موب لنچنگ: نفرت کا سیاسی ہتھیار
لوگوں کو تقسیم کر اقتدار پر قابض رہنے کا سب سے تازہ اور نیا ہتھیار ’بھیڑ کا تشدد‘ یعنی موب لنچنگ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ اس ہتھیار کی خطرناکی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ اس ہتھیار کو گئو رکشا اور راشٹرواد کی بھٹی میں جھونک کر مزید نکیلا بنایا جا رہا ہے۔ آپسی اعتماد میں عدم اعتماد کی آگ لگا کر اس ہتھیار کو ہندوتوا اور رائٹ وِنگ نظریہ میں لپیٹ کر اور زیادہ زہریلا بنایا جا رہا ہے۔
یہ سب اچانک نہیں ہوا ہے۔ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت یہ سب کیا جا رہا ہے۔ سازش اتنی گہری ہے کہ کب لوگ ہتھیار بن گئے انھیں اس کا احساس تک نہیں ہوا۔ اور وہ لوگوں کو صرف شبہات کی بنیاد پر مار رہے ہیں۔ اس میں ہلاک وہ ہو رہے ہیں جنھیں ان کا قصور تک نہیں بتایا جا رہا ہے۔ محض شبہات کی بناد پر مارنے والے، قصور بتاتے بھی کہاں ہیں۔ بساہڑا گاؤں کا اخلاق ہو، ٹرین میں سفر کرتا جنید ہو، الور کا پہلو خان ہو یا پھر اب محمد عمر۔ سب کے سب صرف شبہات کی بنیاد پر مارے گئےاور ان کی کوئی سننے کو تیار نہیں۔
تشدد کا یہ ہتھیار اب خوفناک شکل اختیار کر گیا ہے۔ پہلے صرف تشدد پر آمادہ بھیڑ مار رہی تھی، لیکن اب ان کا ساتھ سرکاری مشنری بھی دے رہی ہے۔ میڈیا نے اسے ’موب لنچنگ‘ کہنا شروع کر دیا، جس کا اصل میں کوئی معنی ہوتا ہی نہیں ہے، صرف اس کے کہ دنیا کو صاف صاف نہ پتہ چل سکے کہ تشدد کے اس واقعہ کی وجہ کیا ہے۔
مشتعل بھیڑ کا تشدد کئی بار فوری عمل ضرور معلوم ہوتا ہے لیکن ایسا ہے نہیں۔ کیونکہ اس کی زمین تو مستقل جاری اس سیاسی تشہیر نے تیار کیا ہوتا ہے جس میں مسلمانوں کے خلاف اندیشوں اور نفرت کا ماحول بنایا گیا ہے۔ ہندوتوا اور رائٹ وِنگ لیڈر گئو رکشا کی برسرعام بات کرتے جھجک محسوس نہیں کرتے۔ ان میں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے لے کر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت تک شامل ہیں۔
اسی سال دسہرا کے موقع پر آر ایس ایس کی یومِ تاسیس پر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اپنے پیغام میں واضح لفظوں میں کہا تھا کہ گئو رکشا کو تشدد سے جوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’وجیلانتے یعنی دفاع اور احتیاط لفظ کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ تمام دانشور اور سپریم کورٹ اس لفظ کا غلط استعمال کر رہےہیں، گئو رکشک اس سے نہ فکر مند ہوں اور نہ ہی پریشان۔ اس لفظ کا استعمال کر کے کچھ طاقتیں سبھی کے نظریات کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جس کے چنگل سے حکومت اور انتظامیہ دونوں کو نکلنا ہوگا۔‘‘
موہن بھاگوت نے گائے کے نام پر تشدد کے خلاف وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ کی گئی سخت تنبیہ کے ضمن میں کہا تھا کہ گئو رکشا کے لیے پاکیزگی کے ساتھ منسلک سویم سیوک حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز اشخاص کے بیانات اور پٹائی سے متعلق تشدد میں شامل لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے حکومتوں اور سپریم کورٹ کی ہدایات سے نہ گھبرائیں۔
سخت گیر ہندوتوا میں موہن بھاگوت کا پیغام پاکیزہ ہوتا ہے۔ اور جب موہن بھاگوت نے خود کہہ دیا کہ گئو رکشک نہ سپریم کورٹ کے تبصروں اور نہ ہی سرکار کی تنبیہ سے پریشان ہوں، تو پھر اس تشدد پر آمادہ بھیڑ کو کون روکے گا۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ دہلی سے لے کر جے پور تک اور احمد آباد سے لے کر لکھنؤ تک بھگوا ہی لہرا رہا ہو۔
کچھ دن پہلے بھیڑ کی تشدد پر ایک ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے ، جانے مانے ماہر نفسیات آشیش نندی نے کہا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ناراض ہیں، مایوس ہیں لیکن انھیں معلوم کہ ایسا کیوں ہے۔ آشیش نندی نے کہا تھا کہ ’’اس وقت ملک میں مختلف گروہوں کو آپس میں لڑوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ راشٹرواد، گئو رکشا جیسے جذبات کو تیز کیا جا رہا ہے تاکہ لوگ آپس میں لڑیں اور سیاسی پارٹی ان پر راج کریں۔‘‘
یہ اقتدار حاصل کرنے یا پہلے سے حاصل کیے گئے اقتدار پر قابض رہنے کی سازش ہی ہے کہ آر ایس ایس سے منسلک تنظیم وشو ہندو پریشد گئو رکشکوں کو قاتل ماننے کو تیار ہی نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ’جو رکشک ہے وہ قاتل‘ کیسے ہو سکتا ہے۔ وشو ہندو پریشد کے اس بیان کی نہ تو کبھی آر ایس ایس اور نہ ہی بی جے پی نے مخالفت یا تنقید کی۔ ایسی صورت میں گئو رکشا کے نام پر تشدد کا ماحول پیدا کرنے والے مشتعل لوگوں کی بھیڑ آخر بے قابو کیسے نہیں ہوگی۔
ویسے بھی جب ملک کا وزیر اعظم وہ شخص ہو جس نے گجرات کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے فرضی انکاؤنٹر کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی، ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ ایسا ہو جس کی سیاسی زندگی کی بنیاد ہی مسلمانوں سے نفرت اور ان کے خلاف تشدد بھڑکانا رہا ہو، جب ملک کے قلب یعنی مدھیہ پردیش میں ایسا وزیر اعلیٰ ہو جس کی حکمرانی میں عصمت دری کو متفقہ طور پر بنایا گیا رشتہ کہا جا رہا ہو، جب برسراقتدار سیاسی پارٹی کا قومی صدر ایسا شخص ہو جسے مجرمانہ معاملوں کے سبب اس کی اپنی ریاست سے ہی نکال دیا گیا ہو، تو یہ مشتعل بھیڑ بے قابو تو ہوگی ہی۔ ان نام نہاد گئو رکشکوں کو پتہ ہے کہ ان کا کچھ نہیں بگڑنے والا۔ لیکن کچھ سنجیدہ سوال ہیں جن کے جواب تلاش کرنا انتہائی اہم ہیں، کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوا تو ہندوستان کا نام خطرے میں پڑ جائے گا۔ سوال یہ ہیں:
- اس مشتعل بھیڑ میں شامل لوگ کون ہیں؟
- کٹر ہندوتوا اور رائٹ وِنگ نظریات کے علاوہ بھی ان کی کوئی پہچان ہوگی؟
- کیا یہ وہ لوگ ہیں جو بے روزگاری، جھوٹے وعدوں اور اچھے دنوں کی ٹوٹی امید سے ناراض ہوئے ہیں؟
- کیا اسی غصے کو فرقہ پرستی کی تجربہ گاہ میں تیار ،نفرت کے زہر میں ڈبوکر اقتدار میں قابض رہنے کا ہتھیار بنایا گیا ہے؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔