ کے نام کی ایک سڑک کا پتھر مقامی نگر نگم نے ’سوچھ بھارت ‘مہم کے تحت بلڈوز کردیا۔ اس پتھر کو نگر نگم کے اہلکار ایک ٹرک پر لاد کر لے گئے اور سڑک کو ویران کردیا۔

میر تقی میرؔ کی شاعری اور ان کی عظمت کو دبیر الملک،نجم الدولہ اسد اللہ خاں غالبؔ نے بھی خوب تسلیم کیا تھا۔میرؔ کی عظمت میں غالبؔ کا یہ شعر زبان زد ہے:

ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالبؔ

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

بہر کیف جس میرؔ نے دہلی اور آگرہ سے ہجرت کی اور لکھنو کو اپنا مسکن بنایا اور جہاں نواب آصف الدولہ نے ا ن کی پذیرائی کی اور ان کو اپنے مخصوصین میں شامل کیا ان کی گت مرنے کے بعد اب بی جے پی سرکار نے خوب لگائی ہے۔ میر تقی میرؔ کی یاد میں اردو کے دلدادہ مقبول احمد لاری مرحوم نے نشان میرؔ قائم کیا تھا۔سٹی اسٹیشن کے باہر ایک مختصر پارک میں ا ن کا مجسمہ تو نہیں مگر ان کی یاد میں لکڑی کی ایک کتاب اور اس پر قلم دوات کی شبیہ رکھ کر ایک پتھر نصب کروا دیا تھا۔محلہ کے دھوبیوں نے پہلے تو اس پارک میں دھوئے گئے کپڑے الگنیوں پر لٹکانا شروع کئے رفتہ رفتہ کتاب اور قلم و دوات غائب ہوئے اور اب ایک ستون بچا ہے جس پر پرندے بالخصوص کووے بیٹھتے ہیں۔


















یوگی سرکار نے میر تقی میر کو بھی نہ بخشا

میرؔ تنک مزاج تھے اور اپنی زبان کے تئیں کافی محتاط رہتے تھے۔ان کو ہمہ وقت یہ خیال رہتا تھا کہ کہیں ا ن کی زبان یہاں خراب نہ ہو جائے اور لوگوں سے کم ہی راہ و رسم رکھتے تھے۔مگر ان کی شاعری کی دھوم دور دور تک پہنچی۔حالانکہ دہلی کے اجڑنے کے بعد سے ا ن کو کہیں وہ سکون نصیب نہیں ہوا جس کے وہ متلاشی تھے۔انہوں نے مرکے بھی چین نہ پایا اور انتقال کے بعد ان کی قبر کا آج تک پتہ نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے سٹی اسٹیشن کی ریل کی پٹریاں اس قبرستان پر بچھا دیں جس میں میرؔ کی بھی قبر تھی۔تاریخ یہ بھی نہیں بتا سکی کہ ان کی قبر کی اصل جگہ کہاں ہے۔

بہر کیف سرکاری پانڈے جی، شکلا جی، خاں صاحب اور ایسے کتنے نکمے اور نا اہل عہدے دار و اہلکار ہیں جنہوں نے لکھنؤ کی یادگاروں کو جم کر لوٹا،انگریزوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آثار کو بھی نیست و نابود کر دیاگیا۔

سٹی اسٹیشن کے ریلوے کے چھتے کے نیچے والی سڑک میر تقی میر کے نام معنون تھی اب شاید کسی دین دیال اپادھیائے یا ویر ساورکر کے نام اگر معنون کر دی جائے تو ہم کو تعجب نہیں ہوگا۔ مگر افسوس ہے کہ میر تقی میرؔ کے نام کی اس سڑک کا جب پتھر توڑ کر ٹرک میں لادا گیا تو اس کے بعد بھی اخبارات یا دانشوروں نے فریاد کی کوئی لے اختیار نہیں کی۔ہم واقعی زبردست بے حسی کا شکار ہیں ،ہمارے ہاتھ سے سب نکل گیا، ہمارے ہاتھوں سے سب نکلتا جا رہا ہے اور ہم غافل پارٹیوں کی حاشیہ برداری اور زندہ باد اور مردہ باد میں مصروف ہیں۔ لعنت ہو اس بے ہوشی پر۔

میرؔ ٹک روتے روتے سو گیا ہے،لیکن ہم نے اس سوتے ہوئے عظیم شاعر کو قبر میں بھی جھنجھوڑ دیا۔افسوس صد افسوس۔ شاید اپنی اسی بدحالی پر میر نے یہ غزل لکھی تھی جو پیش خدمت ہے

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے

_____________________________

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے

یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک

شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے

خانۂ دل سے زینہار نہ جا

کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے

نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا

شور اک آسماں سے اٹھتا ہے

لڑتی ہے اس کی چشم شوخ جہاں

ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے

سدھ لے گھر کی بھی شعلۂ آواز

دود کچھ آشیاں سے اٹھتا ہے

بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو

جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے

یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم

جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے

عشق اک میرؔ بھاری پتھر ہے

کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Oct 2017, 9:36 PM